• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معین اختر کی آج 71 ویں سالگرہ ہے، فائل فوٹو
معین اختر کی آج 71 ویں سالگرہ ہے، فائل فوٹو

ہر فن مولا اور شہرہ آفاق کامیڈین معین اختر کی آج 71 ویں سالگرہ ہے ، آج ہم اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو عیاں کریں گے جو وہ مختلف انٹرویوز میں اپنے متعلق انکشاف کر چکے ہیں۔

معین اختر ایک سنجیدہ مزاج شخص تھے

پاکستانی ٹیلی ویژن کو دیے ایک انٹرویو میں معین اختر کا کہنا تھا کہ ’حقیقتاً میں ایک سنجیدہ مزاج انسان ہوں، طبیعتاً ، مزاجاً ، عادتاً میں بہت سنجیدہ ہوں لیکن اب میں نے ایسا پیشہ اختیار کیا ہے کہ جس میں لوگ ہر وقت یہ توقع لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ میں مذاق ہی کروں جس پر لوگ ہنسیں۔

معین اختر کو اپنے کسی کام پر کوئی فخر نہ تھا

جیو نیوز کو دیے ایک یادگار انٹرویو میں معین اختر کا کہنا تھا کہ مجھے اپنےکسی کام پر کوئی فخر نہیں ہے کیونکہ ہر کام میں بہت ڈرتے ہوئے کرتا ہوں اور بس دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ کرے یہ کام لوگوں کو پسند آجائے۔

معین اختر کا کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں بہت کام کیا ہے بلکہ کام ہی کیا ہے، کبھی امریکا، کبھی کینیڈا، کبھی آسٹریلیا، لاہور ، راولپنڈی تو کبھی پشاور، کبھی حیدرآباد ، کبھی نواب شاہ، بس دنیا بھر میں گھومتا رہا اور اپنا کام کرتا رہا۔

معین اختر اپنے سب سے بڑے نقاد خود تھے

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مجھے زندگی میں کبھی ضرورت نہیں پڑی کہ کوئی مجھ پر تنقید کرے کیونکہ میں اپنا سب سے بڑا نقاد خود ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا علم ہے اور مجھے پتا ہوتا ہےکہ میں کہاں کیا غلطی کررہا ہوں۔

معین اختر کا کہنا تھا کہ ہر اچھے اور بڑے بندے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں۔

معین اختر کے خون میں ہی ’سیکھنا‘شامل تھا‘

معین اختر کا کہنا تھا کہ اُن کے خون میں سیکھنا شامل ہے، اگر مجھے کوئی چھوٹا بچہ بھی کوئی صحیح چیز سکھائے گا تو میں اس کی بات ناصرف سنوں گا بلکہ عمل بھی کروں گا۔

گمنامی کے اندھیرے سے لائم لائٹ کیلئے منتخب کیا جانا

منیزہ ہاشمی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اللہ نے گمنامی کے اندھیرے سے لائم لائٹ میں لا کر مجھے کھڑا کردیا اور پاکستان کی چند مشہور شخصیات میں مجھے بھی شامل کردیا لیکن یہ ایک آزمائش رہی۔

واضح رہے کہ معین اختر 22 اپریل 2011ء کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے تھے، ساتھی فنکاروں کے مطابق پاکستان کی ثقافت کو ڈراموں اور شوز کے ذریعے جس طرح سے معین اختر نے متعارف کروایا دوسرا شاید ہی یہ کام اس خوبی سے کرسکے۔

اسٹیج ڈراموں ’بڈھا گھر پہ ہےاور بکرا قسطوں پر‘ نے معین اختر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ’ففٹی ففٹی، ہاف پلیٹ، انتظار فرمایئے اور آنگن ٹیڑھا‘ میں بھی انہوں نے اپنی بے ساختہ اور جاندار ادکاری کے جوہر دکھائے۔

معین اختر کے یادگار ڈراموں اور اسٹیج شوز میں ’روزی، سچ مچ، اسٹوڈیو پونے تین، بندر روڈ سے کیماڑی اور شو ٹائم‘ شامل ہیں۔

تازہ ترین