صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں 992 سرکاری پرائمری اسکولز میں سے 100 سے زائد مکمل بند ہیں، 72 اسکول بیت الخلا، بجلی کنکشن، باؤنڈی وال اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث غیر فعال ہیں۔
سرکاری پرائمری اسکول گل بانو سکھر ائیرپورٹ سے کچھ دوری پر قائم ہے، جہاں کلاس روم کے بلیک بورڈ پر لکھی تاریخ بتارہی ہے کہ آخری کلاس سال 2016 میں ہوئی تھی، سرکاری اسکول بند ہونے کے باعث اس علاقے کے بچے پڑھائی کے لئے یا تو دور دراز کسی اسکول میں جانے پر مجبور ہیں یا پھر پڑھائی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ پانچ سال ہوگئے اسکول بند ہیں، ان کی چھتیں گررہی ہیں، بچے پڑھائی کدھر کریں وہ پڑھنے کے لیے دور جارہے ہیں کوئی بچہ جارہا ہے کوئی بچہ نہیں جارہا۔
گزشتہ پانچ سال میں شاید ہی کسی متعلقہ ذمہ دار افسران نے اس بند اسکول کو آکر دیکھا ہو یا پھر اسے دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی ہو، یہی وجہ ہے کہ اسکول کے فرنیچر، دروازے،کھڑکیاں اور مرکزی دورازہ تک چوری کرلیا گیا ہے۔
جیو نیوز کی تحقیق کے مطابق ضلع سکھر میں 992 سرکاری پرائمری اسکولز میں سے 100 سے زائد مکمل بند ہیں اور 72 اسکول بیت الخلا، بجلی کنکشن، باؤنڈی وال اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث غیر فعال ہیں جبکہ وہاں تعینات اساتذہ سمیت دیگر عملہ باقاعدگی سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتا ہے۔
ایک شہری کا کہنا ہے کہ یہاں کسی مقامی سے اساتدہ کے بارے میں پوچھا جائے کہ ان سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بچوں کو پڑھانے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔
سکھر کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے مطابق غیر ضروری اور غیر فعال اسکولوں کی فہرست کے مرتب ہونے کے بعد محکمہ تعلیم میں گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ ہوپائے گا یا نہیں، اس بارے میں انتظامیہ کچھ بتانے سے قاصر ہے۔