پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اسٹاف کی سطح پر 5 ارب 30 کروڑ ڈالر کا معاہدہ طے پاگیا ہے جس ممکنہ طور پر حتمی منظوری کیلئے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ بورڈ کے سامنے پیش کئے جانے سے قبل پاکستان کو بیشتر پیشگی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان پیشگی اقدامات کا مقصد حکومت پروگرام کی مدت کے دوران حکومت کی جانب سے ضروری اصلاحات کی کارکردگی کا امتحان لینا ہے۔ قبل اس کے کہ میں ان پیشگی اقدامات پر روشنی ڈالوں، کچھ الفاظ آئی ایم ایف کے قرض میں اضافے کے بارے میں کہوں گا جو کہ 5 ارب 30 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 6 ارب0 6 کروڑ ڈالر یا 7 ارب0 2 کروڑ امریکی ڈالر ہوسکتا ہے۔ اسٹاف کی سطح پر معاہدے پر دستخط کے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے لی جانے والی نئی رقم ملکی قرضوں میں اضافہ نہیں کرے گی اور اس رقم کو آئی ایم ایف کے بقیہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ قرض کی رقم میں اضافہ کئی وجوہات کی بنا پر سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اس سے وزارت خزانہ کا وقار مجروح ہوگا کیوں کہ اس سے انہیں اپنے کئے ہوئے دعوے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ تیسرا یہ کہ موجودہ حکومت شوکت ترین کے گزشتہ دور حکومت میں کی گئی غلطی دہرائے گی۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے بھاری قرض حاصل کیا تھا اور بالآخر اسے دوبارہ سے آئی ایم ایف کے پاس ایک نئے پروگرام کیلئے جانا پڑا۔ میری رائے یہ ہے کہ ہمیں قرض کی رقم کو بڑھانے پر غور نہیں کرنا چاہئے اور یہی بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف قرض کی رقم میں اضافے سے قبل پاکستان کی قرض حاصل کرنے کی استطاعت کی تشخیص کرے گا۔ آئی ایم ایف کے اسٹاف نے گزشتہ دور حکومت میں شوکت ترین کی سربراہی میں قرض کی رقم میں اضافے کی درخواست پر پاکستان کی جانب سے قرض کی واپسی کی استطاعت پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بعد ازاں پاکستان قرض ادائیگی کی استطاعت میں اضافہ نہ کرسکا اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا اور پاکستان سابقہ قرض کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے نئی امداد حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان حکام کو اسٹاف کی سطح پر طے پانے والے معاہدے کو بورڈ کے سامنے پیش کرنے سے قبل پانچ پیشگی اقدامات پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی۔ یہ اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔ 1) مالی پیکیج، (2 بجلی کے نرخوں میں اضافہ، (3ٹیکس اصلاحات کی جانب پیش قدمی، (4 مرکزی بینک کی بہتری کیلئے اقدامات اور (5 مشترکہ مفاداتی کونسل کی جانب سے مالی اصلاحات کے پیکیج میں اصلاحات جس میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے اضافی رقم کی پیداوار شامل ہے۔ ان پانچوں پیشگی اقدامات کا مطالبہ گزشتہ پروگرام کے تجربے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں تین معاملات میں آئی ایم ایف کو ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا تھا جن میں ٹیکس محصولات میں اضافے میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا، بجلی کی مد میں ہونے والا ضیاع اور طرز حکمرانی کے مسائل شامل تھے جس میں خاص طور پر ٹیکس اور بجلی کے شعبے شامل ہیں۔ مالی انضباط نے پاکستان کی معیشت کے کلاں کے استحکام کی جڑوں کو شدید ضرر پہنچایا ہے۔ ایک طرف تو وافر مقدار میں موجود وسائل کو بروئے کار لانے میں ناکامی اور دوسری طرف بے جا خرچوں نے پاکستان کے مالی خسارے میں بھرپور اضافہ کیا۔ اسی لئے آئی ایم ایف کا کوئی بھی پروگرام ذرائع کو بروئے کار لانے اور حکومتی خرچوں میں توازن سے مشروط ہے۔ پیشگی اقدام میں مالی پیکیج کے تحت پاکستان کو جی ڈی پی میں1.5 فیصد اضافہ کرنا ہوگا، جس میں ٹیکس محصولات کا حصہ 0.8 فیصد جبکہ اخراجات میں کمی کا حصہ 0.7 فیصد تک ہو گا۔ اس کا مقصد جی ڈی پی میں مالی خسارے کو گزشتہ سال میں 7.5 فیصد سے کم کر کے رواں سال6 فیصد تک کرنا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں پہلے سے ہی ٹیکس کی جانب اضافی اقدامات کئے ہیں تاکہ ٹیکس محصولات میں اضافہ ممکن ہوسکے۔ جیسا کہ ان اقدامات میں سی این جی میں جی ایس ٹی کی شرح کو 6 فیصد تک بڑھانا شامل ہے۔ مزید براں حکومت پہلے سے ہی بجلی ٹیرف میں اضافہ کرچکی ہے جو کہ ٹیکس محصولات میں اضافے کا سبب بنے گا۔ دوسری طرف اخراجات کی مد میں بھی حکومت نے بیشتر اقدامات کئے ہیں جن میں بجلی کے شعبے میں سبسڈی اور موجودہ اخراجات میں کمی شامل ہے۔ اس طرح حکومت پہلا پیشگی اقدام پورا کرچکی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ دوسرا پیشگی اقدام ہے، حکومت نے صنعتی، کمرشل اور زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کر دیا ہے جو کہ یکم اگست سے قابل عمل ہے۔ یہ ملکی تاریخ میں بجلی ٹیرف میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اس اقدام سے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں کو 170 ارب روپے حاصل ہوں گے اس سے ممکنہ طور پر ٹیرف پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی واقع ہو گی۔ اسی طرح دوسرا اہم اقدام بھی حکومت نے نافذ کردیا ہے۔ ٹیکس اصلاحات کی جانب پیش قدمی حکومت کا تیسرا پیشگی اقدام ہوگا، ابھی تک یہ واضح نہیں ہو چکا ہے کہ کیا اس پر عملدرآمد ہوا ہے یا نہیں۔ اس وقت حکومت بھی صرف پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں اور گزشتہ ٹیکس نظام پر انحصار کررہی ہے۔ ابھی تک ٹیکس محصولات کو مزید وسعت دینے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا گیا اور کسی بھی نئے شعبے کو پوری طرح ٹیکس کا نفاذ نہیں کیا گیا۔ اندرون ملک موجود وسائل کو بروئے کار لانا 1988ء سے ہی سنگین مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک بد بختی ہے کہ آئی ایم ایف گزشتہ 25 برس کے دوران پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ اسی وجہ سے بعد میں آنے والی حکومتوں نے اسٹیٹس کو کو برقرار رکھا۔ کیا آئی ایم ایف میں کوئی احتساب کا عمل موجود ہے؟ یقیناً نہیں ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے پیش قدمی چوتھا پیشگی اقدام ہے۔ بینک دولت پاکستان کو دو اہم اقدامات کرنے ہیں جس میں لچکدار شرح مبادلہ کی پالیسی اور شرح کٹوتی میں اضافہ کر کے سخت مانیٹری پالیسی شامل ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بیرون ملک زرمبادلہ کی مارکیٹ سے دستبردار ہوکر پہلے سے ہی ایک اہم اقدام پورا کر چکی ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی شرح مبادلہ میں کمی واقع ہوئی اور یکم جون کو ڈالر 98.5 روپے سے بڑھ کر16 اگست کو 102.9 روپے کا ہو گیا یعنی شرح مبادلہ میں پاکستان کو فی ڈالر پر4.4 روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح آئندہ مانیٹری پالیسی میں شرح کٹوتی میں 100 سے لیکر 150 بی پی ایس کا اضافہ ہوگا۔ پس چوتھا پیشگی اقدام بھی رواں ماہ کے آخر میں مکمل ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ آخری اقدام مشترکہ مفاداتی کونسل کی جانب سے حکومت کے کئے گئے وعدوں کی منظوری ہے جن میں مالی اصلاحات بھی شامل ہے۔ یہ اقدام آئی ایم ایف کی کامیابی کیلئے انتہائی اہم ہے۔ آئی ایم ایف کے نقطہ نظر سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے پاکستان میں مالیاتی پالیسی کے نفاذ کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ اگر اس سے ٹھیک طور پر نہیں نمٹا گیا تو یہ ایوارڈ پاکستان میں معیشت کے کلاں کے استحکام کو مزید بگاڑ دے گا جس کی وجہ سے اخراجات میں کمی اور ٹیکس وصولی پر سمجھوتہ کیا جاسکے گا۔ اس مسئلے کو مشترکہ مفاداتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں زیر بحث لایا گیا تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کہا گیا کہ صوبے فاضل آمدنی پیدا کریں گے۔ صوبائی حکومتوں کے حوالے سے اس تناظر میں صوبے ہمیشہ سے ہی زائد آمدنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر صوبائی حکومتیں ایسا کرنے میں ناکام ہوتی ہیں تو یہ ان کا قصور نہیں ہوگا کیوں کہ وفاقی حکومت نے انہیں کبھی بھی درکارذرائع فراہم نہیں کئے ہیں۔ حتمی طور پر حکومت کی جانب سے زیادہ تر پیشگی اقدامات کرلئے گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف اس معاہدے کو بورڈ کے سامنے پیش کرے گا اور یقینی طور پر بورڈ اس پروگرام کو ستمبر کے آخر میں منظور کرلے گا۔ اس انتہائی تاریخی موڑ پر عالمی رہنما پاکستان میں معاشی عدم استحکام پیدا نہیں کرنا چاہتے۔