کافی لمبے عرصے کے بعد کراچی جانے کا موقع ملا ، کئی لوگوں اور دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
بنیادی طور پر ایک رخصتی کی تقریب میں شرکت کے لئے گیا تھا جس کے دونوں دنوں کی تقریبات میں سیاستدانوں، بیوروکریٹس، کاروباری شخصیات اور اہل صحافت سے تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔
اس تقریب کے علاوہ بھی مختلف دوستوں، جن میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ شامل تھے، سے تبادلۂ خیال ہوااور سچی بات یہ ہے کہ سندھ اور بالخصوص کراچی کی حالتِ زار کو دیکھ کر نہایت دکھ ہوا۔ سندھ کی حکومت چلانے والے مرکز اور دیگر صوبوں میں حکمرانی کرنے والوں کی طرح زبان درازی کے مرض میں مبتلا نہیں۔
وہ تجربہ کار ہیں، سیاست بھی جانتے ہیں اس لئے ثبوت کم چھوڑتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکاری عمال سے وصولی کا سلسلہ حسبِ سابق زوروں پر ہے۔ جہاں مرکز، پنجاب اور پختونخوا میں ترجمانی بدزبانوں کے سپرد ہے، وہاں سندھ کے حکمرانوں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں ترجمانی کے لئے سعید غنی، ناصر شاہ اور مرتضیٰ وہاب جیسے شائستہ اور قادرالکلام ترجمان میسر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکز ، پنجاب اور پختونخوا کی طرح سندھ میں بھی بدترین حکمرانی کے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔
کرپشن ایسی ہے کہ لوٹ مار کا لفظ بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ماضی کی طرح کئی جگہوں پر پولیس بھی حکومتی سرپرستی میں جرائم میں ملوث ہے۔
بدقسمتی یہ تھی کہ بلاول سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ ان کے والد صاحب کی وجہ سے خاک میں مل گئیں جبکہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ خاک میں مل گئیں۔
ابتدا میں کسی حد تک مقتدر حلقوں کا خوف تھا، جس کی وجہ سے ہاتھ کچھ ہلکا رکھا جا رہا تھا لیکن جب سے پی ڈی ایم سے دغا کے بدلے میں بلاول صاحب کوغالباً کیسز میں بھی ڈھیل مل گئی تو تب سے دوبارہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور قیادت نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ سابقہ حرکتیں شروع کردی ہیں۔
نہ جانے یہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی سوچی سمجھی سازش ہے یا پھر مطلق حکمرانی کی خواہش کی وجہ سے وہ ایسا کررہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا رویہ اردو بولنے والوں کو بالخصوص جبکہ کراچی اور حیدر آباد میں رہنے والے ہر شہری کو بالعموم غصہ دلارہا ہے ۔ مثلاً بلدیاتی نظام کے معاملے کو دیکھ لیجئے ۔
پیپلز پارٹی بلدیات کا ایسا نظام لانا چاہتی ہے جو مقامی حکومتوں کی روح سے یکسر خالی ہے ۔ دوسری طرف گزشتہ دور میں اپنے ہی بنائے ہوئے قانون میں وہ ایسی ترامیم لے آئی کہ بلدیاتی اداروں کے بچے کھچے اختیارات کا ایک بڑا حصہ بھی صوبائی حکومت کو منتقل کردیا گیا۔
پیپلز پارٹی اس کی مختلف تاویلات پیش کرتی ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ تمام جماعتوں بشمول عوامی نیشنل پارٹی نے اس نظام کو مسترد کردیا ہے۔اگرچہ قومی سطح پر اے این پی کی قیادت نے خود کو پیپلز پارٹی کے ساتھ جوڑ دیا ہے لیکن یہاں شاہی سید صاحب نئے بلدیاتی نظام کے اس قدر مخالف ہیں کہ اس کی خاطر ایم کیوایم کی اے پی سی میں بھی گئے، مصطفیٰ کمال کے بھی ہم نوا ہیں اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان کے بھی ہم آواز ہیں۔
اب ایک طرف پیپلز پارٹی اٹھارویں آئینی ترمیم کا کریڈٹ لے رہی ہے لیکن دوسری طرف صوبوں کے لئے اختیار مانگنے والی یہی پارٹی اسی ترمیم کے تحت مقامی حکومتیں قائم کرنے کو تیار نہیں (واضح رہے کہ انتخابات کے نتیجے میں جو سٹی اور ضلعی حکومتیں بنیں گی وہ عملاً سٹی کونسل اور ضلع کونسل ہوں گی لیکن وہ کسی صورت سٹی گورنمنٹ یا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نہیں ہوں گی)۔
دوسری طرف اٹھارویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے کے بارہ سال بعد بھی پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ کے اندر صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے اضلاع کے مابین وسائل میرٹ پر تقسیم نہیں کئے، حالانکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی رو سے اختیارات اور مالی وسائل صوبوں لیکن پھر صوبوں کے اندر اضلاع اور مقامی حکومتوں کو منتقل ہونے چاہئیں اور جس طرح صوبوں کے مابین وسائل این ایف سی ایوارڈ کے تحت تقسیم ہوتے ہیں۔
اسی طرح نیچے پھر پی ایف سی (پروونشل فنانس کمیشن) بنا کر اضلاع کے مابین وسائل کی تقسیم کا فارمولہ طے ہونا چاہئے لیکن اٹھارویں ترمیم کی چیمپئن اس کے لئے تیار نہیں۔
مقامی حکومتوں کے حوالے سے اس ناجائز اور غیرجمہوری سلوک پر جب اہلِ کراچی اور اہلِ حیدر آباد کی نمائندگی کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا تو بجائے اس کے کہ ان کے اعتراضات کو رفع کیا جاتا، بلاول بھٹو نے اردو بولنے والے مہاجروں کی نمائندگی کرنے والی ایم کیوایم اور پی ایس پی کے خلاف انتہائی نامناسب زبان استعمال کی جس پر اردو بولنے والوں کا بھڑک جانا ایک فطری امر تھا جسے صرف مذکورہ دو جماعتوں نے نہیں بلکہ ہر مہاجر نے اپنی توہین سمجھا۔
بلاول بھٹو کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ مہاجروں نے اس وطن کے لئے ہجرت کی اور اس کے وسائل پر ان کا حق اگر دوسرے پاکستانیوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ ہر مہاجر الطاف حسین یا اس کا پیروکار نہیں اور اگر ایم کیوایم نے ماضی میں تشدد کا راستہ اپنا کرغلطی کی ہے تو پیپلز پارٹی کی تاریخ بھی اس حوالے سے قابل فخر نہیں ۔
اس نے بھی رائوانوار کو بہادر بچہ بنا کر پال رکھا تھا ۔ لیاری گینگ بھی اس سے جڑا ہے اور ذوالفقار مرزا جیسوں کے ”کارنامے“ بھی پیپلز پارٹی ہی کے ”کارنامے“ ہیں۔
اگر مجبوری یا سوچ کی تبدیلی کی وجہ سے ایم کیوایم اور مصطفیٰ کمال لسانی نفرتوں کو ختم کرکے ایک نئے سفر کا آغاز کرچکے ہیں تو پھر بلاول بھٹو کیوں انہیں دوبارہ لسانیت کی طرف دھکیلنا اور الطاف حسین کو پھر سے ہیرو بنانا چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو اگر سندھ پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں کراچی، جو سندھ کا دارالحکومت ہے، کو بھی لاڑکانہ کی طرح اپنا شہر سمجھنا ہوگا حالانکہ اندرونِ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے پاس چند اسپتالوں اور تھر کے چند منصوبوں کے سوا عوام کو دکھانے کے لئے کچھ نہیں۔
کراچی سندھیوں کے ساتھ ساتھ مہاجروں، پختونوں، پنجابیوں، بلوچوں اور کئی دیگر قومیتوں کا مشترکہ شہر ہے۔ اس شہر کو حق دلوانا، ان سب قومیتوں کو حق دلوانا ہے ۔
بلاول صاحب جو عزت اور اختیار سندھیوں کے لئے چاہتے ہیں، وہ عزت اور اختیار انہیں کراچی اور حیدرآباد والوں کو بھی دینا ہوگا۔ وہ جووسائل اور اختیارات صوبے کے لئے مانگتے ہیں، وہ انہیں اضلاع اور سٹی کی حکومتوں کو بھی ہوں گے۔
وہ اگر اسی طرح نفرتوں کو ہوا دیتے رہے تو خدانخواستہ کراچی اور حیدرآباد میں اب کی بار ایسی آگ بھڑکے گی جو صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان کو بھسم کرسکتی ہے اور پھر پیپلز پارٹی کی قیادت کو لاڑکانہ میں بھی پناہ نہیں ملے گی۔