ہر مذہب، فرقے اور قومیت کے اہل بست وکشاد اپنی مخصوص افادیت کے تحت نظام تعلیم تشکیل دیتے ہیں اور تعلیم میں بین السطور پروپیگنڈہ اپنے اپنے مفادات کے مطابق کرتے ہیں، عوام الناس نہیں بلکہ استحصال کرنے والے طبقات اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اقتصادی بے انصافی روز بروز بڑھتی جارہی ہے دوسری طرف سرمایہ دارانہ مقابلے اور پروپیگنڈہ سے سماجی کشمکش اور تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندسی تقسیم (ڈیجیٹل) نے انسان کو اپنے حالات اور انسانی قدروں سے مزید بیگانہ کردیا ہے۔ جنسی ہیجان خیزی جو ٹیلیویژن کے ذریعے گھروں میں داخل ہوگئی ہے اس سے بالغ زندگی کی خوشی ناممکن ہوتی جارہی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ریاست کی سب طاقتیں اور عالمی طاقتیں نوجوانوں میں پروپیگنڈہ لایعنی فلموں، بے ہنگم موسیقی، فاسٹ فوڈغرض کہ نصاب کے ذریعے دیوانگی، حماقت، انسانی قتل کیلئے مستعدی، ذوق و ذائقہ کی تبدیلی و تنزلی، اقتصادی بے انصافی اور سنگدلی پیدا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اشرافیہ نے ایک طرف عام لوگوں سے اپنے آپ کو برتر سمجھا، بلکہ پروپیگنڈہ کے ذریعے ذہنوں میں سرایت کیا گیا کہ برتری موروثی ہوتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے ذہانت کو دکھاوے کی نیکی پر قربان کرنے کا درس دیکر طالب علموں کو بدھو بنایا جاتا ہے، جہاں سوچنے پر پہرے ہوں، سچ لکھنے پرقدغن ہو، طبقاتی جدوجہد کے بجائے انارکی شدت اختیار کرلے کون کس کو قتل کررہا ہے کوئی علم نہیں، ایسے میں دنیا کیا خوش اور خوشحال رہ سکتی ہے؟ کیا اس ماحول میں کسی بے راہ رو شخص کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ جہاں عالمی اور مقامی طاقتیں ظلم اور استحصال کی تمام حدیں عبور کرچکی ہوں۔ دنیا میں اس قدر ناقابل برداشت حد تک نفرت اور کشیدگی ہو اس پر تنگ دستیوں، ناانصافیوں، دکھوں اور بیماریوں کی یلغار ہو، کیا ایسے ماحول میں انسان کی زندگی متوازن قوت فیصلہ برقرار رہ سکتی ہے؟ اس پرآشوب عہد تشویش میں بہت سے بہترین انسان بھی مایوس ہوگئے ہیں حالانکہ انسانی نسل کی مسرت کے اسباب موجود ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانیت ان کے استعمال کو پسند کرے اور ان اسباب کی منصفانہ تقسیم کرے۔ دنیا میں امن اور خوشی حاصل کرنے کیلئے کئی نظریوں نے جنم لیا۔ لیکن چند طبقات کی بالادستی نے مذکورہ دونوں آرزوؤں کے حصول کو ناممکن بنا دیا ہے۔ تاہم یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ خیال، عمل اور عمل درآمد کی کئی جہتیں ہیں اس لئے اختلافی نظریوں کا ملغوبہ بنا کر سب کی پسند کا ایک نظریہ پیش نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دنیا کی غریب اکثریت میں ایک بہتر دنیا بنانے کا خیال موجود ہے۔ اس خیال کو بھی مباحثے اور بے کار بحثوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ جدید دنیا میں جمہوریت کی لعنت میں معنی عمل میں اس کے برعکس ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عصری سیاست میں جمہوریت کے نام پر جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس نے استحصال کی نئی شکلیں پیداکردی ہیں جس سے فکری مغالطوں کو فروغ ملا ہے۔ مثلاً جمہوریت کی تعریف لعنت میں کچھ یوں ہے۔ ”جمہوری معاشرے میں عوام کے پاس تمام وہ ذرائع ہوتے ہیں، جس سے وہ اپنے روزمرہ کے امور میں بامعنی شرکت کرتا ہے اور اطلاعات کے تمام ذرائع آزاد ہوتے ہیں اور ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس میں سیاست کے معنی انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔“ جبکہ عمل میں پروپیگنڈہ کے ذریعے ریاست اور حکومت کو یکساں تصور کرکے حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو ملکی سلامتی داؤ پر لگانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ریاست کے بالادست طبقے ووٹ دینے والوں کے مفاد کے منافی کرتے ہیں۔ یوں عالمی اور مقامی بالادست طبقوں نے تماشائی جمہوریت کو متعارف کرا کے سرمایہ دارانہ استحصال کو دوام بخشا ہے۔ اس سارے کھیل میں نصاب تعلیم اور میڈیا استحصالی طبقات کا نگہبان ہے۔ یہ سوال ابہام کا شکار بنا دیا جاتا ہے کہ کس قسم کی جمہوریت یا کس قسم کے جمہوری معاشرے میں عوام زندگی بسر کرنا چاہتی ہے۔ یہ تضاد بھی بالکل عیاں ہے کہ ووٹ دینے والا کیا سوچ کر ووٹ ڈالتا ہے اور ووٹ لینے والے کے عزائم کیا ہوتے ہیں؟ یوں جمہوریت کے آئینی پردے میں سرمایہ دارانہ نظام کے تمام جرائم فروغ پاتے ہیں۔
عصو حاضر کی رائج جمہوریت میں کسی قسم کی رائے عامہ نہیں بن پاتی اور نہ ہی عوام کو ریاستی امور میں شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری بڑی عالمی جنگ میں کس طرح تمام نام نہاد جمہوریت پسند امریکہ نے ان جنگوں کو فنانس کیا اور سپر پاور بنا۔ اس راز کو افشا کرنے میں دنیا بھر کے دانشور پروپیگنڈے کا شکار رہے۔ حالانکہ دونوں عالمی جنگوں میں حریفوں کو امریکہ نے ہر قسم کے اسلحہ کی فروخت جاری رکھی اور بظاہر وہ امن کا خواہاں بھی رہا۔ پروپیگنڈے کی اپنی تاریخ کی چند ایک مثالیں یہ واضح کرتی ہیں کہ کس طرح پروپیگنڈے کے ذریعے ”جو نہیں ہے وہ دکھایا جاتا ہے“ اس کو سمجھنے کیلئے ایک ہی مثال کافی ہے۔
امریکہ کے صدارتی امیدوار وڈ رو ولسن 1916ء میں ”جنگ کے بغیر فتح مندی“ کے نعرے سے انتخابات میں فتح مند ہوئے۔ پہلی عالمی جنگ میں امریکی عوام انتہائی امن پسندانہ رویے کے حامی تھے۔ وہ پہلی عالمی جنگ میں کسی طور حصہ لینے کیلئے تیار نہ تھے۔ اس کے برعکس در پردہ سابق امریکی صدر ولسن اور اس کی انتظامیہ نے یورپ سے جنگ میں حصہ لینے کا وعدہ کررکھا تھا۔ چنانچہ امریکی انتظامیہ نے پروپیگنڈہ کمیشن قائم کیا۔ ایک فرضی امریکی بحری جہاز جس کے بارے میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ اسے ہٹلر کی افواج نے تباہ کردیا ہے جس میں 12سو سویلین امریکی سوار تھے۔ جن کو سمندر برد کردیا گیا۔ اس پر خبریں اور تبصرے شائع ہوئے۔ ریڈیو پر جرمنی کے خلاف اشتعال پھیلایا گیا حالانکہ امریکہ نے فرضی جہاز کی فلمبندی کرکے امریکی عوام ورغلایا گیا چنانچہ وہ عوام جو کسی صورت جنگ میں ملوث ہونے کے خلاف تھے وہ جرمنی کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے دنیا کو نازی جارحیت سے بچانے کے نعرے بلند کرنے لگے۔ امریکی عوام جو کچھ عرصہ پہلے تک امن پسند تھی وہ وار ہسٹریا میں مبتلا ہوگئی۔ 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد مذکورہ کمیشن نے ریڈ آرمی کا خوف امریکی عوام کے ذہنوں میں ڈال کو سوشلزم کے خلاف ان کے ذہنوں کو ابہام کا شکار بنا کر قابو کرلیا۔ دنیا بھر کے سرمایہ داروں صنعتی و کاروباری حلقوں نے اس پروپیگنڈہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ امریکی سرکاری دانشوروں نے جس وار ہسٹریا میں جان ڈالی اس کا سرغنہ جان ڈیوی تھا جس کا اپنا ایک حلقہ تھا اس نے امریکہ میں ہر قسم کے شہری اور محنت کشوں کی تنظیموں کو تباہ کردیا۔ پریس اور سیاسی سوچوں کی آزادی پر قدغن لگا دی گئی۔جنگ سے سہمی ہوئی عوام کو خوف میں مبتلا کرکے مزاجیت کی طرف موڑ دیا۔ امریکی انتظامیہ کے پروپیگنڈے میں امریکی لبرل جمہوریت پسند بھی شامل ہوگئے ان حلقوں کا ایک اور سرغنہ ”لپ مین“ اکثر یہ دلیل دیتا تھا۔ ”جمہوریت ایک انقلابی فن ہے۔ جس میں ”تیار شدہ رائے عامہ“ کو عوام پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ تیار شدہ رائے خاص پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح سرایت کی جاتی ہے کہ ان کو علم تک نہیں ہوتا کہ انہیں کس مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔“ یعنی کون کس کو قتل کررہا ہے اور کیوں؟ جمہوریت کے پردے میں اقلیتی ملٹی نیشنلز کاروباری حلقوں کی مدد سے ان دیکھی حکمرانی کرتی ہے۔ ”لپ مین“ اس تناظر میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عوام کو بھٹکا ہوا ریوڑ کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ اگر یہ ریوڑ اکٹھا ہوجائے تو اس کی دھاڑ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔“ میکاولی اپنی مشہور کتاب پرنس میں ایک جگہ لکھتا ہے۔ ”حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر مارپیٹ نہ کریں جیل میں نہ ڈالیں بلکہ خوف میں ڈالیں تاکہ لوگ سڑکوں پر نہ آسکیں۔“ یہ تو سب ہی کو علم ہے امریکی سامراج خوف کی بنیاد پر حکومت اور مارکیٹنگ کرتی ہے اور جمہوریت کے معنی انتخابات قرار پاتے ہیں جو بنی نوع انسان کو مسرتوں سے آشنا نہیں ہونے دیتے۔ مذکورہ معروضات تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی نسل کیلئے مسرت کے اسباب موجود ہیں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ جس سے مسرتوں کے اسباب کی منصفانہ تقسیم کی تحریکیں ماند پڑ گئی ہیں اس پروپیگنڈہ کو سمجھنا اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کو شعوری طور پر آگے بڑھانے ہی میں بنی نوع انسان کی خوشحالی مضمر ہے۔