• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رانا شمیم بیان حلفی کیس، فواد چوہدری کیخلاف نااہلی کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

اسلام آباد (عاصم جاوید) سابق چیف جج گلگت بلتستان ایپلٹ کورٹ رانا شمیم کی بہو، پوتے اور پوتی نے سینیٹر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر فواد چوہدری سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں صداقت علی عباسی، فرخ حبیب کی نااہلی اور میڈیا کو بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کے فیصلے تک رانا شمیم کی کردار کشی روکنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ 

آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ آج کریں گے۔ 

گلگت بلتستان کی سپریم ایپلٹ کورٹ کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کی بہوانعم احمد رانا، پوتے حمزہ رانا اور پوتی اریبہ رانا نے احمد حسن رانا ایڈووکیٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی ہے جس میں وفاق بذریعہ وزارت قانون، پیمرا، سینیٹر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر فواد چوہدری، حکومتی رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی، فرخ حبیب، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان،نجی ٹی وی چینل اے آر وائی، رجسٹرار سپریم ایپلٹ کورٹ گلگت بلتستان، رجسٹرار شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لا اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی سابق چیف جج رانا محمد شمیم کو بدنام کرنے کیلئے سینیٹر فیصل واوڈا کے بیانئے کو فروغ دے رہا ہے کہ انہوں نے نواز شریف سے مالی فائدہ اٹھایا۔

 اس الزام سے پیدا ہونیوالی غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے لوگوں کو وضاحتیں دینی پڑتی ہیں۔ فیصل واوڈا نے 15 نومبر 2021کو اے آر وائی پر بے بنیاد الزامات لگائے اور توہین آمیز زبان استعمال کی۔ 

14 جنوری 2020 کے ٹی وی شو میں تو وہ فوجی بوٹ بھی ساتھ لائے۔ سینیٹر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر فواد چوہدری، ایم پی اے صداقت عباسی اور وزیر مملکت فرخ حبیب نے مختلف ٹی وی شوز میں رانا شمیم پر الزامات لگائے۔ جھوٹے الزامات لگانے پر وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

 درخواست کے مطابق رانا شمیم نے 10 نومبر 2021 کو بیان حلفی ریکارڈ کرایا جس میں تلخ حقیقت بیان کی اور سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار پر سنگین الزامات لگائے جس پر انہیں توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف تاحال انکوائری کا آغاز نہیں ہوا اور وہ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بیان حلفی میں جس حاضر جج کا ذکر ہوا وہ بھی کام کر رہے ہیں۔ 

درخواست کے مطابق رانا محمد شمیم نے بیان حلفی میں وہی کچھ لکھا جو انہوں نے سنا، جب تک بیان حلفی غلط ثابت نہ ہو اس وقت تک رانا شمیم پر بدنیتی کا الزام نہیں لگ سکتا۔

 رانا محمد شمیم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔ درخواست میں ماضی میں عدلیہ پر مبینہ مداخلت اور دباؤ قبول کرنے کے حوالے سے بعض مثالیں بھی دی گئی ہیں اور سابق چیئرمین سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے 28اپریل 2017ءکے خط کا بھی حوالہ دیا گیا جو انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا، چیئرمین ایس ای پی کو امریکہ کے ایک نمبر سے وٹس ایپ کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ ”ہدایات ہیں کہ بلال رسول کا نام نئے پینل میں شامل ہونا چاہئے“۔

 لیٹر کے مطابق پینل سے مراد جے آئی ٹی کی طرف اشارہ تھا جو سپریم کورٹ نے عمران خان نیازی بنام نواز شریف کیس میں 20 اپریل 2017ءکو آرڈر کیا۔

 درخواست کے مطابق سپریم کورٹ کے آرڈر میں کسی کا نام تجویز نہیں کیا گیا اور نامزدگیاں چیئرمین ایس ای سی پی پر چھوڑ دی گئی تھیں۔ 

درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی 21جولائی 2018ءکو راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں انہوں نے بعض سرکاری اداروں پر عدالتی امور میں مداخلت کا الزام لگایا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز سے متعلق کیس میں بنچز کی تشکیل کی ہدایت پر عمل کیا۔ 

شوکت عزیز صدیقی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التواءریفرنس ختم کرنے اور چیف جسٹس بنانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے 31 جولائی 2018ءکو شوکاز نوٹس جاری کیا جس کے جواب میں شوکت صدیقی نے اس وقت کے ایک سابق افسر کا ذکر کیا جبکہ عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے دیگر افسران کے نام بھی لئے اور بتایا کہ ان کے گھر بھی آئے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات نہیں کیں اور ٹرائل شروع کر دیا کہ کیا انہیں عوام میں ایسی بات کرنی چاہئے تھی یا نہیں۔

 11 اکتوبر 2018ءکو سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں قصور وار ٹھہرایا اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ صدر مملکت نے اسی روز حکم نامہ جاری کیا۔

 ابھی تک شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی چھان بین نہیں کی گئی حالانکہ ایک حاضر جج نے عدلیہ پر دباؤ کا بیان دیا اور کہا کہ عدلیہ کی آزادی محفوظ نہیں۔ درخواست میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد جج مرحوم کے حوالے سے کہا گیا کہ فاضل جج نے 6جولائی کو مریم نواز کو سزا سنائی اور اپیل ہائی کورٹ میں زیر التواءہے۔ 

مریم نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اپنے پرانے دوست ناصر بٹ سے رابطہ کیا اور ملنے کا کہا تاکہ وہ بتا سکیں کہ کسی ”مخصوص“ دباؤ پر نواز شریف کو سزا سنائی۔ دوران ملاقات ناصر بٹ کے سٹینو گرافر بھی موجود تھے۔ 

مبینہ طور پر اس ملاقات کو ویڈیو کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کر لیا گیا۔ مریم نواز نے میڈیا بریفنگ میں ویڈیو کلپ بھی چلائے جس میں احتساب عدالت کے جج وہ گراؤنڈز بتا رہے تھے جن سے نواز شریف کو اپیل میں فائدہ مل سکتا تھا۔ مبینہ طور پر مذکورہ جج نے ایک غیر اخلاقی پرانی ویڈیو دکھا کر دباؤ میں آنے کو تسلیم کیا اور ٹھوس شواہد کے بغیر نواز شریف کو سزا سنائی۔

 مریم نواز کی بریفنگ کے اگلے روز احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے وضاحتی پریس ریلیز جاری کی اور کہا کہ نواز شریف کے ٹرائل کے دوران انہیں رشوت کی پیشکش کی گئی اور نواز شریف کو بری نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی گئی، اور یہ کہ نواز شریف کو میرٹ پر سزا سنائی۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر جج ارشد ملک کو برطرف کر دیا گیا۔ جج ارشد ملک (مرحوم) کا ایک بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التواءاپیل کا حصہ بھی ہے۔ 

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 10 نومبر 2021ءکو رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بارے بیان حلفی ریکارڈ کرایا جس کے مطابق سابق چیف جسٹس نے اپنے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ اگر ان کی کال نہ ملی تو اس جج کو یہ بتا دیں کہ انتخابات سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہئے۔ تھوڑی دیر بعد سابق چیف جسٹس کی ان جج صاحب سے براہ راست بات بھی ہوئی جس میں ثاقب نثار نے انہیں کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو عام انتخابات تک جیل میں ہی رکھا جائے۔ 20 نومبر 2021ءکو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو بھی سوشل میڈیا میں آ گئی جس میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ کسی کو نواز شریف کو سزا دینے کی ہدایت دے رہے ہیں۔

 ثاقب نثار نے اس آڈیو کو جعلی قرار دیدیا۔درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فیکٹ فوکس نے انکشاف کیا کہ انہیں یہ آڈیو دو ماہ قبل ملی اور امریکی فرم (گیرٹ ڈسکوری) نے اس کا ملٹی میڈیا فرانزک کیا جن کے پاس بہترین ماہرین موجود ہیں اور ان کی رپورٹ کے مطابق یہ آڈیو ایڈٹ شدہ نہیں تھی۔

 درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیمرا نے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں سینیٹر فیصل واوڈا نے رانا شمیم اور ان کے بیٹے سمیت سابق ججز شوکت عزیز صدیقی اور ارشد ملک (مرحوم) کو برا بھلا کہا اور یہ بھی الزام لگایا کہ نواز شریف نے رانا شمیم کے امریکی دورے کا خرچ اٹھایا۔

 اسی طرح فواد چوہدری، صداقت علی عباسی، فرخ حبیب نے بھی مختلف پروگرامز میں غیر معقول باتیں کیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اے آر وائی چینل کے پروگرام الیونتھ آور میں رانا شمیم اور سپریم ایپلٹ کورٹ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں متنازع باتیں کیں۔

 درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فیصل واوڈا، فواد چوہدری، صداقت علی عباسی اورفرخ حبیب کو آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل کیا جائے، راناشمیم کی کردار کشی کرنے پر فرخ حبیب کو قومی چینل پر معافی مانگنے کی ہدایت کی جائے، نجی ٹی وی اے آر وائی کے اینکرز اور ٹی وی چینل کو پیمرا کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سزا دی جائے، رجسٹرار سپریم ایپلٹ کورٹ سے رانا شمیم کی بطور چیف جج تعیناتی سے متعلق ایڈمنسٹریٹو ریکارڈ طلب کیاجائے، رانا شمیم کے بطور وائس چانسلر شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونیورسٹی تعیناتی سے متعلق ایڈمنسٹریٹو ریکارڈ طلب کیا جائے، بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد حسن رانا کی 26مئی 2018 سے لے کر یکم دسمبر 2018 تک اے سی آر طلب کی جائے اور عدالت میں زیرسماعت توہین عدالت کیس کے فیصلے تک میڈیا، سوشل میڈیا اور اینکرز کو رانا شمیم کی کردار کشی سے روکا جائے۔

اہم خبریں سے مزید