• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سیّدعبدالرحمٰن شاہ

ارشادِ ربّانی ہے:اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا، جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔ (سورۂ آل عمران)قرآن کریم نے جن نافرمان قوموں کی بربادی وہلاکت کی عبرت ناک داستان بیان کی ہے، ان میں خطیب الانبیاء،حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے،جس کی تباہی کا سب سے بڑا سبب کفرو شرک کے بعد،اس میں پایا جانے والا غبن، ناپ تول میں کمی اور خیانت اور بدعنوانی تھا۔

اس قوم کے جلیل القدر پیغمبر، ان کے معاشرے میں ایک طویل عرصے تک حق واصلاح احوال کی صدا لگاتے رہے اور انہیں باربار غبن وکرپشن کی وبا سے نکلنے اور بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ کہتے رہے:’’اے میری قوم! ناپ تول کو مکمل انصاف کے ساتھ پورا کرکے دیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی (خیانت اور بدعنوانی) نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھیرو۔ (سورۂ ہود)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺنے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر (مال غنیمت) خیانت کا تذکرہ فرمایا، پس اسے اور اس کے معاملے کو بہت بڑا بتایا، فرمایا: ’’قیامت کے دن میں تم میں سے کسی ایک کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر منمناتی بکری ہو، اس کی گردن پر ہن ہناتا گھوڑا ہو، وہ کہے گا:(اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں گا: میں تیرے لئے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، تحقیق میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی، (میں ہرگز نہ پاؤں کسی شخص کو کہ) اس کی گردن پر آوازیں نکالتا اونٹ ہو، وہ کہے کہ: (اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ) اس کی گردن پر سونے چاندی کا بوجھ ہو، پھر وہ کہے:(اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ) اس کی گردن پر لہراتے کپڑے ہوں، پھر وہ کہے:(اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓ سے سوال کیا گیا ، جب ہزار دو ہزار دراہم کی خیانت پر خائن کو روز حشر یہ رقم اٹھا کے لانی پڑےگی تو اس کا کیا حال ہو گا جو سو دو سو اونٹ خیانت کرے، تو فرمایا کہ روزِ حشر تو ایسے شخص کا دانت اُحد پہاڑ کے برابر ہوگا اور اس کی بیٹھنے کی جگہ مقام ربذہ سے مدینہ تک پھیلی ہوئی ہو گی، تو وہ کیوں نہ اتنے اونٹوں کو اٹھا کر لا سکے گا۔ ( الدر المنثور) بد دیانتی اور خیانت کے مرتکب افراد کی قرآن کریم نے جا بجا مذمت اور ان کے لئے وعید بیان فرمائی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والو ں کی۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب و ہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔(سورۃ المطففین)

قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیاگیا ہے، کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے، انہی کے ذریعے کہا جاسکتا ہے کہ حق دار کا حق ادا ہو گیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہر ایک حق دار کا حق پورا پورا دینا ہے ، اس میں کمی کرنا حرام ہے ، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کے ساتھ مخصوص نہیں ،بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے، اس کا یہی حکم ہے ، خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے ہر ایک میں حق دار کے حق سے کم دینا حرام ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺہم پر متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ائے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ گے… اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ…علانیہ فحاشی جب بھی کسی قوم میں ظاہر ہوتی ہے تو (اس کی پاداش میں) ان کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پچھلے بڑوں میں نہیں پائی جاتی تھیں، اور نہ ہی کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، مگر انہیں پکڑا جاتا ہے خشک سالی، سخت مشقتوں اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے، اور نہیں روکتے لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ کو مگر (اس کی پاداش میں) ان سے بارش روک لی جاتی ہے، یہاں تک کہ اگر جانور نہ ہوں، توبارش بالکل ہی نہ برسے، اور نہ ہی کوئی قوم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے توڑتی ہے مگر (اس کی سزا کے طور پر) ان پران کا بیرونی دشمن مسلّط کر دیا جاتا ہے جو ان کی ملکیتی و مقبوضہ اشیاء چھین لیتے ہیں، اور جب قوم کے بڑے کتاب اللہ کے ذریعے فیصلے نہیں کرتے تو اللہ ان کے درمیان آپس کی جنگیں ڈال دیتے ہیں۔ ( ابن ماجہ)