• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھنبھور، مکلی، شاہ جہانی مسجد، کیجھر جھیل

محمّد کاشف

شعبۂ مطالعہ پاکستان، عبدالحق کیمپس،کراچی

گزشتہ دنوںوفاقی اُردو یونی وَرسٹی برائے فنون،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عبدالحق کیمپس، کراچی کے شعبہ مطالعۂ پاکستان نے طلبہ کے لیے بھنبھور، مکلی، شاہ جہانی مسجد، کینجھر جھیل کے ایک مطالعاتی دَورے کا اہتمام کیا، جو شعبۂ مطالعہ پاکستان کی سربراہ ،ڈاکٹر کہکشاں ناز اور دیگر اساتذہ کی سربراہی میںروانہ ہوا۔ مطالعاتی دَورے کا مقصد طلبہ کو تاریخی مقامات کی اہمیت سے روشناس کروانا تھا۔ سفر کا آغاز صبح 9بجے ہوا ، پہلا اسٹاپ بھنبھور تھا۔کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف جاتے ہوئےنیشنل ہائی وے پرقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی اور گھارو کے درمیان بھنبھور/ دیبل کی قدیم بندرگاہ کے آثار اور میوزیم واقع ہے۔ 

طلبہ، اساتذہ کا گروپ فوٹو
طلبہ، اساتذہ کا گروپ فوٹو

یہی وہ مقام ہے، جہاں محمّد بن قاسم نے 712ء میں حملہ کرکے سندھ فتح کیا تھا ۔ یہیں سے سندھ میں اسلامی نظام کاباضابطہ آغاز ہوا۔ یہیں محمّد بن قاسم نے جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد تعمیر کروائی تھی،جس کے سبب سندھ کو ’’باب الاسلام ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے آثار آج بھی موجود ہیں۔بھنبھور کے عجائب گھر میں رکھی نادر و نایاب اشیاء دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔یہاں راجا داہر کے ایک مشہور قلعےکی، جس پر محمّد بن قاسم نے حملہ کیا تھا، باقیات بھی موجود ہیں۔ یہاں موجود منجنیق کا مجسمہ (جس کا نام ’’العروس‘‘ تھااور یہ اُس دَور کا جدید ترین ہتھیار تھا، جس کے استعمال نے قلعہ فتح کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا)بھی طلبہ کی دل چسپی کا باعث بنا رہا۔

بھنبھور کے بعد دوسرا تاریخی مقام ’’مکلی کا قبرستان‘‘ ہے۔ ٹھٹّھہ شہر سے تھوڑی مسافت پر نیشنل ہائی وے کے کنارے قدرے بلندی پر مکلی ہے، جہاں موجود متعدد تاریخی مقامات سےاساتذہ نے طلبہ کو روشناس کروایا۔ مکلی کی قبروں کی خاص بات ان کے دیدہ زیب خدّوخال اور نقش و نگار ہیں، جو نہ صرف اُس زمانے کے لوگوں کی پسند، طرزِ زندگی کی نشان دَہی کرتے ہیں، بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی پتا دیتے ہیں۔ 

اس کے داخلی دروازے کے باہر درج معلومات کے مطابق یہ چھوٹا سا’’ شہرِ خموشاں‘‘ چھے مربع میل سے زائد رقبے پر محیط ہے۔ اس میں سمہ (1340۔ 1520ء)، ارغون (1555-1520ء)، ترخان (1592-1555ء) اور مغل (1793-1592ء) ادوار کے حکم رانوں، سپہ سالاروں اور امراکی مقابرہیں۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر انتہائی عمدہ اور تعمیری میٹریل بہت ہی اعلیٰ معیار کاہے ، جب کہ قبروں کی نقش نگاری بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ وَرثہ ہے ،جو ا قوام کے مٹنے کے بعد بھی ان کی عظمت و ہنر کا پتا دیتا ہے۔ یہاں ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ یاد رہے،یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے، جو ’’یونیسکو عالمی ثقافتی وَرثے ‘‘میں شامل ہے۔

دَورے کا تیسرا مقام، نوری ریسٹورنٹ ،’’کینجھر جھیل‘‘ تھا ، جہاں طلبہ کے ساتھ اساتذہ نے بھی جھیل میں کشتی کی سیر کی ۔جب کہ اگلا مقام ’’شاہ جہانی مسجد ‘‘تھا، جہاں پہنچ کر سب نے نمازِ عصر ادا کی، بعد ازاں مسجد کی بناوٹ اور تاریخی اہمیت کو خوب سراہا۔ اس موقعے پر اساتذہ نے مسجد کی تاریخی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ مسجد مغل بادشاہ،شاہ جہان نے 1647-49ء کے درمیان تعمیر کروائی ۔

اس میں 99 گنبد ہیں اور اس کا طرزِ تعمیر کچھ ایسا ہے کہ امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلے کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ عمارت کے گنبد فنِ تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔گرچہ عہدِ رفتہ نے اسے نقصان تو ضرور پہنچایا، مگر آج بھی یہ فنِ تعمیر کا ایک حسین شاہ کار دکھائی دیتاہے۔اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں ایک ہی خاندان کے خطباء نسل در نسل چلے آرہے ہیں۔‘‘

تاریخی مقامات کا دَورہ شعبۂ مطالعۂ پاکستان کے طلبہ کے لیے اس حوالے سے بے حد مفید ثابت ہوا کہ انہیں نصاب میں پڑھائے جانے والے اسباق کا عملی نمونہ بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ پوری دنیا ہی میں ایسے مطالعاتی دَوروں کی مدد سے طلبہ کے مشاہدات میں اضافہ کیا جاتا اور سوچ کے دریچے وسیع کیے جاتے ہیں، پر بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں اس طرح کا طرزِ تعلیم عام نہیں، بہر حال،جامعہ کی جانب سے دَورے کا اہتمام انتہائی خوش آئند اقدام ہے، جس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔