ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے شہر جہلم میں غربت سے تنگ ماںکا 3بچیاں کو ذبح کرکے خود کو آگ لگانے کا واقع انتہائی افسوسناک اور اندوہناک ہے۔ ملکی معاشی حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔اب لوگ خودکشیاں اور اپنے بچوں کو قتل کرنے پر مجبور ہیں۔جہلم جیسے تکلیف دہ واقعات سے بچنے کیلئے ملکی معاشی بد حالی سے نجات ازحد ضروری ہے۔اس وقت مہنگائی 22ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ 2021 میں گھی 56فیصد، گندم 14 فیصداور چینی 13فیصد مہنگی ہوئی۔ تین برسوں میں پٹرول کی قیمت میں 52روپے فی لیٹر اضافہ ہوا۔ گیس کی قلت نے بھی عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافےکی خبریں عوام کےلئے مزید پریشانی کا باعث بن رہی ہیں، اس سے عوام پر 17ارب 85کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ حکومت کی اب تک کی کارکردگی توقع سے زیادہ مایوس کن رہی ہے۔عوام میں اس حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔پاکستان میں مہنگائی سب سے زیادہ کم ہونے کی باتیں کرنے والے حقائق سے نا بلد اورعوام سے اپنا ناطہ توڑ چکے ہیں۔ان کو احساس ہی نہیں کہ عوام کس کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ اب توجان بچانے والی ادویات بھی عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔ کروڑوں روپے انتخابی مہمات پر خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کے ٹیکس گوشوراے دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ وہ کتنے غریب ہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک سابق وزیرا عظم ایسے بھی ہیں جنہوں نے سرے سے کوئی ٹیکس نہیں ادا کیا۔ وزیر اعظم کا ٹیکس دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آمدنی کروڑوں، اربوں روپے میں ہے۔ انہوں نے 2018میں صرف 2لاکھ 82ہزار روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ اس سال انہوں نے 98لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کے سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے، ان کو اپنی آمدنی کی تفصیلات قوم کے سامنے لانی چاہئے۔ دو سابق وزرائے اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ خیبر پی کے سمیت 331ارکان نے اپنے گوشوارے جمع نہیں کروائے جبکہ ایوان بالا کے بھی 17ارکان نے گوشوارے جمع کرانے کی زحمت نہیں کی،جب تک قوم کے منتخب نمائندے خود ٹیکس ادا نہیں کریں گے، عوام میں ٹیکس کلچر فروغ نہیں پاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ عوام کو درپیش مسائل میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیاگیا ہے۔
کفایت شعاری کا درس دینے والے ہمارے وزیر اعظم نے تین برسوں میں 47غیر ملکی دورے کئے، جن پر 20کروڑ روپے خرچ آیا۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان کے کفایت شعاری اور سادگی کے دعوے محض ڈھونگ تھے۔فارن فنڈنگ کیس میں بھی تحریک انصاف نے 3بینک اکاؤنٹس اور 31کروڑ روپے چھپا کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔اب سیکروٹنی کمیٹی کا غیر ملکی فنڈنگ میں تحریک انصاف کے اکاؤنٹس چھپانے کا انکشاف تشویشناک ہے، پاکستان سمیت124ممالک میں سیاسی جماعتوں کی بیرونی فنڈنگ پر پابندی عائد ہے۔ موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہی معلوم ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کرپشن اور سرکاری وسائل لوٹنے میں ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔ ان سے خیر کی توقع نہیں ہے۔ کوئی حکومتی ترجمان بتانا پسند کرے گا کہ اقتدار میں آکر وزیر اعظم کی آمدنی میں اضافہ کیسے ہوگیا ؟یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ایسے حکمران پاکستان پر مسلط ہیں جن کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے قوم اس قدر پریشان ہو چکی ہے کہ اب دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی بھی لوگوں کو ملنا مشکل ہو چکا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو مثالی قرار دیا جاسکتا ہو۔ بھرتیاں سفارش پر کی جارہی ہیں۔کورونا فنڈنگ میں کرپشن پر تحقیقات برائے نام ہورہی ہے۔ حکومت اس حوالے سے حقائق جلد قوم کے سامنے لائے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت اب اپنے دن پورے کر رہی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح، غربت اور بے روزگاری حکومتی کنٹرول سے باہرہو چکی ہے۔ ڈالر آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے۔پٹرولیم کی قیمتو ں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایسادکھائی دیتا ہے کہ ملک میں کہیں بھی حکومتی رٹ موجود نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مافیاز طاقتور ہیں اور ان پر حکومت قابو نہیں پاسکتی تو پھر ایسی حکومت کا برسراقتدار رہنے کا کیا جواز ہے؟حکومت کے پاس پولیس اور دیگر ریاستی ادارے ہیں۔وہ ان کے ذریعے ان مافیاز پر باآسانی قابو پا سکتی ہے۔ مسئلہ صرف نیت کی درستی کا ہے۔سب سے پہلے حکومتی صفوں میں موجود آٹا، چینی اور پٹرولیم مافیا کو بے نقاب کرنا چاہئے۔ اس سے ایک اچھی روایت کا آغاز ہوگا۔ اگر بدعنوان عناصر کے گرد گھیرا تنگ ہو گا تودیگر مافیاز اور وہ اس سے عبرت حاصل کریں گے۔