بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے، جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6فی صد بنتا ہے، جب کہ اس کی آبادی ایک کروڑ 23لاکھ کے درمیان ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محلِ وقوع کے لحاظ سے بھی اہم ترین صوبہ ہے، مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارےکے ایک سروے کے مطابق، صوبہ بلوچستان دنیا کا سب سے پس ماندہ اور غریب ترین ہے۔بہرحال، اس صوبے میں بھی ہمیشہ کی طرح اس برس بھی نیا سال نئی امیدیں لےکر آیا ہے۔
سالِ نو سے انسان کو جہاں بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ ہوتی ہیں، وہیں بیتے برس میں کسی بھی فرد، قوم اور معاشرے کے لیے خود احتسابی کا موقع بھی ہوتا ہے کہ ماضی کے آئینے میں حال کا جائزہ لے کر مستقبل کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں ملک کے سب سے بڑے، وسیع و عریض، معدنی وسائل سے مالامال، لیکن بدقسمتی سے پس ماندہ اور غریب صوبے بلوچستان کی بات جائے، تو2021ء میں بھی یہ صوبہ مسلّح بغاوت، گڈگورنینس کے فقدان، مالی بے ضابطگیوں اور عدم استحکام کا شکار رہا۔
ہمیشہ کی طرح یہاں کی اہم نوعیت کی خبروں سے میڈیا کی چشم پوشی برتنے کی روش گزشتہ برس بھی برقرار رہی۔ عام طور پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں جنم لینے والی کوئی بہت بڑی سیاسی تبدیلی، بحران اور بدامنی کے واقعات ہی مرکزی میڈیا میں جگہ بناپاتے ہیں، تاہم، دیگر اہم نوعیت کی خبروں اور واقعات کومرکزی میڈیا میں کوئی خاص اہمیت دی جاتی ہے، نہ ہی بھرپور طریقے سے اجاگرکیے جاتے ہیں۔ بہرحال،سالِ گزشتہ کے حالات و واقعات کے حوالے سے سب سے پہلے امن و امان کاجائزہ لیتے ہیں کہ 2021ء کے دوران بھی صوبہ بلوچستان میں امن وامان کی دگرگوں صورت حال سمیت سیاسی اور معاشی مسائل بدستور موجود رہے۔
ہر چند کہ تشدّد اور بدامنی کے واقعات میں قدرے کمی آئی۔ تاہم، سال 2021ءکے دوران کوئٹہ سمیت اندرون صوبہ بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ زیادہ تر واقعات میں سیکیوریٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ 2021ء میں صوبے کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر ایک سو سے زائد بم دھماکے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، دستی بم حملے، بارودی سرنگ دھماکےاوردہشت گردی کے واقعات میں پولیس، لیویز، ایف سی اہل کاروں اور عام شہریوں سمیت 100سے زائد افراد شہید اور 200سے زائد زخمی ہوئے۔
اس حوالے سے گزشتہ سال کے دہشت گرد حملوں کے تناظر میں اعدادو شمار کے مطابق، 35 بم دھماکے،37دستی بم حملے، 28بارودی سرنگ دھماکے، 23ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ جن میں 50 سیکیوریٹی اہل کار شہید اور 42اہل کار زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں تین خودکش حملے بھی ہوئے-21اپریل کو کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع سرینا ہوٹل میں خودکش کاربم دھماکے میں پانچ افراد شہید اور13 زخمی ہوئے۔ دھماکے کے وقت بلوچستان کے دورے پرآئے ہوئے چینی سفیربھی ہوٹل میں موجود تھے۔ دوسرا خودکش حملہ 20اگست کو گوادر میں چین کی تعمیراتی کمپنی کی گاڑی پر ہوا، جس میں تین بچّے شہید اور چھے افراد زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کائونسل اور چینی سفارت خانے نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو کٹہرے میں لانے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ تیسرا خودکش حملہ 5ستمبر کو کوئٹہ میں مستونگ روڈ پر قائم ایف سی چیک پوسٹ پر ہوا، جس میں چار اہل کار جاں بحق اور 20افراد زخمی ہوئے۔ سال بھر میں دہشت گردوں نے کل 35 بم دھماکے اور 30دستی بم حملے کیے، بم دھماکوں میں پولیس، ایف سی اور لیویز اہل کاروں سمیت 40افراد شہیداور250سے زائد زخمی ہوئے، جب کہ دستی بم حملوں میں چار افراد جاں بحق اور 36 افراد زخمی ہوئے۔
علاوہ ازیں بارودی سرنگ کے متعدد دھماکوں میں 20افراد جاں بحق ہوئے۔ سالِ گزشتہ سیکیوریٹی فورسز پر فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے 25واقعات میں 23سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 50افراد شہید اور20زخمی ہوئے۔ ان دہشت گرد کارروائیوں کی ذمّے داری کالعدم تنظیموں بی ایل ایف، بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور داعش نے قبول کی۔ اس دوران سیکیوریٹی فورسز نے بھی جوابی کارروائیوں میں کالعدم تنظیموں کے بہت سے دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
گزشتہ برس صوبے کی قومی شاہ راہوں پر ٹریفک کے غیر معمولی حادثات پیش آئے، جن میں پندرہ سو سے زائد افراد جاں بحق اور دو ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ حادثات کوئٹہ، کراچی قومی شاہ راہ پر پیش آئے۔ تاہم، اس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اب کوئٹہ، کراچی شاہ راہ کو وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کرلیا ہے اور امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں کوئٹہ تا کراچی سنگل ٹریک کی یہ شاہ راہ دو رویہ ہوجائے گی، تو ٹریفک حادثات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
سال 2021ء میں بلوچستان کی کئی اہم سیاسی شخصیات ہم سے جدا ہوگئیں۔ اُن میں بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما، سردار عطاء اللہ مینگل، پشتون خوا میپ کے صوبائی صدر، عثمان خان کاکڑ، اے این پی کے اسد خان اچکزئی اور ملک عبیداللہ کاسی شامل ہیں۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سرپرست اعلیٰ تھے۔ انھیں بلوچستان کے پہلے منتخب وزیراعلیٰ کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اسدخان اچکزئی عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات تھے، انھیں چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے اغواء کیا گیا اور27فروری کو اُن کی مسخ شدہ لاش گرفتار ملزم کی نشان دہی کے بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار کے ایک گہرے کنوئیں سے برآمد ہوئی، جب کہ 21جون کو پشتون خوا میپ کے صوبائی صدر عثمان خان کاکڑ کراچی کے نجی اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
عثمان خان کاکڑ کو 18جون کو ان کے گھرمیں سرپر وارکرکے شدید زخمی کیا گیا۔ جون ہی میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ملک عبیداللہ کاسی کو کوئٹہ کے نواحی علاقے کلی کتیرکچلاک سے اغوا کیا گیا اور5اگست کو اُن کی تشدد زدہ لاش کوئٹہ سے متصل ضلع پشین سے برآمدہوئی۔ اغوا کاروں نے اُن کی رہائی کے بدلے 15لاکھ ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں، قوم پرست سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر، ٹورنٹو سے 22دسمبر 2020ء کو ملی۔ انھیں 24جنوری 2021ء کوتربت میں واقع آبائی گائوں میں سپردخاک کیا گیا۔
واضح رہے کہ 37 سالہ کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں، جب کہ 2016ء میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی ’’ایک سو بااثر خواتین‘‘ کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔ سالِ گزشتہ بھی بلوچستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ جوں کا توں رہا، اور متعدد افراد لاپتا ہوئے، جن کی بازیابی کے لیے طویل احتجاجی کیمپ لگائے گئے۔ اگرچہ سالِ رفتہ کے دوران چند لاپتا افراد بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو بھی پہنچے، تاہم دوسری طرف اسی تناسب سے مزید افراد لاپتا بھی ہوئے، جن میں متعدد طلبہ بھی شامل ہیں۔ سالِ رفتہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل کی سپریم کورٹ میں تقرری کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس نعیم اخترافغان نے صوبے کے اکیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
جب کہ دوسری جانب ساحلی شہر، گوادر کے مسائل بلوچستان اسمبلی کے فلور، کابینہ اجلاسوں اور دیگر فورمز پر زیربحث آتے رہے۔ گوادر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت میں سی پیک منصوبے کی وجہ سے مزید اضافہ ہوا ہے۔ سی پیک نیز، وفاقی اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کے تحت گوادر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ ماہ فروری میں گوادر میں شپ یارڈ کی تعمیر کے حوالے سے وفاقی حکومت اور وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں قائم اس وقت کی صوبائی حکومت کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ مذکورہ شپ یارڈ کراچی سے بھی بڑا ہوگا، جہاں جہاز بھی بنائے جاسکیں گے۔
اس کے علاوہ بھی گوادر میں کئی منصوبوں کا اجراء ہوا، مگر اس کے باوجود گوادر اور مکران ڈویژن میں جاری ترقیاتی عمل پر وہاں کے عوامی نمائندے اسمبلی فلور اور دیگر فورمز پر آواز بلند کرتے رہے ہیں کہ گوادر کے عوام ابھی تک اس ترقی سے مستفید نہیں ہوئے۔ گوادر کے باسی آج بھی پینے کے پانی، صحت، روزگا اورزندگی کی دوسری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، جس کے لیے وہ صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہیں۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ احتجاجی تحریک اور دھرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، اس سلسلے میں ہزاروں بچّوں، مرد و خواتین پر مشتمل احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں۔
مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں یہ احتجاجی دھرنا ایک مہینے سے زیادہ طول اختیار کرگیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک مہینے سے جاری دھرنے اوران کے مطالبات کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ گوادر کے عوام اور سیاسی جماعتیں گوادر میں باڑ لگانے کے منصوبے کے خلاف بھی شدید احتجاج ریکارڈ کرواچکے ہیں۔ واضح رہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کے منصوبے پر 2020ء میں کام شروع ہوا اورحکومت کی جانب سے یہ کہا گیاکہ گوادرکو سیف سٹی بنانےکے لیے باڑلگائی جارہی ہے۔
یہ معاملہ اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا، اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ یہاں باڑلگانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اس مسئلے پر بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا تھا، بعدازاں باڑلگانے کا کام روک دیا گیا۔ جولائی کے اوائل میں وزیراعظم عمران خان نے گوادر میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات پر غور کررہے ہیں، جس پر بی این پی کے سربراہ سردار اخترمینگل کا بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچوں کے مطالبات بہت سخت ہیں، پہلے آئینی دائرے میں سیاست کرنے والوں کی بات سنی جائے۔ بعد ازاں، نومبر کے اوائل میں نومنتخب وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہم ڈاکٹراللہ نذربلوچ سمیت تمام ناراض لوگوں سے براہ راست اور بالواسطہ رابطے میں ہیں، اس حوالے سے جلد خوش خبری دیں گے۔‘‘
سالِ گزشتہ 6اکتوبر کی رات ہرنائی میں شدیدزلزلہ آیا۔ جس سے بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی۔ سیکڑوں مکانات تباہ ہوئے جس میں 20افراد جاں بحق اور 50زخمی ہوئے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثر علاقے زلزلہ زون میں واقع ہونے کے باعث ماضی میں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، مگر اس کے باوجود اس حوالے سے حکومتی یا عوامی سطح پر کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں، جس کے باعث مستقبل میں 1935ء جیسے زلزلے کے نتیجے میں تباہی کے امکانات و خدشات موجود ہیں، جس میں پورا کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا تھا۔
کوئلہ کان کنی اس وقت بلوچستان کی سب سے بڑی صنعت ہے، مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہاں اکیسویں صدی کے جدید دَور میں بھی فرسودہ طریقوں سے کان کنی کی جاری ہے۔ محکمہ معدنیات اور نہ ہی کول مائن اونرز اور ٹھیکیدار حفاظتی تدابیر کا خیال رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے آئے روز کوئلے کی کانوں میں حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ کوئلہ کانوں میں کام کے دوران تودے گرنے، زہریلی گیس کے باعث آگ لگنے اور دم گُھٹنے سے سال 2021ء کے دوران 80کان کن جاں بحق، 35زخمی جب کہ 20 بے ہوش ہوئے۔17فروری کو شاہ رگ کوئلہ کان میں زہریلی گیس بھرنے کے باعث دَم گُھٹنے سے چار کان کن جاں بحق اور ایک بے ہوش ہوا۔
سالِ گزشتہ11مارچ کوکوئٹہ کے علاقے مارواڑ میں دوکوئلہ کانوں میں زہریلی گیس بھرجانے کے باعث چھے کان کن جاں بحق ہوئے۔ اُن کی لاشیں آٹھ سوفٹ گہرائی سے دو روز کی جدوجہد کے بعد نکالی جاسکیں۔ 15مارچ کوہرنائی کے علاقے طورغرکوئلہ کان میں گیس بھرجانے کے باعث دھماکے سے سات کان کن جاں بحق ہوئے، جن میں تین سگے بھائی بھی شامل تھے۔ 25جولائی کو شاہ رگ ہی میں کوئلہ کان میں مٹی کا تودہ گرنے سے چار کان کن جاں بحق ہوئے۔ یکم ستمبر کو دکی میں کوئلہ کان میں زہریلی گیس کے باعث دَم گُھٹنے سے چار کان کن جاں بحق ہوئے۔ 16اکتوبر کوحب کے علاقے دریجی میں سرنگ میں بھاری پتھر گرنے سے تین مزدورجاں بحق ہوئے۔
زراعت، لائیواسٹاک اور کان کنی کے علاوہ صوبے میں سرحدی تجارت سے بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد وابستہ ہے، مگر آئے روز افغانستان اور ایران بارڈر کی آئے روز بندش کا سلسلہ 2021ء کے دوران بھی تسلسل سے جاری رہا۔ حتیٰ کہ نومنتخب وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے قائدِ ایوان منتخب ہونے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران وفاق سے جن معاملات پر بات کرنے کا عزم ظاہر کیا، ان میں ایک مسئلہ سرحدی تجارت بھی تھا۔ حکمران جماعت کے ناراض اراکین نے اپنی ہی جماعت کے قائدِ ایوان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی، جس سے صوبے میں سیاسی بحران نے جنم لیا اور یہ بحران جام کمال خان کے وزارتِ اعلیٰ سے استعفے کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو کے قائدِ ایوان منتخب ہونے پر ختم ہوا۔
عبدالقدوس بزنجو 2018ء میں بھی چند مہینوں کے لیے وزیر اعلیٰ رہے۔ جہاں تک عبدالقدوس بزنجو کا تعلق ہے، تو انہوں نے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے چند ہفتوں بعد یہ بیان دیا کہ صوبائی حکومت، صوبے کے معدنی وسائل کا تحفّظ کرے گی۔ نیز یہ کہ ریکوڈک سمیت جتنے بھی معدنی ذخائر ہیں، اُن سے متعلق فیصلہ کوئٹہ میں ہوگا۔ انہیں یہ بیان اس لیے دینا پڑا کہ نومبر کے آخری ہفتے میں منعقدہ اسمبلی سیشن کے دوران اپوزیشن اراکین نے ریکوڈک معاہدے کے تناظر میں اس خدشے کااظہار کیا تھا کہ وفاق میں بلوچستان کے اس اہم معدنی ذخائر سے متعلق معاہدہ ہونے جارہا ہے۔
اس حوالے سے اسمبلی نے ایک قرار داد بھی پاس کی کہ ریکوڈک اور سیندک سمیت جتنے بھی معدنی وسائل اور منصوبے ہیں، ان سے متعلق بلوچستان کے عوام اور عوامی نمائندوں کے علم میں لائے بغیر کوئی معاہدہ نہ کیا جائے، کیوں کہ ریکوڈک، سیندک اور گوادر سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کا معاشی مستقبل وابستہ ہے۔