صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بدترین شکست کی صورت میں مکمل ہوچکا ہے،17اضلاع میں ہونے والے ان انتخابات میں ساڑھے 8سال کے دوران پہلی مرتبہ تحریک انصاف کی مقبولیت سب سے کم درجہ پر پہنچ چکی ہے اور حیرت انگیز طور پر اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے برعکس صرف جمعیت علمائے اسلام نے ہی تحریک انصاف کا خلا پر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
یوں مولانا فضل الرحمان کو گزشتہ تین سالوں میں اپنے کارکنوں کو مسلسل متحرک اور فعال کرنے کا صلہ بھی مل گیا ہے البتہ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کی کارکردگی خود ان جماعتوں کیلئے بھی حیران کن بلکہ مایوس کن رہی ہے جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو صوبہ کے چار بڑے شہروں پشاور، مردان ، کوہاٹ اور بنوں کے مئیر کا انتخاب ہارنے کیساتھ ساتھ کم و بیش50تحصیلوں کا الیکشن بھی ہار چکی ہے۔
اس معاملے میں جے یو آئی خاصے فائدہ میں رہی، پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جب امیدواروں کو ٹکٹ دئیے جارہے تھے تو اسی وقت اختلافات کی گونج سنائی دینے لگی تھی مگر تب پارٹی کے سنجیدہ رہنماؤں کے تحفظات کو نظرانداز کرتے ہوئے سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم کئے گئے اور اسکا خمیازہ پارٹی کو انتخابی نتائج کی صورت میں بھگتنا بھی پڑا۔
درحقیقت یہ اتنا بڑا دھچکا ہے کہ اب وزیر اعظم عمران خان کو خود ان تمام معاملات پر میدان میں آنا پڑا ہے، اگر پشاور کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے مئیر سمیت تمام تحصیل امیدواروں پر کافی تحفظات کا اظہار کیا گیاتھا جہاں تک تحصیلوں کا تعلق ہے تو ایک دوکے سوا تمام تحصیلوں پر پارٹی امیدواروں کا مقابلہ پارٹی کے ناراض اور باغی امیدواروں نے کیا، اگر باغی اور پارٹی امیدواروں کے ووٹ جمع کئے جائیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ غلط فیصلوں کی وجہ سے نشستیں ہاتھ سے نکل گئیں۔
انتخابی نتائج کیساتھ ہی اب بدترین الزام تراشی کاایک طوفان جاری ہے بعض صوبائی وزرا اس کی وجہ مہنگائی کو قرار دے رہے ہیں تاہم وزیر اعظم اصل وجہ غلط امیدواروں کے سلیکشن کو قرار دے چکے ہیں اسی طرح ہارنے والے امیدواروں اور بعض ایم پی ایز کی طرف سے پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی پر کھل کر الزامات عائد کئے گئے ہیں جن میں سرفہرست نور عالم خان اور ناصر موسیٰ زئی ہیں، بعض حلقے گورنر ہاؤس کی طرف بھی اشارے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خیبرپختونخواحکومت نے اس ضمن میں وزیر اعظم کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے جس میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کی ذمہ داری صوبہ کے گورنر شاہ فرمان، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، پارٹی کے مرکزی رہنما سیف اللّہ نیازی ، وفاقی اور صوبائی وزرا ،9 قومی اور 12 صوبائی اسمبلی کے ارکان پر عائد کی گئی ہے جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کے خاندان کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میئر پشاور کا ٹکٹ گورنر شاہ فرمان، صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا اور کامران بنگش نے دیا تھا جبکہ ارباب شہزاد کی فیملی نے بھی مخالف امیدوار کو سپورٹ کیا،پشاور کی تحصیل پشتہ خرہ کا امیدوار بھی گورنر کی سفارش پر نامزد کیا گیا، تحصیل بڈھ بیر میں گورنر اور پارٹی ایم این اے ناصر موسیٰ زئی کے اختلافات کے باعث پارٹی کو شکست ہوئی، تحصیل متھرا میں ایم این اے نور عالم خان اور ایم پی اے ارباب وسیم نے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار اور اپنے رشتہ دار فرید اللہ کو سپورٹ کیا۔
ضلع مردان میں صوبائی وزیر عاطف خان نے کابینہ اور کارکنوں کی مشاورت کے بغیر ٹکٹ تقسیم کئے اس لئے مردان میں عاطف خان پارٹی کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں، صوابی میں سپیکر اسد قیصر اور صوبائی وزیر تعلیم شہرام ترکئی کی سفارش پر ان کے رشتہ دار وں کو ٹکٹ ملے جہاں پارٹی کو دو تحصیلوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، ضلع خیبر میں وفاقی وزیر نور الحق قادری اور ایم این اے اقبال آفریدی کی سفارش پر ٹکٹ دیئے گئے جبکہ پارٹی ایم پی اے نے بھی مخالف امیدوار کو سپورٹ کیا۔
چارسدہ میں ایم این اے فضل محمد خان اور صوبائی وزیر فضل شکور نے ٹکٹ تقسیم کئے جہاں پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ،باجوڑ میں ایم این اے گل ظفر کی سفارش پر ٹکٹ دیئے گئے تاہم ایم پی اے اجمل خان نے پارٹی امیدوار کے خلاف کمپین چلائی ،کوہاٹ میں سیف اللہ نیازی نے ٹکٹ تقسیم کئے جبکہ رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی نے کمپین میں کوئی دلچسپی نہیں لی، لکی مروت میں وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی سفارش پر امیدوار نامزد کئے گئے تاہم علی امین گنڈاپور اور ایم پی اے ہشام انعام اللّہ کے مابین جاری شدید اختلافات کے باعث پارٹی شکست دوچار ہوئی، بنوں میں صوبائی وزیرشاہ محمد وزیر نے ٹکٹ تقسیم کئے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے انکوائری رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم کو ایسی کوئی رپورٹ پیش کی گئی ہے اور نہ ہی اب تک بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کوئی انکوائری ہوئی ہے البتہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے مابین ہو نیوالی ملاقات میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور پارٹی کارکردگی کے حوالے سے بات ضرور ہوئی ہے۔
بہرحال دیکھنا اب یہ ہے کہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے ذمہ داروں کیخلاف کس قسم کی کاروائی کی جاتی ہے کیونکہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ بھی سر پر آن پہنچا ہے جبکہ پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کیلئے میدان سجنے والا ہے، پہلے انتخابی مرحلہ میں شکست کے جھٹکوں کیوجہ سے جس طرح پارٹی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اپوزیشن کو کھل کر دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا ہے یقیناً وزیر اعظم عمران خان اب اگلے مرحلے میں اس قسم کی صورت حال سے بچنے کی پوری پوری کوشش کریں گے ۔