• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد فاروق دانش 

رب ِکائنات نے زمین وآسمان کو عدم سے وجود بخشا ، دُنیا کی تمام مخلوقات کو محض "کُن "کہہ کر تخلیق کیا۔ پھر اُن میں مختلف درجات رکھے ۔ تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ انسانوں میں سب سے ارفع درجہ انبیائے کرام علیہم السلام کو عطا فرمایا، ان میں سب سے عالی مقام ومرتبہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہے۔ تمام انبیائےکرام ؑکے بعد اگر کسی جماعت کا درجہ ہے تو وہ اصحاب پیغمبرﷺ کا ہے ۔ تمام اصحاب ِپیغمبر ﷺ میں اگر کسی صحابی کا درجہ ہے تو وہ خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ہے۔ تمام اصحاب میں خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت بغیر کسی حجت کے سب کے لیے قابل قبول ہے۔

قرآن مجید کی مذکورہ آیت آپؓ کی فضیلت پر ایک ایسی دلیل ہے کہ اس پر آج تک کسی مفسر ، کسی محدث اور کسی مجتہد کا اختلاف نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی دورآراء ہیں:’’اگر تم محبوبﷺ کی مدد نہ کرو تو بےشک ،اللہ نے ان کی مدد فرمائی ، جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا ،صرف دو جان سے ، جب وہ دونوں غار میں تھے ،جب اپنے رفیق سے فرماتے تھے ،غم نہ کھا !بے شک ،اللہ ہمارے ساتھ ہے ،تو اللہ نے اُن پر اپنا سکینہ اتارا اور اُن فوجوں سے ان کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کی بات نیچے کرڈالی ،اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔(سورۂ توبہ 40)یہ آیت غارِ ثورکے واقعے کی طرف اشارہ دے رہی ہےاور اس میںثانی اثنین کے الفاظ مذکور ہوئے جو دو میں دوسرا یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف واضح اشارہ کر رہے ہیں۔

آپ ؓکا نام عبداللہ، کنیت ابوبکر اور لقب عتیق وصدیق ہیں، والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ ، والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت امّ الخیر تھی۔ آپ قریش کی ایک شاخ تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت عام فیل کے ڈھائی بر س بعد ہوئی، یعنی سن ہجری کے آغاز سے پچاس برس چھےمہینے قبل۔ آپ آں حضرت ﷺ سے کم وبیش تین برس چھوٹے تھے۔

زمانۂ جاہلیت میں آپ راست گوئی، امانت ودیانت میں مشہور تھے۔اہل مکّہ آپ کو علم، تجربےاور حسن خلق کے باعث معزز ومحترم خیال کرتے تھے ۔ آپ کی فطرت شروع سے ہی سلیم تھی، چناں چہ آپ کو اسلام سے پہلے بھی بت پرستی سے نفرت تھی۔ شراب نوشی کو بُرا جانتے تھے۔ علامہ جلال الدین سیوطی ؓ نے تاریخ الخلفاء میں ابونعیم کے حوالے سے حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کیا ہے :حضرت ابوبکرؓنے عہد جاہلیت میں بھی شراب اپنے اوپر حرام کر رکھی تھی۔

اللہ کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا :میں نے جس کسی کے سامنے اسلام پیش کیا ، اس نے تھوڑی بہت جھجک ضرور محسوس کی، لیکن جب ابوبکر ؓ کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بےجھجک اسلام قبول کر لیا۔

ایک بارحضور اکرمﷺ نے فرمایا:ہر ایک کے احسان کا بدلہ میں نے چکا دیا، سوائے ابوبکر ؓ کے احسان کے، ان کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی انہیں عطا فرمائے گا۔

تاجدارِ رسالت ﷺ غارِ ثور میں اس لیے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کیے جانےکا اندیشہ تھا ،لہٰذا اگر رسولِ انور ﷺ کو ابو بکر صدیق ؓکے سچے ، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ ﷺ کسی طور بھی انہیں اپنی ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیوںکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا ،وہ آپؓ سے بھی ہو سکتا تھا ۔

غار ثور میں حضور اکرم ﷺ نے آپ ؓکو مطمئن کرتے ہوئےفرمایا :اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ یعنی میرے ساتھ ہے اور تمہارے ساتھ بھی ۔ جس کے ساتھ رب ہو ،وہ کبھی گم راہ نہیں ہو سکتا ۔ اللہ عزّ وَجَلّ ہمیشہ ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ رہا جس طرح حضورﷺ کے ساتھ ۔سکون کا نزول صدیق اکبر ؓ پر ہوا ، اس لیے کہ اس وقت بے چینی ان کو تھی ۔ حضور اکرم ﷺ کا قلبِ مبارک تو پہلے ہی چین میں تھا ۔ آپ ؓ کا خیال تھا کہ کافر غار کے منہ پر آگئے ہیں اور مبادا نبی پاک ﷺ کو کہیں گزند نہ پہنچا دیں۔ آپؓ کواس وقت اپنا کوئی غم نہ تھا ۔آپ ؓ، حضور ﷺ پر فدا ہو چکے تھے ،اکیلے غار میں اندھیرے میں داخل نہ ہوتے، سانپ سے نہ کٹواتے ۔آپؓ کا یہ غم بھی عبادت تھا اور نبی پاک ﷺ کا تسکین دینا بھی عبادت۔ چناںچہ رب تعالیٰ نے ان دونوں ہستیوں کواپنی قدرت کاملہ سے مکڑی کے جالے اور کبوتری کے انڈوں کے ذریعے بچایا ۔

ہجرت اللہ تعالیٰ کی رضاسے تھی ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام ؓ کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓکے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم ﷺ سے زیادہ قریب بھی تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت صحبت میں رہنے کا شرف اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عظیم مرتبے اور فضیلت پر دلالت کرتی ہے ۔ دیگر صحابۂ کرام ؓحالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے ،جب کہ آ پ ؓنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالتﷺ کا قرب نہ چھوڑا، بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولِ اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر خدمت میں مصروف رہے ۔

آپ ؓچار پشت کے صحابی ہیں ۔ والدین بھی ، خود بھی ، ساری اولاد بھی، اولاد کی اولاد بھی صحابی۔ جیسے یوسف علیہ السلام چار پشت کے نبی ۔یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد خلافت صدیق اکبرؓ کے لیے ہے۔ رب ذوالجلال انہیں دوسرا بنا چکا ۔ وہ تو قبر میں بھی دوسرے ہیں ،حشر میں بھی دوسرے ہوں گے ،یارِ غار ہیں ۔ لفظ یارِ غار اس آیت سے حاصل ہوا ۔ آج بھی دلی دوست اور باوفا یار کو یارِ غار کہا جاتا ہے ۔ ابوبکر صدیق ؓ کی صحابیت قطعی ایمانِ قرآنی ہے ، لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔مزید یہ کہ آپ ؓ کا درجہ حضوراکرم ﷺ کے بعد ہے کہ انہیں رب کائنات نے آپﷺ کا ثانی فرمایا ۔ آپ ﷺ نے انہیں اپنے مصلّے پر امام بنایا ۔

حضرت انس ؓ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا، جب کہ میں (آپ کے ساتھ) غار میں تھا، اگر اِن ( تلاش کرنے والے کفار) میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے دیکھے تو یقیناً ہمیں دیکھ لے گا تو حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکرؓ ! اُن دو (افراد) کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے ،جن کے ساتھ تیسرا خود اﷲ رب العز ت ہو۔‘‘

جس طرح حضرت ابوبکرؓ کو ثانی فی الغار کی خصوصیت حاصل ہوئی،اسی طرح آپ کو ثانویت کی خصوصیت قدرت کاملہ کی طرف سے بہت سے دیگر مقامات میں بھی حاصل ہوئی، مثلاً: ثانی فی الاسلام:۔ قبول ِاسلام میں موصوف حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کے بعد دوسرے شخص ہیں۔ ثانی فی الہجرۃ:۔ نبی کریم ﷺکی معیت میں ہجرت کرنے میں آپ دوسرے درجے میں ہیں۔ ثانی فی عریش بدر:۔ مقام بدر میں نبی کریمﷺ کے لیے تیار کیے جانے والے عریش (چھاتے)میں بیٹھنے والے دوسرے شخص ہیں۔ ثانی فی الامامۃ بالصلوٰۃ:۔ نبی اقدسﷺ کے فرمان کے مطابق آپؓ،نبی کریمﷺ کی موجودگی میں نماز کی امامت کرنے والے ہیں۔ ثانی فی قرب مقبرۃ النبی ﷺ:۔ آپﷺ کے روضۂ اطہر سے متصل مدفون ہونے میں دوسرا درجہ ہے۔ ثانی فی دخول الجنۃ:۔ نبی کریم ﷺ کی بشارت کے مطابق جنت میں داخل ہونے والے آپ دوسرے شخص ہوں گے۔

حضرت عائشہؓ سے ترمذی شریف میں مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: جس قوم وجماعت میں ابوبکر ؓ موجود ہوں، اس کے لیے موزوں نہیں ہے کہ اس کی امامت ابوبکر ؓکے علاوہ کوئی اور کرے۔ "(جامع ترمذی) ایک او رجگہ ابن عمر ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےحضرت ابوبکر صدیقؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: تم میرے یارِغار ( یعنی غار کے ساتھی اور رفیق ہو ) اورحوضِ کوثر پر میرے مصاحب ہوگے۔( ترمذی)

حضرت ابوبکر صدیق ؓ ،نبی اکرم کے پہلو میں ہونے کی وجہ سے قیامت تک شرف رفاقت سے مشرف ہیں ۔جب حضور پاکﷺ اس دنیاسے پردہ فرماگئے تو تمام اصحاب پیغمبرکے اجماع کے ساتھ خلیفۃ الرسول مقرر ہوئے، آپ خلافت کے منصب پر دو سال اور تین ماہ تک فائز رہے، اس دوران آپ نے اتحاد امت کے لیے کام کیا، منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کا فریضہ انجام دیا۔ مرتدین سے مقابلے اور جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا، اسلامی افواج اور لشکروں کو عراق، شام، فلسطین اور دمشق بھیجا ۔آپ نے 75 ہزار آٹھ سو مربع میل تک اسلام کا جھنڈا لہرا کر اسلامی سلطنت کو وسعت دی۔ 

آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اٹھنے والے ہر چھوٹے، بڑے فتنے کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور انہیں راہِ راست پر لائے۔ آپ کی شان و مرتبے پر تمام امت مسلمہ متفق ہے۔ آپ ؓ کی شان میں قرآن مجید کی کئی آیات نازل ہوئیں، حضور اکرم ﷺ کی بہت سی احادیث مبارکہ آپ کی شان میں ہیں ۔ تمام علما ، مشائخ، اولیا، نے آپ کی شان میں تعریفی کلمات کہنا اپنے لیے باعث برکت وفخر سمجھا۔ اپنے تو اپنے ، غیروں نے بھی آپ کے مقام و مرتبے کا اعتراف کیا، تاریخ کے اوراق میں آپ کا نام سنہری حروف میں جلی طور پر لکھا ہوا ہے۔