خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی نتائج نے تحریک انصاف کے انتظامی ڈھانچے کو ہی تبدیل نہیں کیا ،بلکہ پاکستان میں سیاست کے نئے رجحانات کی بھی نشاندہی کی ہے ،کوئی سیاسی جماعت اپنے مظبوط تنظیمی ڈھانچے کے بغیر کسی بھی سطح کے الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ، تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ میں شکست کا سامنا اس لئے بھی کرنا پڑا کہ وہاں اپنی ہی جماعت کے لوگوں نے ایک دوسرے کی مخالفت کی ،ٹکٹوں کی تقسیم میں جو اقربا پروری روا رکھی گئی ،اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑے ، اس سب کچھ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے پہلے ملک بھر میں تحریک انصاف کی تمام تنظیمیں توڑ دیں۔
اس کے بعد 21 رکنی آئینی کمیٹی قائم کی اور دودن بعد چھ رکنی انتظامی کمیٹی قائم کرکے پارٹی کے اندر ایک نئے انتشار اور نئی بحث کی بنیاد رکھ دی، وہی عمران خان جو اس نظریہ کے قائل تھے کہ پارٹی عہدے اور حکومتی مناصب علیحدہ ہونے چاہئیں ،اب انہوں نے پانچ وزراء کو پارٹی کے انتظامی عہدے سونپ دیئے ہیں ،سب سے دلچسپ اور متنازعہ فیصلہ جنوبی پنجاب کا خسرو بختیار کو صدر بنا کر کیا گیا ہے ، یہ فیصلہ اپنے اندر بہت سی الجھنیں اور قباحتیں رکھتا ہے ،پہلے سے موجود پارٹی کا انتشار اس فیصلہ کی وجہ سے مذید بڑھ سکتا ہے ،خسرو بختیار کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک وڈیرا خاندان سے ہے۔
ان کی سیاست رحیم یارخان میں اپنے حلقہ تک محدود رہی ہے ،پہلی بار ان کا نام اس وقت ابھر کر سامنے آیا تھا ،جب انہوں نے تحریک صوبہ محاذ کی بنیاد ڈالی اور اس کے تحت یہ مطالبہ کیا کہ جو سیاسی جماعت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کرے گی ،اس کے ساتھ اتحاد کیا جائے گا ، 2018ء کے الیکشن سے پہلے یہ اتحاد اچانک منظر عام پر آیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا تحریک انصاف سے معاہدہ طے پا گیا ۔
جس کے تحت یہ نوید سنائی گئی کہ حکومت آنے کے 100دنوں کے اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی کوشش کی جائے گی،اس طرح ایک اتحادی کے طورپرتحریک صوبہ محاذ والوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اخیتارکی ،جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر ووٹ حاصل کئے ،جیتنے والوں میں خسرو بختیار اور ان کے بھائی ہاشم جواں بخت بھی شامل تھے ،اقتدار میں آنے کے بعد خسروبختیار نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا کہ صوبہ محاذ والوں نے علیحدہ صوبہ بنانے کا جو وعدہ کیا تھا ،وہ کہاں تک پہنچا ،البتہ حکومت نے اس حوالے سے طفل تسلیوں کا وسیع سلسلہ جاری رکھا ،چھوٹے موٹے کام بھی ہوئے ،صوبہ کی جگہ سیکرٹریٹ نے لے لی ،مگر اس سارے واقعات میں خسرو بختیار کہیں نظر نہیں آئے ،اب انہیں تحریک انصاف جنوبی پنجاب کا صدر بنادیا گیا ہے۔
ان کی سیاست صرف رحیم یارخان تک محدود رہی ہے ،ڈیرہ غازی خان اورملتان ڈویژن میں انہوں نے کبھی کوئی سیاسی میٹنگ نہیں کی اور نہ ہی ان کی ان علاقوں کے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کارکنوں یا عہدے داروں سے کوئی شناسائی ہے ، ایک ایسے شخص کو ان برے حالات میں جنوبی پنجاب کا صدر بنا کر وزیراعظم عمران خان نے جو رسک لیا ہے ،اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں ، اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہوگا ،ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے جب پیپلزپارٹی نے اس علاقہ میں اپنی رابطہ عوام مہم شروع کی ،تو ایسے بینرز بھی دیکھنے میں آئے ،جن پر یہ لکھا گیا تھا کہ صوبہ محاذ والے کہا ں گم ہوگئے ، کیا انہوں نے صوبہ کا نعرہ صرف وزارتوں کے حصول کے لئے لگایا تھا۔
بعض ایسے اشتہار بھی شائع ہوئے ،جن میں خسرو بختیار کی تصاویر لگا کر یہ سوال پوچھا گیا کہ وہ عوام کےساتھ جس مذاق کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کی تلافی کیسے ہوگی ،گویا خسروبختیار کے خلاف جنوبی پنجاب میں باقاعدہ ایک منفی تاثر موجود ہے اور یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنوانے کا نعرہ لگا کر ایک طرف اپنے ایک رکن کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوادیا۔
دوسری طرف اپنے لئے وزارتیں لیں اور اس کے بعد صوبہ کے مطالبہ سے لاتعلق ہوکر بیٹھ گئے ،اب وقت بتائے گا ،جب خسروبختیار جنوبی پنجاب کا تنظیمی دورہ کریں گے ،توانہیں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ،یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ خسروبختیارکا تعلق ماضی میں جہانگیر ترین گروپ سے رہاہے اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ صوبہ محاذ والوں کا تحریک انصاف سے اتحاد کرانے میں جہانگیر ترین نے کلیدی کردار ادا کیا تھا ، ایسے میں یہاں ایک دوسرا گروپ جو شاہ محمود قریشی کی سرپرستی میں کام کررہا ہے ، اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے اور کیا پارٹی عہدے دار بنانے میں جہانگیر ترین سے مشاورت ہوتی ہے ،یا شاہ محمود قریشی کا سکہ چلتا ہے۔
ملتان ڈویژن کی حدتک ابھی تک یہ صورتحال رہی ہے کہ شاہ محمود قریشی ہر فیصلہ کرتے رہے ہیں ،حتی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے اختیار ات کو بھی افسروں کی تقرری و تبادلوں کے حوالے سے خود استعمال کرتے رہے ہیں ، انہو ں نے نہ صرف پارٹی کے عہدوں پر بلکہ نیم سیاسی سرکاری عہدوں پر بھی اپنے من پسند لوگوں کو تعینات کیا،ان حالات میں کیا شاہ محمود قریشی کو خسروبختیار بائی پاس کرسکیں گے ،کیا ان کے دیئے ہوئے ناموں کو انتظامی عہدوں کے لئے قابل قبول قرار نہیں دیں گے۔
اگر ایسا نہیں ہوگا ،تواس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کی تنظیمی حالت وہی رہے گی ،جو پہلےتھی اور دیرینہ کارکن اور پارٹی کے پرانے وفادار اس طرح محرومی کا شکار رہیں گے ، جس سے اس سارے عمل کا نتیجہ صفر برآمد ہوگا، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی سینٹر عون عباس بپی کو جنوبی پنجاب کا صدر مقرر کیاگیا تھا ،وہ ایک سیاسی کارکن ہیں اور ان کی عام کارکنوں تک شناسائی اور رسائی موجود تھی۔
خیال یہ تھا کہ وہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کو منظم کرنے کا باعث بنیں گے ،مگر تبدیلیوں کے اس ریلے میں انہیں بھی ہٹا دیا گیا ،بعض پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے خسرو بختیارکو اس لئے پارٹی کا صوبائی صدر بنایا ہے کہ ان کا تعلق الیکٹیبلز سے ہے اور وہ جانتے ہیں کہ کس علاقہ میں کون سی بڑی شخصیت جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے ،مگر یہ صرف خواب وخیال کی باتیں ہیں ، کیونکہ الیکٹیبلز کچھ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور دوسرا ابھی مرحلہ عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات کا درپیش ہے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات تحریک انصاف کے لئے خیبر پختونخواہ سے بھی بڑا ڈراؤنا خواب بن سکتے ہیں ۔