• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سہمے، ڈرے ہوئے لوگ بھی آتش فشاں بن جاتے ہیں جب اضطراب سوچنے اور بھوک سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ہڑپ کرلے، یہ سہ جہتی سوچ ہی ہے جو خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں ہی کو نہیں، سفید پوشوں کو بھی معاشرتی و معاشی طور پر مفلوج بنا دیتی ہے!

سوچ کا ایک تیز دھارا یہ ہے کہ پیسہ نہیں ہوگا تو تعلیم، صحت اور انصاف کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فہم کا دوسرا دھارا یہ کہ یہاں وزرائے اعظم کو قانون سے ہٹ کر پھانسیاں، بڑوں کے بچے یا وہ خود مَقتل کی نذر یا جلاوطنی پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہم کس کھیت کی مولی ہیں، انصاف کی دیوی تو آنکھوں پر پٹی باندھے رکھتی ہے۔ فراست کا تیسرا دھارا رہی سہی ڈھارس کو بھی نیست و نابود کردیا ہے کہ گر کسی کے کسی قسم کے بھی محتاج ہو گئے تو سماجی و سیاسی و خاندانی گرداب میں سسک سسک کے مر جائیں گے!

ان سب چیزوں کے تناظر میں دھیان اس جانب جاتا ہے کہ صرف سائنس و ٹیکنالوجی ہی نہیں، اقوام کی اُٹھان کیلئے سوشل سائنٹسٹ، سوشل انجینئر یا سوشل ایجنٹ کا ہونا بھی گھٹن اور اندھیروں میں روشنی کی کرن کے مانند ہے۔ کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ اگر ’’بری پارٹیوں‘‘ کی بھی انسان دوست تنظیمیں کوچہ و بازار میں ہوں تو یہ سوشل ایجنٹس اور سوشل انجینئرز کا مسئلہ بھی حل ہو جائے، سیاستدان سے بڑا سوشل انجینئر کون ہو سکتا ہے؟ مگر یہ ضروری ہے کہ سیاستدان کو بھی یہ بات معلوم ہو! سیاستدان کہتا ہے سارا قصور سِول اور اسپیشل اسٹیبلشمنٹ کا ہے، طالب علم سوچنے لگا ہے گر تعلیم کی فراہمی نوکری کا سبب نہیں تو یہ کھوکھلی ہے، اسٹیبلشمنٹ کی سب اکائیاں سمجھتی ہیں کہ عام آدمی ہے ہی نکھٹو۔ کوئی پاکستان میں ناکام رہا تو دیارِ غیر جاکر پورے پاکستان کو کم فہم گرداننے لگا اور دور بیٹھ کر دیسیوں کی تقدیر بدلنے کے فارمولے گھڑنے کی خوش فہمی میں ہے۔ لوگوں کاحد سے زیادہ استحصال کرنے والا بھی جرنلزم کو مجموعی طور پر بلیک میلنگ سے جُڑا سمجھنے اور سمجھانے پر اُتر ا۔ کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں کہ عدالتوں، بیوروکریسی، پولیس اور ’’بڑے‘‘ جرنلزم سے کس قدر نفرت پھیلاتے ہیں، گر یہ اتنے ہی حسین و جمیل ہیں تو آئینے سے منہ کیوں چھپاتے ہیں؟ جرنلزم والوں سے بھی التماس ہے کہ آپ بھلے ہی غیرجانبدار نہ ہوں مگر سچ کا دامن چھوڑیں گے تو معاشرتی و سماجی پاپ لگے گا۔ خیر، استحقاق کی بانٹ سے ناآشنا معاشرہ ہے اور ہر کوئی خول در خول ہی نہیں دلدل میں بھی دھنستا جارہا ہے!

اچھا لگتا ہے جب میڈیا، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے بعد ریاست کے چوتھے ستون ہونے کا دعویدار ہوتا ہے لیکن جب تک میڈیا سیاسیات اور سماجیات کو ترازو پر رکھ کر برابری کا پیرہن، کھانا اور آکسیجن نہیں دے گا اپنا کردار ادا کر سکے گا، نہ مقام ہی پا سکے گا۔ رہنما متذکرہ چاروں ستونوں کے ہیں مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ سب دلدلوں میں جا ٹھہرے لیکن وہی بات کہ رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے۔ اجی، رہنما صرف سیاست کار نہیں ہوتا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسٹیٹس مین بھی ہو، تب جاکر وہ قومی بناؤ کے قرینوں کی نزاکتوں سے آشنا اور ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سیاست کو اشرافیہ کے چوبارے، خانقاہ اور حویلی سے تھڑے پر جب لائے تو انہوں نے دو لفظوں کا جاندار اور شاندار استعمال کیا، ایک لفظ ’’عوام‘‘ (اور عوام صحیح طور پر جمع میں لائے) اور دوسرا ’’استحصال‘‘ تھا۔ اب ہم جب لاہور میں بلاول ہاؤس کا خصوصی قیام دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ کوئی پبلک سیکرٹریٹ نہیں لگتا بلکہ ایک بالا خانہ دکھائی دیتا ہے، وہ بڑا گھر جس کے سائے پیپلز پارٹی کے نسبتاً چھوٹے اور بہت چھوٹے گھروں پر ایسے آئے کہ چھوٹے گھروں کی ضیائی تالیف ہی رک گئی۔ یہی بلاول بھٹو اور آصف زرداری بی بی اور بھٹو کی طرح کسی لاہوری لیڈر کے ہاں ٹھہرا کرتے تو مقامی لیڈر کا شملہ مزید اونچا ہوتا، ایسے میں تو ان کی آمد سے مقامی لیڈر شپ دب دبا ہی جاتی ہے مگر کہے کون؟ لاہور میں آتے تو لاہوریوں کی طرح تو بات ہی اور ہوتی۔ یہ ہم سیاست کے انمول سماجی پہلو کو اجاگر کر رہے ہیں کسی پر تنقید نہیں، اگر تنقید سمجھتا ہے تو اس کا بھی بھلا جو تعریف سمجھے تو اس کا بھی بھلا۔ ضمنی الیکشن این اے 133لاہور کی ’’جزوی جیت‘‘ کی خوشی میں لوگوں کو مٹھائیاں کھانے کیلئے محض بلایا گیا ہے، جایا نہیں گیا! وہ بھی چار پرانے ہی سیلفی چہرےایک آدھ اضافت کے ساتھ،حالانکہ ناقابلِ یقین ووٹ تو 33ہزار تھے، رنگ تو آگیا مگر ترنگ کیوں نہیں؟ اور خانیوال صوبائی ضمنی الیکشن کو سوکھا ہی جانے دیا، صوبائی قیادت کی بھی روایتی سیاسی ہلچل نہ دِکھی۔ ملتان میں بھی کسی بلاول ہاؤس کا ارادہ تو نہیں؟ کراچی یا لاڑکانہ میں یقیناً بلاول ہاؤس سجتے ہیں مگر نگر نگر میں پیپلز ہاؤسز ہی سوٹ کریں گے۔ کوئی ایسے ہی نہیں کہا جاتا کہ سیاسی ولاسٹی کا پہلا قرینہ قیادت کا کارکن کی جانب یوں جانا ہے جیسے کارکن کششِ ثقل ہو۔ باقی سب افسانے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ آج کچھ قارئین یہ سوچیں کہ سیاسیات سے کچھ یوں پھسلا ہوں کہ سماجیات پر بھی قدم نہیں جم رہے، گویا اسٹیٹ کی باتیں کرتا کرتا رئیل اسٹیٹ کی باتیں شروع کردیں، ایسا ہرگز نہیں، ہم تو محض نیشنل ڈی این اے کالونی کے خواہاں ہیں یا عام شہری کیلئے شہریہ ٹاؤن کے، اس کے علاوہ اپنا تو کوئی چکر مکر ہے ہی نہیں۔ ہاں، اتنا ضرور ہے، چاہت یہاں آکر رک گئی ہے کہ مافیا کی کوکھ سے جنم لینے والی اشرافیہ انسانی حقوق کو سمجھنے کی کوشش تو کرے تاہم عمران خان، میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو و آصف زرداری ایسے مافیا کم اشرافیہ سے دور بسیں۔ خود عوام نہ بنیں مگر عوام کے نباض اور مسیحا تو بنیں۔ یقین کیجئے بیدار مغز لوگ درباروں، مزاروں اور حصولِ اقتدار کے بغیر بھی دلوں پر راج کرتے ہیں۔ قوم کو سوشل انجینئرز کی آج آکسیجن جتنی ضرورت ہے۔

ڈرے سہمے لوگوں کیلئے عوام۔ رہبر ربط اور باہمی ربط کی رابطہ شاہراہوں کی تعمیر ضروری ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین