• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

اسلام دین فطرت اور دینِ انسانیت ہے،جس میں انسان کے مزاج کی پوری رعایت رکھی گئی ہے۔ مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی ایک ایسی پُرکیف کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مادہ کسی میں کم تو کسی میں زیادہ رکھا ہے، سرور و انبساط کے موقع پر انسان سے بکثرت اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے۔ جو دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے انہیں سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے۔

مزاح اور دل لگی انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے، جو خالق ومالک نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فردِ بشر میں یہ وصف پایاجاتا ہے۔ جو شخص اس عطائے الٰہی کو بروئے کار لاتا ہے، وہ صحیح معنی میں فوائدِ کثیرہ اور منافعِ عظیمہ حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص اس سے استفادہ نہیں کرتا،بلکہ بہ تکلف اسے دباتا ہے۔ 

اپنے اوپر وقار اور سنجیدگی کا مصنوعی خول چڑھا لیتا اور ا-پنے آپ کو وقار اور تمکنت کا مجسم پیکر بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسے مغرور، متکبر، بدمزاج، بدخلق، نک چڑھا جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ جو انسان اس نعمت خداوندی کو بروئے کارلاتا ہے۔ اہل دنیا اسے متواضع، منکسر المزاج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج جیسے القاب سے نوازتے ہیں، اپنے متعلقین میں وہ بڑا ہی مقبول ومحبوب ہوتا ہے۔

دنیا میں وہ ہر د ل عزیز بن کر زندگی بسر کرتا ہے ،کثیر تعداد میں لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں ،نتیجتاً اس کی صلاحیتوں اور استعداد کو جلا ملتی جاتی ہے اور اس کی قابلیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بہ ہمہ وجوہ امت کے فکر وغم میں مستغرق ہونے کے باوجود ان میں بھی ایک فطری جذبہ ہے۔ شریعت تمام امور میں اعتدال پسند واقع ہوئی ہے، لہٰذا مزاح اور خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اور محل کی مناسبت سے مزاح اور دل لگی مباح بلکہ مستحب ہے۔

علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:جان لو کہ مزاح وہ ممنوع ہے جو حد سے زیادہ ہو اور اس پر مداومت کی جائے ،کیونکہ یہ بہت زیادہ ہنسنے اور دل کے سخت ہونے کا باعث ہے، ذکر الٰہی سے غافل کر دیتا ہے اور اہم دینی امور میں غور وفکر سے باز رکھتا ہے۔ بسا اوقات ایذارسانی تک پہنچاتا ہے۔ بغض وعناد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے، جو شخص ان امور سے محفوظ ہوتو اس کے لئے مباح ہے ،یہ عمل خود رسول اللہ ﷺ نے کبھی کبھار کسی مصلحت کے پیش نظر مخاطب کو بے تکلف اور مانوس بنانے کے لئے انجام دیا اور یہ سنتِ مستحبہ ہے۔(مرقاۃ ج۸ ص۶۱۷)

حضرت عبداللہ بن حارثؓ سے مروی ہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کثیرالمزاح کسی کو نہیں پایا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺکثرتِ مزاح کے اثرات سے محفوظ تھے ، لہٰذا آپ کے لئے وہ مباح تھا۔

حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن ؓفرماتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا کہ جب حضور ﷺ گھر تشریف لاتے تو حضور ﷺ کا طریقۂ کار کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: آپ کا سلوک عام لوگوں کی طرح تھا اور حضورﷺ سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے، ہنستے اور مسکراتے بھی تھے، لیکن آپ ﷺکی شانِ ظرافت ،خوش طبعی،دل لگی اور دل آویز تبسّم اعتدال اور میانہ روی کا مرقّع تھا۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا، میں مزاح تو کرتا ہوں ،لیکن ہمیشہ سچ کہتا ہوں۔(مشکوٰۃ ص۴۱۶)

ایک شخص نے خدمتِ اقدس میں آکر سواری کی درخواست کی، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ شخص حیران ہوگیا، کیوں کہ وہ تو سواری کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ عرض کیا یارسول اللہﷺ! میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی اونٹ ایسا بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو! (شمائل ترمذی)

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اے دوکان والے۔(مشکوٰۃ ص۴۱۶)رسول اللہ ﷺ کا حضرت انسؓ سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طور پر تھا اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے، مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست یا ذہین طالب علم سے ناراضی کا اظہار اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔

حضرت انسؓ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایاکہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی۔ اس نے عرض کیا ،بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا ،کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے، پس ہم انہیں کنواریاں بنادیں گے۔ (مشکوٰۃ ص۴۱۶)

ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ نے جو بوڑھی تھیں، آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپﷺ نے مزاحاً فرمایا کہ بوڑھی عورت تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر انہیں بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئیں تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جاکر ان سے کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئاناہُنَّ اِنشاءً فَجَعَلنٰہُنّ اَبکاراً“ حضور ﷺکا مزاح اس واقعے میں بھی مبنی برحق تھا ، مگر آپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔

ایک انصاری صحابیہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ ﷺنے ان سے فرمایا، جاؤ جلدی سے اپنے خاوند کے پاس ان کی آنکھوں میں سفیدی ہے ،وہ ایک دم گھبراکرخاوند کے پاس پہنچیں تو خاوند نے پوچھا ،کیا بات ہے؟ اس طرح گھبراکر دوڑی کیوں چلی آئی ہو؟ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے نبی ﷺ نے خبر دی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے، اس نے کہا، ٹھیک ہے ،مگر سیاہی بھی تو ہے، تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا، وہ ہنس کر خوش ہوئی ، فخر محسوس کیا کہ اللہ کے رسول ﷺمجھ سے اس قدر بے تکلف ہوئے کہ میرے ساتھ مزاح فرمایا۔ (لطائف علمیہ ص۱۰) اس کے علاوہ بھی آپ ﷺ کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں جو مزاح کی سنتِ مستحبہ ہونے پر دلیل ہیں۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ مزاح ایک فطری جذبہ ہے ،انسان سے اس کا ظاہر ہونا عیب کی بات نہیں ،بلکہ اس کا صدور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے بھی ہوا ہے ،صحابۂ کرام ؓسے بھی اور اولیائے کرام سے بھی۔ غرض مزاح اور دل لگی ایک سنتِ مستحبہ ہے جو لوگ اسے اپنے وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔ البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ہمارا مزاح اور دل لگی کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا سبب نہ ہو۔

اس لیے کہ کسی مسلمان بھائی کی ایذارسانی، اسے کم تر سمجھنا، اس کا تمسخر اڑانا اس سے ایسا مذاق کرنا جو اسے ناگوار گزرے اور اس کے لیے ذہنی اذیت اور تکلیف کا باعث ہو ،یہ عمل ازروئے شریعت ممنوع اور ناجائز ہے۔ لہٰذا ایسے ہر اقدام سے گریز کرنا چاہیے، جو لوگوں کے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث ہو۔