آکسفورڈ یونیورسٹی میں جب مجھے اپنے پی ایچ ڈی کے کام سے کچھ فرصت ملتی تو میں چہل قدمی کیلئے نکل جاتا تھا۔ ملک، معاشرے اور علاقے جدا ہوتے ہیں لیکن جدید دنیا میں آگے بڑھنے کے طریقے ایک جیسے ہی ہیں مثلاً ٹیکنالوجی کا استعمال، کام میں جدت، وقت کا درست استعمال، ترقی یافتہ معاشروں پر نظر رکھنا، اصولوں کی پابندی اور میرٹ پر سمجھوتہ نہ کرنا۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ کاش! مجھے پاکستان میں کام کرنے کا موقع ملے اور میں یہ تمام روایات اور اصول پاکستانی اداروں میں رائج کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکوں۔ زندگی کا پہیہ گھومتا رہا اور 2019ءکے آخر میں مجھے جی سی یو کے وائس چانسلر کی ذمہ داریاں سونپی گئی جس کے کچھ ہی ماہ بعد کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔ ایک ایسی درسگاہ جس کی پہچان کلاس رومز میں بہترین طریقے سے تعلیم دینا اور کیمپس میں غیرنصابی سرگرمیاں تھیں، وہاں آن لائن تعلیم دینا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ مجھے فخر ہے اپنے اساتذہ اور طلبا پر جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود احسن طریقے سے تعلیم کا سفر جاری رکھا۔ 2020کا بڑا حصہ میں نے اپنی ٹیم بنانے، پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کے مسائل سمجھنے اور جی سی یو جیسی تاریخی درسگاہ کو بہتر سے بہترین بنانے کی سوچ بچار اور منصوبہ بندی میں صرف کیا۔ نہ چھٹیوں کا سوچا نہ دن رات پر دھیان دیا۔ایک بنیادی مسئلہ جو مجھے جی سی یو میں نظر آیا وہ برطانوی راج کی باقیات، بیوروکریسی تھی۔ فائل ورک اتنا زیادہ ہے کہ زیادہ تر وقت کاغذ لکھنے، اس کو ایک میز سے دوسری میز تک پہنچانے اور ہر کیس کی مؤثر طریقے سے خبر رکھنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ فائل ورک میں غیرجانبداری قائم رکھنا بھی ایک مشکل عمل ہے۔ 15ہزار طلباء اور 12سو کے قریب انتظامیہ کے معاملات کاغذ پر نہیں چلائے جا سکتے۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں نے یونیورسٹی میں ڈیجی ٹلائزیشن کے عمل کا آغاز کیا۔ سال 2021ءمیں 55ہزار داخلے کی درخواستیں، داخلہ ٹیسٹ کے نتائج اور پھر میرٹ لسٹ سمیت تمام عمل آن لائن کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یونیورسٹی میں داخلے کیلئے کبھی 20ہزار سے زائد درخواستیں نہیں آئیں۔ زیادہ تعداد میں درخواستیں موصول ہونے کی وجہ جی سی یو کی نئی داخلہ پالیسی بھی تھی۔ مختلف اجلاسوں میں جب ہم نے غور کیا کہ کیسے ہم اپنا تعلیمی معیار مزید بہتر کر سکتے ہیں تو کمزور پہلو ہمیں اپنے داخلے کے طریقے کار میں بھی نظر آیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتخانی نظام ہمارے طلبا کی یادداشت کو جانچتا ہے، ان کی تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو نہیں۔ لہٰذا طلباجتنے زیادہ نمبر لے کر آتے اُن میں اتنا ہی تجزیہ کرنے کا فقدان ہوتا۔ اس مسئلے کو مدِنظر رکھتے ہوئے داخلہ ٹیسٹ اور انٹرویو کا نظام متعارف کروایا۔ ہمارے تعلیمی شعبہ جات کے سربراہان کا خیال ہے کہ جب سے گورنمنٹ کالج، یونیورسٹی بنا ہے داخلے کا یہ معیار پچھلے تمام برسوں سے بہتر ہے۔ اب ہم کسی بھی بہترین درسگاہ میں داخلہ لینے والوں سے اپنے طلبا کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تمام داخلے میرٹ پر ہوں۔ اسپورٹس اور ہم نصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر ہونے والے داخلوں کے نتائج کا ٹرائل کے وقت ہی اعلان کیا تاکہ کسی کو میرٹ پر کوئی شبہ نہ ہو۔تعلیمی نظام میں داخلے کے بعد دوسرا اہم پہلو کلاس میں تدریس کا عمل ہے۔ ہمارے تدریسی عمل کو بہتر کرنے کیلئے میں نے کورس ہینڈ بک کو متعارف کروایا، جس میں ہفتہ وار لیکچر کی تفصیل، کورس کے مندرجات، امتخانات کا وقت اور طریقہ کار، چربہ سازی کے متعلق معلومات، حاضری کے اصول اور کورس کے مقاصد درج کیے گئے۔ نیز اساتذہ کو ترغیب دی گئی کہ وڈیوز، آن لائن لیکچرز اور نئی کتب کو کورس ہینڈ بک میں شامل کریں۔ اس بات کو جانچنے کے لیے کہ کیا ان اقدامات کے ثمرات طلبہ تک پہنچ رہے ہیں، میں نے ایک سمسٹر میں تین دفعہ ٹیچرز ای ویلیوایشن سسٹم متعارف کروایا جس میں طلبا سمسٹر کے آغاز، درمیان اور آخر میں مختلف پہلوؤں سے تدریسی عمل پر اپنی رائے دیتے ہیں جو ہم بعد میں اساتذہ سے بھی شیئر کرتے ہیں۔
2021ءمیں جی سی یو کی تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی امتحانات کے نظام میں آئی۔ اب جی سی یو میں مخصوص وقت میں کلاس میں بیٹھ کر امتحان دینا ضروری نہیں ہے بلکہ اساتذہ، اوپن بک، پروجیکٹ بیسڈ اور ریسرچ آرٹیکلز کی بنیاد پر بھی امتحان لے سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر کوئی شبہ نہیں کہ اس تبدیلی سے طلبا کی ذہنی صلاحیت بہتر ہو گی، ان کا رجحان ایجاد، تجزیے اور منفرد فکر کی طرف ہوگا۔ وہ کتابوں کو سمجھنے کیلئے پڑھیں گے نہ کہ رٹا لگانے کیلئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے سمسٹر ورک کا ویٹیج بڑھا کے 50فیصد کر دیا ہے۔ دنیا کی نامور درسگاہوں کے امتحانی طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے جی سی یو میں ریو برک بیسڈ سسٹم متعارف کروایا۔ (جاری ہے)
(صاحب تحریر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ہیں)