• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیو ٹیپ،عدم برداشت نے سچ سننا، دیکھنا اور پڑھنا مشکل بنادیا

اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) وفاقی حکومت کے بعض وزراء اور ترجمانوں کی جانب سے منگل کو ایک پرانی آڈیو ٹیپ کے منظر عام پرآنے کے حوالے سے پرویز رشید اور مریم نواز کو بالخصوص تنقید کا ہدف بنایا جارہا ہے جس میں دونوں رہنما بعض ان صحافیوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جو مبینہ طور پر ٹی وی ٹاک شوز میں ’’جانبداری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس گفتگو میں میڈیا کے جن تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے نام لیکر ان پر جانبداری کا الزام لگایا جارہا ہے ان میں ایسے نام بھی شامل ہیں جن کا صحافتی کیریئر نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ان سے اپنے لئے جس حمایت اور سیاسی حریف کیلئے جس مخالفت کی توقع رکھتے اور مطالبہ کرتے ہیں وہ ان پر پورا نہیں اترتے۔

آڈیو ٹیپ میں پرویز رشید کااینکرز کیلئے لفظوں کا انتخاب کسی طرح بھی درست نہیں تھا بلکہ آڈیو ٹیپ میں بعض الفاظ تو ایسے بھی ہیں جو واقعتاً قابل مذمت ہیں ۔

آڈیو ٹیپ میں مبینہ طور پر جو گفتگو سنی جاسکتی ہے، ایسی گفتگو کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے زعما اپنے مخالفین کے بارے میں کرتے ہیں گوکہ یہ بھی درست ہے کہ اپنے مخالفین کے بارے میں گفتگو کا یہ چلن اب نئی بات نہیں رہی اور اس سچ کو جو انکے خلاف جاتا ہو اس پر ایسے ہی ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے خواہ اس میں خوشامد اور مبالغہ آمیزی کی بنیاد جھوٹ پر ہی کیوں نہ ہو۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عدم برداشت کے رویوں نے ہمیں اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے کہ نہ تو ہم سچ سننا چاہتے ہیں نہ سچ دیکھنے کی تاب ہے اور نہ ہی سچ پڑھنے کی برداشت، مذکورہ آڈیو ٹیپ میں دو معروف صحافیوں کو ’’ فروٹ باسکٹ‘‘ بھیجنے کی بھی بات کی گئی جسے ایک سکینڈل کی شکل میں مسخ کرکے زیر بحث لایا جارہا ہے۔

حالانکہ سیاست میں رواداری کےا س کلچر کا آغاز انتہائی محترم سیاستدان نوابزادہ نصر اللّٰہ خان نے کیا تھا جنہوں نے آم کے ذاتی باغوں سے ہر سیزن میں سیاستدانوں، صحافیوں اور دیگر رفقاء کو باقاعدگی سے تحفہ آم بھیجنے کی روایت ڈالی تھی پھر پیر صاحب پگاڑا، غلام مصطفیٰ جتوئی اور نواب اکبر بگٹی کے دم قدم سے یہ روایت زندہ رہی اور اس روایت کو اب بلوچستان کے سردار یار محمد رند نے برقرار رکھا ہوا ہے۔

اہم خبریں سے مزید