ہمارا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ہنگامی حالات، بد امنی وانتشار، مسائل کوئی نئی بات نہیںکہ ہم غیر معمولی صورتِ حال میں جینےکے اس قدر عادی ہو چُکے ہیں کہ جیسے تیسے اپنے مسائل کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں۔ تاہم، کورونا وائرس کی آزمائش پوری دنیا کی طرح ہمارے لیے بھی انتہائی سخت ثابت ہوئی۔ گوکہ پوری دنیا میں جس قدر جانی نقصان ہوا، الحمدُ للہ ہم اس سے بچے رہے ، لیکن کووِڈ نے ہمارے شعبۂ تعلیم پرکاری ضرب لگائی ہے۔
یوں کہیے، کورونا وائرس ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے ایک کٹھن آزمائش ثابت ہواکہ اس کے باعث طلبہ ایک طویل عرصے تک تعلیمی اداروں سے دُور اور آن لائن تعلیم سے’’ مستفید‘‘ہوتے رہے۔ مُلک کا اہلِ علم اور دانش وَر طبقہ ان خدشات کا شکار ہے کہ نظامِ تعلیم کو پہنچنے والے اس ناقابلِ تلافی نقصان کےاثرات مستقبل پر بھی ضرور اثر انداز ہوں گےکہ ہماری ناقص تعلیمی پالیسیز کا خمیازہ یہ نسل نہ جانے کتنے سال بھگتتی رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ جب قریباً پونے دو سال بعدگزشتہ برس ستمبر میںکراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت مُلک بھر کے تعلیمی ادارے (سوائے بنّوں کے) 50 فی صد حاضری کے ساتھ کھولے گئے،بعد ازاں اکتوبر میں کورونا وائرس کا زور ٹوٹنے کے بعد 100فی صد حاضری کی اجازت دی گئی اور تعلیمی سلسلہ معمول پر آیا، تو سب نے سُکھ کا سانس لیا۔ واضح رہے، کورونا سے قبل بھی ہمارے 20 ملین بچّے اسکولز سے باہر تھے ،تو اب نہ جانے یہ شرح کہاں تک پہنچ چُکی ہوگی۔
2021ء کے اواخر میں یونیسکو اور یونیسیف کی کووِڈ-19 کے ایشیائی اسکولز پر مرتّب ہونے والے اثرات پرجاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیاکہ ’’کورونا کے آغاز سے اب تک ایشیا بھر میں 80کروڑ سے زائد بچّوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ اب بھی ایشیا میں 2کروڑ 70 لاکھ سے زائد بچّے اسکولز واپسی کے منتطر ہیں، جن 80کروڑ بچّوں کی تعلیم متاثر ہوئی، ان میں سے 40کروڑ کا تعلق جنوبی ایشیا(پاکستان کا تعلق اسی خطّے سے ہے)، 26کروڑ کا تعلق مشرقی ایشیا اور 14 کروڑ کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے ہے۔‘‘
دوسری جانب، وفاقی وزیر ِ تعلیم، شفقت محمود نے بتایا کہ’’ محکمۂ تعلیم نے یونیسیف کے تعاون سے ایک رپورٹ مرتّب کی ہے، جس میں جائزہ لیا گیا ہےکہ تعلیم کا آئینی حق (آرٹیکل 25-A) اور تعلیم کے لیے پاکستان کا عزم ایس ڈی جی 4کورونا وائرس سے کس حد تک متاثر ہوا۔عالمی بینک کے مطالعے کے مطابق پاکستان میں 75فی صدتعلیمی انحطاط ہے،جو ہمارے لیے حقیقی چیلنج ہے اور کووِڈ- 19کی وبا نے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ہم مختلف تنظیمیں ضم کر کے وزارت کے ماتحت’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن‘‘ قائم کر رہے ہیں،جو قومی سطح پر ڈیٹا اکٹھا کرنے، تحقیق اور تشخیص کے طریقۂ کار کے لیے جدید ترین تِھنک ٹینک ہوگا۔ورلڈ بینک کے 250 ملین امریکی ڈالر زکے تعاون سے وفاقی وزارتِ تعلیم، صوبوں کے ساتھ مل کر پس ماندہ اضلاع کے لیے انفرا اسٹرکچر اَپ گریڈ کرنے،اسکولز سے باہر بچّوں پر توجّہ دینے اور تعلیمی غربت کم کرنے کے لیے ایک پراجیکٹ بھی شروع کرے گی۔‘‘
بجٹ کی بات کی جائے، تو 11 جون کو مالی سال 2022ء- 2021ءکے لیے پیش کیے جانے والےوفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کی مد میں108ارب روپے(42.4 ارب ترقیاتی اخراجات اور 66.25 ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے) مختص کیے گئے۔ اسی طرح تعلیمی اُمور اور خدمات کے لیے 91.97ارب روپے، پرائمری اور پرائمری تعلیم سے قبل اُمور وخدمات کے لیے 3.021 ارب روپے، ثانوی تعلیمی امور وخدمات کے لیے 7.632ارب روپے، اعلیٰ تعلیمی امور و خدمات کے لیے 78.195 ارب روپے، تعلیم کی اعانتی خدمات کے لیے 31 کروڑ 70 لاکھ روپے ، انتظامیہ کے لیے 1.9 ارب روپے مختص کیے گئے ۔
صوبۂ پنجاب میں مالی سال 22-2021ء کے لیے 2,653 ارب روپے حجم کا ٹیکس فری ریکارڈ بجٹ پیش کیا گیا، جس میں تعلیمی بجٹ میں 13فی صد اضافہ کیا گیا اورشعبۂ تعلیم کے لیے 442 ارب روپے مختص کیے گئے، جو گزشتہ سال کی نسبت 13فی صد زائد تھے۔22 اضلاع میں 577اسکولز کو مِڈل اور ہائی اسکولز کا درجہ دیاگیا اور8نئی جامعات کے لیے ایک ارب 80 کروڑ روپے رکھے گئے۔
نیز، گزشتہ سال حکومتِ پنجاب نے 33 ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کی منظوری دیتے ہوئے لیکچرارز کی 3 ہزار اسامیوں پر بھرتی کی ریکوزیشن پبلک سروس کمیشن کوبھجوا ئی، جب کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن ، پنجاب کے مطابق ابتدائی طور پر 16ہزار اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔علاوہ ازیں، صوبے کےتمام نجی و سرکاری ا سکولز میں یک ساں نصابِ تعلیم کے اطلاق کا مرحلہ وار آغاز کیا گیا ۔ نیز، پنجاب میں اسمارٹ یونی وَرسٹی کانسپٹ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور صوبے بھر میں کالج ٹیچنگ انٹرنز (سی ٹی آئیز) کی مزید بھرتیوں کی اُصولی منظوری دی گئی۔
سندھ میں 1,477ارب کا ٹیکس فرِی بجٹ پیش کیاگیااورتعلیم کی مد میں بجٹ کا سب سے بڑا حصّہ رکھا گیا۔شعبۂ تعلیم کے لیے بجٹ میں 14.2 فی صد اضافے کے ساتھ 240 ارب روپے ،اسکولز فرنیچرکے لیے 6.623ارب روپے، اسکولزکی تزئین و آرائش کے لیے 5ارب روپے ، کالجز کی مرمّت اور بحالی کے لیے 425 ملین روپے اور تعلیم کے شعبے کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 26ارب روپے مختص کیے گئے۔ دوسری جانب، صوبےمیں میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرنے اور فروغِ علم کی دعوے دار سندھ حکومت نے عدالتِ عالیہ میں 7,974 اسکولز مستقل طور پر بند رکھنے کااعتراف کیا کہ ’’مختلف وجوہ کی بنا پرصوبے بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اسکولز بند ہیں۔‘‘
اسی طرح ٹرانس پیرینسی انٹرنیشنل پاکستان نے وزیراعلیٰ سندھ سے رابطہ کرکے شکایت کی کہ ’’صوبے کا محکمۂ تعلیم مبیّنہ طور پر دو افراد کے بیٹھنے کے لیے استعمال ہونے والی ڈیسک 320 فی صد اضافی قیمت پر خرید رہا ہے، جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ‘‘علاوہ ازیں،گزشتہ برس کانٹریکٹ پر بھرتی اساتذہ نے سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج بھی کیا،جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کرکے نہ صرف متعدّد اساتذہ کو(بشمول خواتین اساتذہ)زخمی کردیا، بلکہ درجنوں کو گرفتار کرکے،گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل میں لے گئے۔
علاوہ ازیں، محکمۂ تعلیم، سندھ میں 14ہزار اسامیوں پر بھرتی کے لیے ایک لاکھ 60ہزار افراد کا ٹیسٹ لیا گیا، جن میں سے صرف 1,258 افراد ہی ٹیسٹ پاس کر سکے ۔نیز، ایک طرف تو محکمۂ تعلیم ، سندھ میں بھرتیوں کے لیے امتحان لیا گیا، تو دوسری طرف محکمے کی جانب سے 5,000 کے قریب غیر فعال اسکولز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2021ء کے آخر میں کراچی کے ایک نجی اسکول کے واش رومز سے خفیہ کیمرے نکلنے کا بھی انکشاف ہوا، جس کے بعد اسکول کا لائسینس منسوخ کرکے اسے سیل کر دیاگیا۔ اگر اچھی خبر کی بات کی جائے ،تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جامعہ نے ٹرانس جینڈر کو ایم فِل پروگرام میں داخلہ دیا اور یہ داخلہ جامعہ کراچی نے دیا۔
خیبر پختون خوا میں مالی سال2022ء- 2021ءکے لیے 1,118 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیاگیا، جس میں تعلیم کے لیے200ارب سے زائد اوراعلیٰ تعلیم کے لیے 27.56ارب رکھے گئے۔ابتدائی و ثانوی تعلیم کے بجٹ میں 24فی صدتک اضافہ کیا گیااور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لیے 2.58 ارب مختص کیے گئے۔ نیز، رواں مالی سال کے دوران صوبے کے 30کالجز کو پریمیئر کا درجہ دیا جائے گا اور 40کالجز مکمل ہو جائیں گے۔ضم شدہ اضلاع میں 4ہزار 300 اسکولز کے لیے اساتذہ کی بھرتی کی گئی۔جب کہ طلبہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے پشاور میں71 سرکاری اسکولز بند کر دئیے گئے۔
گزشتہ سال ستمبر میں ضلع ٹانک میں دھماکے کے نتیجے میں لڑکیوں کےایک اسکول کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ۔تاہم ، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔اس سے قبل جولائی میں پشاور کے تاج آباد کے علاقے میں افغان بچّوں کے اسکول میں بھی دستی بم پھینکا گیا تھا ۔جولائی ہی میں شمالی وزیرستان کے علاقے، حیدر خیل میں لڑکیوں کےایک اسکول میں انٹرکے امتحان کے دوران بھی ایک دھماکا ہوا ، مگر خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ وزیر ِاعلیٰ خیبر پختون خوا، محمود خان نے مٹہ ،سوات میں گرلز ہائر سکینڈری اسکول کی تعمیرِ نوکا افتتاح کیا۔
واضح رہے، یہ منصوبہ پانچ کروڑ روپے لاگت سے مکمل ہوگا۔دوسری جانب، چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے کے پی کے میں 15برس قبل آنے والے زلزلے میں تباہ ہونے والے اسکولز کی تا حال عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں کہا کہ’’ خیبر پختو ن خوا میں کرپشن اس قدر زیادہ ہے کہ عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں ہو رہا۔ 592 ارب روپے سے کیا تعمیرکیاگیا ہے؟آپ بس کاغذات دکھا رہے ہیں جو نظر کا دھوکا ہیں۔‘‘عدالت کے ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ’’ صوبائی حکومت نے 2 ماہ میں 148 اسکولز تعمیر کرکے فعال کردئیے ہیں۔‘‘جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ’’ اسکولز اب بن رہے ہیں، جب کہ 16سال میں نہ جانےکتنے بچّے اسکولز نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ گئے اور اب بھی جیسی عمارتیں بن رہی ہیں، یہ 6ماہ میں گرجائیں گی۔‘‘
بلوچستان میں مالی سال2022ء- 2021ءکے لیے 584.043بلین روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس میں مجموعی طور پر پرائمری وسیکنڈری تعلیم کی مد میں 8.463 ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 53.256 ارب روپے مختص کیے گئے۔ اسی طرح کالجز اور ہائر ایجوکیش کے شعبے کے لیے غیر ترقیاتی مد میں 11.736 ارب اور ترقیاتی مد میں 9.469 ارب روپے مختص کیے گئے۔ہائر ایجوکیشن کے فروغ کے لیے صوبے کی جامعات کی سالانہ گرانٹ1.50 بلین روپے سے بڑھا کر 2.50 بلین روپے کر دی گئی،جب کہ بلوچستان یونی وَرسٹی آف میڈیکل سائنسز اور بلوچستان ایگری کلچرل یونی وَرسٹی کے لیے خصوصی گرانٹ رکھی گئی ۔بولان میڈیکل کالج میں 2ہاسٹلزکی تعمیرکے لیے 20کروڑ روپےمختص کیے گئے اور243 اسکولز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔
اسی طرح ضلع گوادر کی تحصیل، جیونی میں نیو بوائز کالج کی تعمیر کے لیے 97.5ملین روپےاور مختلف اضلاع میں ڈگری کالجز میں سہولتوں کی فراہمی کی مد میں 186.761ملین روپے رکھے گئے۔ مختلف گورنمنٹ ڈگری کالجز میں ڈیجیٹل لائبریریز کے قیام کے لیے 70 ملین روپے مختص کیے گئے۔ نیز، پورے صوبے میں 100 نئے مڈل اسکولز کے قیام کے لیے 1,500 ملین روپے مختص اور 198نئے اسکولزکی تعمیر اور اَپ گریڈیشن کا فیصلہ کیا گیا ۔ اسی طرح بلوچستان کے 35گرلز ہائی اسکولز اَپ گریڈ کر کے کالجز کا درجہ دیا گیا۔ ساتھ ہی 777 ملین روپے کی لاگت سے 22 نئے گرلز کالجز بنانے کا بھی اعلان کیا گیااور سیکنڈری ایجوکیشن میں 2349نئی اسامیوں کا بھی اعلان کیا گیا۔
سال 2021ءمیں شعبۂ تعلیم پہلے اسکولز کی بندش، بعدازاںامتحانات اور پھر امتحانی نتائج کے حوالے سے خبروں میں چھایا رہا ۔پہلے تو کورونا کی تیسری اور شدید لہر کے دوران او، اے لیولز کے امتحانات کے انعقاد پر حکومت کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، بعد ازاں لاہور میں میٹرک ،انٹر میڈیٹ اور او لیولز کےطلبہ بغیر امتحان ، نتائج جاری کرنے کےمطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئےاور دھرنا دیا۔
خیر، وفاقی حکومت نے امتحانات لینےکا فیصلہ تو بر قرار رکھا، لیکن صرف اختیاری مضامین کا امتحان لیا گیا اور 5فی صد اضافی نمبر زبھی دینےکا فیصلہ کیا گیا،جس کے نتیجے میں گزشتہ برس مُلک بھر کے بورڈز کےامتحانی نتائج کہیں 90،تو کہیں سو فی صد رہے۔ جیسے، فیصل آباد بورڈ میں کام یابی کا تناسب 99.4فی صد، گوجرانوالہ میں 99.29، سندھ میں 98فی صد، ملتان میں 99.34فی صد ،راول پنڈی میں 99.1رہا ۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کورونا وائرس کے سبب پوری دنیا ہی میں کہیں صرف مخصوص مضامین کے امتحانات لیے گئے، ٹیچرز اسیسڈ گریڈز دئیے گئے، زبانی امتحان لیا گیا، اسائمنٹس کی بنیاد پر گریڈنگ ہوئی، تو کہیں پچھلی تین چار جماعتوں کے اوسط نتائج دیکھ کر گریڈنگ کی گئی، لیکن نمبرز کی بندر بانٹ جس طرح ہمارے مُلک میں کی گئی، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ امتحانات اور نتائج ہی کی بات آگے بڑھائیں توفیڈرل پبلک سروس کمیشن ، 2021ء میں 17ہزار 240 امیدواروں نے امتحان میں حصّہ لیا،لیکن صرف 364 امیدوار ہی تحریری امتحان پاس کرپائے، اس طرح سی ایس ایس کے امتحان میں کام یابی کی شرح 2 اعشاریہ 1 فی صد رہی۔
اعلیٰ تعلیم کی بات کی جائے، توسالِ گزشتہ جامعات کی درجہ بندی کرنے والے برطانوی ادارے کیوایس ورلڈرینکنگ میں پاکستان کی نسٹ یونی وَرسٹی دنیا کی 100 بہترین جامعات کی فہرست میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئی۔اس رینکنگ میں پاکستان کی 30یونی وَرسٹیز بشمول قائد اعظم یونی وَرسٹی، کامسٹ، اسلام آباد اور جامعہ کراچی شامل ہیں۔
دنیا بھر کی جامعات کی سالانہ درجہ بندی ميں پنجاب کی کوئی بھی سرکاری یونی وَرسٹی دنیا کی پہلی 800جامعات میں نہ آسکی۔ البتہ، لاہور کی لمزیونی ورسٹی 651 ویں نمبر پر ہے ۔ اسی طرح لاہور کی یونی وَرسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور پنجاب یونی وَرسٹی 801 ویں نمبر پر،جب کہ زرعی یونی وَرسٹی ،فیصل آباد 1001 نمبر پر رہی۔ یاد رہے، یہ درجہ بندی جامعات کی ریسرچ، تعلیمی شہرت اور فیکلٹی کے تناسب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
سالِ رفتہ ہونے والی دیگر تعلیمی سرگرمیوں میں یک ساں نصابِ تعلیم کا نفاذ، سندھ اور وفاق کی اس حوالے سے لڑائی موضوعِ بحث بنی ،ایچ ای سی کے سربراہ کا تقرّر مذاق بنا رہا ، رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ، تو انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجینسی اور اقوامِ متحدہ کی آرگنائزیشن برائے خوراک و زراعت نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے زراعت، بائیولوجی اور سائنس دانوں کو مجموعی طور پر تین ایوارڈز دینے کا اعلان کیا ، برطانیہ کی معروف یونی وَرسٹی آف ہرٹفورڈ شائر نے پاکستانی ماہرِ تعلیم ،چوہدری فیصل مشتاق کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازااور پاکستانی سائنس دان ، ڈاکٹر اقبال چوہدری کو مسلم دنیا کے سب سے بڑے سائنسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔