• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لاہور کے بعد خانیوال میں بھی پیپلز پارٹی کو غیر معملولی پذیرائی ملی

خانیوال میں ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی فتح ایک بار پھر پنجاب میں اس کی مقبولیت تو ثابت کرگئی ہے ،اس ضمنی انتخاب کے لئے اگرچہ تحریک انصاف نےپورا زور لگایا تھا اور تمام حربے استعمال کئے گئے تھے اور یہ توقع بھی تھی کہ نشاط ڈاہا کی بیوہ ہونے کے باعث تحریک انصاف کی امیدوار نورین نشاط کو ہمدردی کا ووٹ بھی ملے گا ،مگریہ توقعات پوری نہ ہوسکیں ،اس میں مقامی سیاسی گروپوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ،ہراج گروپ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بظاہر تحریک انصاف کے ساتھ ہے ،مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا سلیم کی حمایت کرتا رہا ،پھریہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن نے ایک بڑی منظم انتخابی مہم چلائی اور اس کے لاہور اور جنوبی پنجاب کے رہنما خانیوال میں آکر بیٹھے رہے ، ڈور ٹو ڈور کمپین بھی کی گئی ،یعنی اس الیکشن کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا ،جبکہ تحریک انصاف جو ہمیشہ الیکشن کا ماحول بنانے سے قاصر رہتی ہے۔ 

اس بار بھی اس طرح کی انتخابی مہم نہیں چلاسکی ،جس طرح کی اس بڑے کانٹے دارالیکشن کے لئے درکارتھی ، 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے یہ نشست جیتی تھی ،لیکن اس وقت تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے درمیان ہارجیت کا مارجن بہت کم رہا تھا ، اس بار حکومت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف اپنی امیدوار کو خاطرخواہ ووٹ دلوانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ 

مبصرین کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر چونکہ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے حکومت کے خلاف ایک منفی رویہ موجود ہے اور لوگ اس کی بری معاشی کارکردگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں ، آئے روز کے غلط معاشی فیصلوں کا شکار ہوکر لوگوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ، اس لئے اس کا اظہار اس الیکشن میں اس طرح ہوا کہ نہ صرف تحریک انصاف کو ووٹ کم پڑے ،بلکہ اس کی ہارکا مارجن بھی پہلے سے زیادہ ہوگیا ، ضمنی انتخاب میں عموماً ووٹوں کی شرح کم رہتی ہے ، جیسا کہ لاہور میں بھی دیکھنے میں آیا ،مگریہاں 48فی صد لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور انہیں جہاں موقع ملتا ہے ، وہ اپنے اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرکے جمہوری انداز میں ایک پیغام چھوڑ جاتے ہیں ،کہنے کو اس شکست میں بھی حکومتی جماعت نے کئی تاویلیں نکال لی ہیں ،مگر بنیادی حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بڑی تیزی سے زوال کی طرف جارہا ہے ،کہنے والے تویہ بھی کہتے ہیں کہ اگر لاہور کے حلقہ 133کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا امیدوار ہوتا ،تووہاں ووٹوں کی شرح زیادہ رہنی تھی ،کیونکہ حکومت کے خلاف ردعمل میں زیادہ ووٹر مسلم لیگ ن کے لئے باہر نکلتے ،جو ٹرینڈ خانیوال میں دیکھا گیا۔

وہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک ابھی تک پوری طرح موجود ہے اور باوجود حکومت کے پروپیگنڈے کے اس میں کوئی کمی نہیں آئی ،جیتنے والا امیدوار پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ناکام ہواتھا ، اس بار وہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر کامیاب ہوگیا ،یہ بات بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگ شخصیت کی بجائے پارٹی کوووٹ دیتے ہیں ،اس سے یہ تاثر بھی جنم لے رہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ کم ازکم پنجاب کی حد تک کامیابی کی ضمانت بن جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے کے لئے خاص طورپر الیکٹیبلزمیں وہ شدت نظرنہ آئے ،جو ماضی میں رہی ہے ،کیونکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتنے والے بھی ہار رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال نشاط خان ڈاہا کا خاندان ہے ،جو کئی بار اس نشست پر کامیاب ہوا۔

مگر اس بار تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے پر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، سب سے اچھی خبر پیپلزپارٹی والوں کے لئے ہے کہ انہیں خانیوال میں غیر معمولی پذیرائی ملی ،عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا امیدوار کوئی خاطر خواہ ووٹ حاصل نہ کرسکا تھا ،اس بار اس کے ووٹ بنک میں تین گنا اضافہ ہوگیا ،جبکہ امیدوار بھی کوئی ایسا مضبوط نہیں تھا کہ جس کے پیچھے کسی سیا سی خانوادے کی شناخت موجود ہو،اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی آگے بڑھ رہی ہے اور اس کا مایوس ووٹر آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے ،یہ رجحان لاہور میں بھی دیکھا گیا اور اب خانیوال میں بھی نظرآیا۔

خانیوال کے ضمنی انتخاب کی مہم کے آخری مرحلہ میں سید یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہوئے اور انہوں نے وہاں جلسہ اور کارنر میٹنگز سے بھی خطاب کیا ،مگر شاید وہ انتخابی ضابطوں کی وجہ سے کھل کرانتخابی مہم نہیں چلاسکے ،بہرحال پیپلزپارٹی خانیوال میں یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی ہے کہ اس کے تن مردہ میں جان پڑ رہی ہے اور وہ آنے والے عام انتخابات میں کوئی بڑا بریک تھرو کرسکتی ہے،خانیوال کا ضمنی انتخاب حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکا ضرور ہے اور اسے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے تسلیم بھی کیا ہے۔ 

حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں وہ عوام کے اس شدید ردعمل سے وہ خود کو کیسے بچائے ،کیونکہ واضح طور پر نظرآرہا ہے ان حالات میں عوام ایسے بلدیاتی نمائندوں کو شاید ووٹ نہ ڈالیں، جوحکومتی پالیسیوں کے حامی ہوں ،ویسے بھی انتخابی مہم چلانے کے لئے اور وہ بھی خصوصاً بلدیاتی انتخابات کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ عوام سے ان کے مسائل حل کرانے کا وعدہ کیا جائے ،اس وقت سب سے بڑا مسئلہ تو مہنگائی ہے ،اس کا جواب تحریک انصاف کے امیدواروں کے پاس نہیں ہوگا اور دوسری طرف مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے امیدوار اس بنیاد پر انتخابی مہم چلارہے ہوں گے کہ حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے عوام کو مہنگائی کی نظر کردیا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ،تو یقیناً تحریک انصاف کے مقابلے میں انہیں زیادہ پذیرائی ملے گی۔

جیسا کہ ضمنی انتخابات میں نظرآچکا ہے ،خصوصاً پنجاب میں بلدیاتی انتخابات تحریک انصاف کے لئے بہت بڑا سیٹ بیک ثابت ہوسکتے ہیں ،کیونکہ جب بلدیاتی اداروں کو معطل کیا گیا ،تو اس وقت 90 فی صد بلدیاتی اداروں پر مسلم لیگ ن کے حامی عہدے دار موجود تھے ،بحالی کے بعد بھی وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے رہے اور اب بلدیاتی انتخابات میں بھی وہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔

ان کی موجودگی کا یہ تسلسل ان کی کامیابی کی وجہ بن سکتا ہے ،اگر مسلم لیگ ن بلدیاتی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے ،تو گویاوہ 2023ء کے انتخابات کے لئے ایک ایسا بیج بونے میں کامیاب رہے گی ، جو بالآخر ایک تن آور درخت بن کر اسے پنجاب کے محاذ پر اکثریتی پارٹی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرےگا۔ ادھر جنوبی پنجاب کے سیاسی حلقوںمیں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کی لند ن میں میاں نوازشریف سے ملاقات کا بڑا چرچا ہے اور مختلف نوعیت کی چہ مگوئیاں جاری ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین