سانحہ مری کی ابتدائی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کردی گئی، جس میں شہریوں کی اموات کی وجہ کاربن مونو آکسائیڈ گیس کو قرار دیا ہے۔
ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 جنوری کو مری میں 16 گھنٹے میں 4 فٹ برف پڑی، 3 جنوری سے 7 جنوری تک ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 16 مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی، گاڑیوں میں بیٹھے 22 افراد کاربن مونو آکسائیڈ سے جاں بحق ہوئے۔
ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ مری جانے والی 21 ہزار گاڑیاں واپس بھجوائی گئیں۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ٹریفک لوڈ مینجمنٹ نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ ملکۂ کوہسار مری میں برف باری کے دوران گاڑیوں میں پھنس کر انتقال کر جانے والوں کی تعداد 23 ہوگئی ہے۔
حکومت نے مری کو آفت زدہ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کردی جبکہ ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے امدادی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔
ملکۂ کوہسار مری میں برف باری تھمنے پر امدادی کاموں میں تیزی آ گئی ہے، مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ مری سے رات گئے 600 سے 700 گاڑیوں کو نکالا گیا ہے۔
مری میں شدید برف باری کی وجہ سے 20 سے 25 بڑے درخت گرے، جبکہ تمام سیاحوں کو رات سے پہلے ہی محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 500 سے زائد فیملیز کو محفوظ مقام پر پہنچایا گیا۔
راولپنڈی اسلام آباد سے مری آنے والے راستوں پر پولیس موجود ہے، راستے آج بھی بند رہیں گے، تاہم امدادی کاموں میں تیزی آنے کے باوجود بھی سیاح انتظامیہ کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔