سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق کی غیر جانبدارانہ انکوائری کروانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے، جبکہ توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تبدیلی کی متفرق درخواست بھی دائر کردی ہے۔
دونوں درخواستوں پر سماعت کل مرکزی کیس کے ساتھ ہو گی، عدالت نے کل فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔
سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے سینئر وکیل عبدالطیف آفریدی اور بیرسٹر سرور ایم شاہ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو متفرق درخواستیں جمع کروائی ہیں۔
توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے سے پہلے بیان حلفی کی غیر جانبدارانہ انکوائری کروانے کی متفرق درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیان حلفی سے متعلق کسی کو بتائے بغیر 10 نومبر 2021 کو سربمہر کیا اور انگلینڈ میں نواسے کےحوالے کیا، 30 اکتوبر 2021 کو امریکا میں سمپوزیم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی جس کا موضوع پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا۔ 6 نومبر کو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی تو امریکا سے پاکستان کی ڈائریکٹ فلائٹ نہ مل سکی اس لیے برطانیہ کی ٹرانزٹ فلائٹ کے ذریعے واپس آیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ بھائی کی وفات سے قبل بھی چار ماہ کے دوران خاندان میں چار قریبی رشتہ داروں کی اموات ہوئیں اور اس وجہ سے افسردہ تھا۔ خاندان کے قریبی افراد کی موت کے بعد اپنے علم میں موجود واقعہ جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا۔ یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتائی کیونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس وقت خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے۔
علاوہ ازیں یہ واقعہ پاکستان کی حدود سے باہر پیش آیا اور اس واقعہ کے ایک ماہ بعد عہدے سے بھی ریٹائر ہو گیا۔
بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو خود سنا۔ رانا شمیم کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ حقائق زندگی بھر بیان نہ کرنے کا ارادہ تھا مگر مرحومہ اہلیہ سے کیا گیا وعدہ اور فیملی ممبرز کی اموات کے بعد حالات کے باعث حقائق کو بیان حلفی کی شکل میں ریکارڈ کیا۔ بیان حلفی کی تشہیر کا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے اسے خفیہ رکھا اور پاکستان سے باہر ریکارڈ کروایا۔
رانا شمیم نے کہا کہ یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق کی انکوائری کے ذریعے تصدیق کی جائے۔ انصاف کے حصول کے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس کا جوابی حلف نامہ بھی انکوائری کے سامنے پیش کیا جائے اور جرح کا موقع دیا جائے۔ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق غلط ثابت ہونے تک یہ کریمنل توہین کا کیس نہیں بنتا۔ اگر بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق درست ثابت ہو جائیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا جو کہ منصفانہ انکوائری سے ہی ممکن ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ اس عدالت کے ججز کا احترام ہے جو آزاد ہیں اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کے بجائے حقائق جاننے کے لیے انکوائری شروع کی جائے۔
توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کی دوسری متفرق درخواست میں پراسیکیوٹر کی تبدیلی کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس کے توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا ہے جن کا پہلے دن سے درخواست گزار کے خلاف جارحانہ رویہ ہے اور وہ غیر متعصب نہیں۔ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں جو تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے۔ اٹارنی جنرل سزا دلوا کر پی ٹی آئی حکومت کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں پراسیکیوٹر کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ اٹارنی جنرل کی جگہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد پراسیکیوٹر کے لیے بہترانتخاب ہو سکتے ہیں جو اسلام آباد کے چیف لا افسر بھی ہیں۔