• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’پروین شاکر اور منیر نیازی‘ 26دسمبر کو شاعری کے دو بڑے نام ہم سے بچھڑ گئے

بیان کے اسالیب میں ایک بڑا اسلوب شعر و شاعری ہے۔ شاعری کے ذریعے شعراء اپنی بات اور احساسات دوسروں تک پہنچاتےاور متاثر کرتے ہیں۔ شعراء اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے ایک تخلیق کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ تاریخ میں اردو شاعری کے بڑے بڑے نام گزرے ہیں جیسے کہ میر تقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی، نظیر اکبر آبادی، علامہ محمد اقبال ، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، ناصر کاظمی، احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی وغیرہ۔ آج 26دسمبر کو اردو شاعری کے دو بڑے نام ہم سے بچھڑ گئے تھے۔ آج کے مضمون میں ان دونوں شعراء کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جارہی ہے۔

پروین شاکر

پاکستان کی نامور شاعرہ پروین شاکر کی پیدائش 24نومبر1952ء کو کراچی کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی ۔ پروین شاکر نے انگریزی ادب اورلسانیات میں گریجویشن کیا، پھرانہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ ہونہار طالبہ رہی تھیں، اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں اور شیریں اندازِ خطابت سے داد پاتیں۔ 1970ء میں ریڈیو پر بزمِ طلبہ کے تحت منعقدہ مشاعرے میں انھوں نے اوّل انعام حاصل کیا، جو انھیں سب سے زیادہ عزیز رہا۔ 

وہ عبداللہ کالج کراچی میں بحیثیت انگریزی لیکچرارنو سال درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں، بعد ازاں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ ان کے نانا سید حسن عظیم عسکری آبادی (جو خود بھی شاعر تھے) نے پروین شاکر کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ وہ احمد ندیم قاسمی سے بے حد متاثر تھیں، شاعری میں گویا وہ ان کے گاڈ فادر رہے۔

پروین شاکر نے اپنے منفرد لب و لہجے کی بدولت بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی و ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انھوں نےنوجوان لڑکی کے جذبات اور احساسات کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا۔ اسی بے ساختگی نے انھیں نوجوان دلوں کی دھڑکن بنادیا۔ کلاسیکی روایات اور جدید حساسیت کا منفرد امتزاج، نسوانیت ، رومانویت اور معاشرتی اونچ نیچ ان کے شعری سخن میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے20برس کی عمر میں محبت، رومانویت، فراخ دلی ، علیحدگی اور قربت سے متعلق نسائی اظہار کو جدت بخش کر انسانی انا، خواہشات اور انکار کوشعری پیراہن دیا۔

؎کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

انھیں انگریزی رومانوی شاعری سے خاص شغف رہا، جس کی جھلک ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے۔ پروین شاکر نے ’’گوشہ چشم‘‘ کے عنوان سے اخبارات میں کالم بھی لکھے،جو کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ان کی آپ بیتی ماہ پارہ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ پروین شاکر نے اپنے شعری ورثے میں خوشبو (1976ء)،صد برگ (1980ء)،خود کلامی (1990ء)،انکار (1990ء) ماہ تمام (1994ء) اور کفِ آئینہ(1996ء) کے نام سےشعری مجموعے چھوڑے۔ شعری خدمات پر انھیں1990ء میں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز ’تمغۂ حسنِ کارکردگی ‘ تفویض کیاگیا۔ 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک ٹریفک حادثے میں پروین شاکر 42سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی وفات کوایک عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی ہنوز ان کا نام دنیائے ادب و شعرمیں روشن و تابناک ہے۔

؎مربھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

منیر نیازی

منیر نیازی اُردو اور پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب ہیں، جن کی غزلیں اور نظمیں آج بھی لوگوں کو ازبر ہیں۔ ان کا شمار ان دونوں زبانوں کے اہم ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ 9اپریل 1928ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے منیر نیازی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے ساہیوال (منٹگمری) آ گئے۔ ان کی ابتدائی شاعری ساہیوال میں گزارے گئے وقت کی یادگار ہے۔ منیر نیازی نے وہاں ’سات رنگ‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ 

وہ مختلف اخبارات اور جرائد سے وابستہ رہے۔ منیر نیازی کا شمار اردو ادب کو نئے تخلیقی مزاج اورنئے طرزِ اظہار سے روشناس کرانے والے چند تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ لاہور منتقل ہونے کے بعد انھوں نے فلموں کیلئے گیت بھی لکھے، جن میں کلاسیکی وروایتی آہنگ کے ساتھ جدید آہنگ بھی ملتا ہے۔ ان کی غزلوں میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔

؎ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

اپنے مزاج اورشخصیت میں شعری صلاحیتوں کی وجہ سے انھوں نے نظم میں نام اور مقام پیدا کیا۔ وہ نثرنگار سے زیادہ بطور شاعر مشہور و معروف ہوئے۔ ان کے پاس خیال کولفظوں میں ڈھالنے کا فن کمال تھا۔ منیر نیازی کی شاعری کا خاصہ ہجرت، نرگسیت، حیرت واستعجاب، تجسس، آسیبیت، حسن وعشق اور طلسم جیسے موضوعات رہے۔ وہ 20ویں صدی کی اردوشاعری کی اہم شخصیت ہیں۔ ان کا چلبلا مزاج، دل موہ لینی والی شاعری اور شعری لب ولہجہ اپنی انفرادیت کے ساتھ ہمیشہ نمایاں رہے گا۔

منیر نیازی نے اردو اور پنجابی کی 30سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی مشہور تصنیفات میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، پہلی بات ہی آخری تھی، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، ایک لمحہ تیز سفر کا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگیں دروازے، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان میں دوبارہ، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔ ان کی ادبی خدمات پرانھیں 1992ء میں تمغۂ حسنِ کارکردگی جبکہ 2005ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ 26دسمبر 2006ء کو وہ لاہور میں راہِ عدم کے مسافر ہوگئے۔

؎زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

تازہ ترین