• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک عزیز پچھلے 20 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں، سیاحت کے اس حد تک شوقین ہیں کہ ہم اکثر ان کو کہتے ہیں کہ سیاحت تو ان کے خون میں ہے۔ ان کے گھر کا بچہ بچہ فشنگ، ہائیکنگ، کیمپنگ اور کنٹری سائیڈ ٹرپس کا دیوانہ ہے۔ ایک ماہ قبل ان سے وڈیو چیٹ ہو رہی تھی تو انہوں نے مجھے اپنے 6 سالہ نواسے سے ملوایا جو ویک اینڈ ٹرپ پر جانے کیلئے تیاری کر رہا تھا۔ 

اس آدھی چھٹانک کی تیاریوں کا میں کیا بتائوں، جناب نے اپنے ساتھ کمپاس رکھی، پاکٹ فلیش لائٹ رکھی، اپنی الگ پانی کی بوتل اور ڈرائی فروٹس وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ باپ اور نانا کے پاس اسمارٹ فونز تو تھے مگر یہ بچہ اپنے پاس نقشہ رکھے ہوئے تھا۔ 

یہ سب تیاری اس چھ سال کے بچے کی تھی، اس کے علاوہ جو گھر والوں نے اہتمام کیا وہ الگ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بات شعور کی ہے، ہمارے ملک کے بچے کچھ کم ذہین نہیں ہیں، بہت ٹیلنٹڈ نسل ہے ہماری، کسی بھی لحاظ سے ہمارے بچے امریکی بچوں سے کم نہیں ہیں لیکن شاید شعور کی بات کریں تو ضرور فرق نظر آئے گا۔

یہ شعور کے ساتھ ساتھ Priorities کا بھی فرق ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر برسات کے موسم میں اگر ہم کوئی آئوٹ ڈور ایونٹ رکھیں تو موسم کی فور کاسٹ ضرور دیکھتے ہیں۔ شادی ہو یا کوئی تفریحی تقریب ہم ہر چیز کو باقاعدہ پلان کرتے ہیں۔ پھر ہم مری جاتے ہوئے کیسے بھول جاتے ہیں کہ موسم اور موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی پلان بنائیں۔ 

اس میں کچھ حد تک میڈیا کا رول بھی ہے، میں کئی سال سے رات 9 بجے کی خبروں میں دیکھ اور سن رہا ہوں کہ نیوز کاسٹرز کہتی ہیں کہ ملکہ کوہسار مری میں برف باری کا سلسلہ جاری ہے، لوگوں نے مری کی پہاڑیوں کا رخ کرلیا، لوگ مزے مزے کے پکوان اور پکوڑے کھا رہے ہیں، فیملیز برف کے گولے ایک دوسرے کو مار رہی ہیں، لوگ ٹریفک بلاک میں گاڑیوں سے اتر کر سیلفیاں بنا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس طرح کی رپورٹنگ سے عوام نے جوق در جوق مری کا رخ کیا۔ 

عام طور پر میڈیا معاشرے کی بھلائی کیلئے بہت مثبت کردار ادا کرتا ہے، کورونا کو ہی لے لیں، احتیاطی تدابیر کے حوالے سے میڈیا عوام کو گائیڈ کرتا رہا اور حکومت کی آگاہی مہم میں میڈیا نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح سیاحت کے فروغ اور سیف ٹورازم کیلئے بھی، میڈیا کا ایک بہت اہم کردار ہے جو وہ حکومت کے ساتھ مل کر ادا کر سکتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم سانحات سے سبق نہیں سیکھتے اور کوئی گائیڈلائنز یا مستقبل کیلئے کرائسز مینجمنٹ پلان تشکیل نہیں دیتے۔ لیکن مجھے اس مرتبہ اس بات کا اطمینان ہے کہ صوبائی حکومت نے بڑی ذمہ داری سے سیاحتی ریفارمز کا آغاز کیا ہے۔ 

قیمتی جانوں کا نقصان اور خاندانوں کا ہمیشہ کیلئے ادھورا رہ جانا ویسے تو ہم کبھی نہیں بھول سکیں گے مگر ایک بات کا اطمینان ہے کہ کم از کم اب ایک سسٹم تشکیل دیا جارہا ہےجس سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے گا۔ 

اس سے پہلے کہ ہم ان ریفارمز کا ذکر کریں میں ان رویوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کی وجہ سے تو میرا انسانیت سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔ اس دردناک سانحہ میں جان کی بازی ہارنے والوں کے قتل کا ذمہ ان ہوٹل مالکان پر بھی جاتا ہے جنہوں نے ہزاروں روپے میں ہیٹر، ٹائر چین اور کئی سو روپے میں انڈے یا چائے فراہم کی۔ 

یہ بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے ایکسیڈنٹ کے بعد اکثر بےحس اور حیوان صفت لوگ متاثرین کی گھڑیاں اور موبائل اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔ ان بے حس لوگوں نے سیاحوں کو مرنے سے پہلے خوب لوٹا، جس کے پاس پیسے تھے وہ تو لٹ گیا اور بچ بھی گیا، جس کے پاس پیسے نہیں تھے، وہ بے یار و مددگار اپنی گاڑی میں قید رہا۔ یہ کہاں کی انسانیت تھی؟ 

ایک ہوتی ہے مہنگائی مگر یہ تو سیدھا ڈاکہ معلوم ہوتا ہے کہ سردی میں موت سے خوفزدہ لوگوں کو آپ ریسکیو کرنے کی بجائے لوٹ رہے ہیں۔ ان لالچی لوگوں نے انتہا ہی کردی، یہ اگرمناسب داموں میں لوگوں کو اشیائے ضروریہ پہنچا دیتے، تو شاید اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا، چاہے یہ لوگ مفت امداد نہ کرتے، جو کہ ان کو کرنی چاہئے تھی۔ 

مجھے دلی سکون ملا ہے کہ پنجاب حکومت ان سب لٹیروں کے خلاف متحرک ہوئی ہے، کریک ڈائون کے دوران متعدد ہوٹلوں کو اوور چارجنگ کی وجہ سے سیل کیا گیا ہے۔ ابھی کل ہی 15 مزید ہوٹلوں کو سیل کیا گیا، یہ ہوٹل ابو ظہبی روڈ، گلڈنہ روڈ، اپر جھیکا گلی روڈ اور بینک روڈ پر واقع ہیں۔ حکومت نے سوشل میڈیا اور مری کنٹرول روم کی مدد سے ان شکایات پر ایکشن لیا ہے۔

اس کے علاوہ جن اقدامات کا ذکر کرنا انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ عثمان بزدار نے مری کو ضلع کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں پر ریسکیو عملے کو ٹریل بائیکس اور وائرلیس سیٹس دیے جائیں گے۔ 

مری میں ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بھی تعینات کئے جائیں گے۔ یہاں دو تھانے قائم کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ متاثرین کے ورثاکیلئے تقریباً پونے دو کروڑ روپے کی مالی امداد کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ 

پارکنگ پلازوں کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بھی بلا تفریق آپریشن کا آغاز کیا جارہا ہے۔ مری کیلئے رابطہ سڑکوں کی تعمیر کا بھی آغاز ہورہا ہے۔ ٹریفک مینجمنٹ پلان بھی تشکیل دیا جارہا ہے تاکہ گنجائش سے زیادہ لوگ ایک وقت میں مری میں داخل نہ ہوں۔ 

اس سب کے علاوہ عثمان بزدار کی جانب سے جنوبی پنجاب کے مری فورٹ منرو اور جنوب کے پہاڑی سلسلوں کو ٹورسٹ اٹریکشن بنانے کے حوالے سے اقدامات بھی پنجاب میں ٹورازم مینجمنٹ کی ایک کڑی ہے۔ 

اس طرح تفریح کے متلاشی لوگوں کیلئے صرف مری ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب بھی چھٹیاں گزارنے کیلئے بہترین آپشن ہوگا۔ اس سے مری میں بے تحاشا رش کے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔

تازہ ترین