• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجداری قوانین، 100 ترامیم، منشیات اور ریلوے مقدمات میں سزائے موت ختم، تفتیش 45 دن میں، غیرقانونی پولیس حراست پر 7 سال قید



لاہور(نمائندہ جنگ)وفاقی حکومت نے کریمنل لاءریفارمز2021ءکے تحت ضابطہ فوجداری ‘ضابطہ تعزیرات پاکستان اور قانون شہادت کی دفعات میں100سے زائد نمایاں تبدیلیاں تجویز کردیں‘ ریلوے ایکٹ اور منشیات کے مقدمات میں سزائے موت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘پولیس کے سامنے دفعہ 161 ض۔ف کا بیان آڈیو /وڈیو ذرائع سے ریکارڈ کیا جا سکے گا‘ تفتیش 45روزکے اندر مکمل کی جائے گی‘.

غیر قانونی پولیس حراست پر 7 سال قید کی سزاہوگی ‘قانون شہادت میں شہادت ریکارڈ کروانے کیلئے جدید الیکٹرانک ذرائع استعمال کرنے کی تجویز ہے، عدالت میں آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ،ای میل، فیکس، ٹیکسٹ پیغام بطور ثبوت تسلیم کئے جاسکیں گے.

آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کرنے والےکو بطور گواہ عدالت میں طلبی البتہ لازم نہیں ہوگی لیکن عدالت اطمینان کیلئے اسےطلب بھی کرسکتی ہے‘ درخواست ضمانت، بریت یا اخراج کو زیر التوا نہیں رکھا جاسکے گا‘ عدالت تین دن سے زیادہ کیلئے کیس کو ملتوی نہیں کرے گی جب تک کہ کوئی غیر معمولی وجوہات نہ ہوں لیکن عدالت کو وجہ تحریر کرنا ہوگی‘غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر سیشن کورٹ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکے گی‘خواتین کی جاسوسی‘ہراساں کرنا ، کوئلے پر چلنا اور کسی کو پانی میں پھینکنا بھی جرم ہوگا‘جج صاحبان متعلقہ ہائی کورٹ کو ماہانہ رپورٹ بھجوانے کے پابندہوں گے ۔

ضابطہ تعزیرات پاکستان میں شامل نئی دفعہ کے تحت منشیات پر سزائے موت کے بجائے عمر بھر جیل میں رکھنے، جھوٹے مقدمہ پر 10 لاکھ ہرجانہ،بیوی پر تشدد کی سزا 3 سال قید ہو گی‘ضابطہ فوجداری میں 87 تبدیلیاں کرنیکی تجاویز مرتب کی گئی ہیں ، 36 نئی دفعات متعارف ،47 دفعات میں ترامیم، اور 4 دفعات حذف کر دی گئی ہیں.

مسودے کی 36 نئی دفعات کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق میڈیکل بورڈکا سربراہ کوالیفائڈ اور تجربہ کار ماہر نفسیات ہوگا ، بغیر وارنٹ گرفتاری پر انچارج تھانہ کے علم میں لایا جائیگا جو اپنا اطمینان کرکے اسے تحریر کریگا،زیر حراست فردکے اہل خانہ کو آگاہ کیا جائیگا ،24 گھنٹے کے اندر اندر وکیل تک رسائی دی جائیگی ، اخراجات نہ ہونیکی صورت میں سرکاری خرچے پر وکیل فراہم کیا جائیگا، زیر حراست شخص اور وکیل کو مکمل پرائیویسی دی جائیگی،صوبائی حکومت ہر ضلع میں کنٹرول روم بنائے گی‘اسلحہ کی سر عام کی نمائش کرنے والوں کے خلاف نوٹس یا حکم جاری کیا جائیگا جسکی مدت تین ماہ سے چھ ماہ تک ہوگی‘.

ریپ کیسوں میں 72 گھنٹوں میں سیمپل لے کر ڈی این اے ٹیسٹ منظور شدہ لیبارٹری سے کروایا جائیگا،اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو وقوعہ کے سات روز کے اندر سیمپل کا ڈی این ٹیسٹ کروایا جائیگا اور اسکی رازداری کو یقینی بنایا جائیگا،اگر گواہ کسی ٹھوس وجہ کے بغیرکیس میں غیر حاضر رہے گا رو عدالت اسےجرمانہ یا جائیداد منسلک کرنے کی سزا دے سکے گی.

ہائیکورٹ ٹرائل کا فیصلہ 9 ماہ میں مکمل ہوجائیگا،زیر التوا کیسوں کی ماہانہ رپورٹ معہ وجوہات متعلقہ ہائیکورٹ اور نقل صوبائی اور وفاقی سیکرٹری قانون کو بھیجی جائیگی،مطمئن ہونے پر ہائیکورٹ مقدمے کی تکمیل کیلئے نئی ٹائم لائن مقرر کریگی.

عدم اطمینان پر پریزائڈنگ آفیسر کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی جائیگی، کارروائی کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ ایک جج اور ہائیکورٹ کا افسر مقرر کریگا،مغربی ممالک کے قانون کی طرح فوجداری پلی بارگین کا نیا باب متعارف کروایا گیا ہے،جس میں ملزم ٹرائل کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست دے سکے گا،عدالت فریقین کو نوٹس جاری کرکے یقین کرے گی آیا کہ درخواست رضاکارانہ ہے یا نہیں،اگر ایسا نہیں ہے اور درخواست دہندہ سزا یافتہ ہے تو پلی بارگین کا عمل اس وقت سے شروع ہوگا جب پہلی بار درخواست دی گئی.

عدالت درخواست کا جائزہ لیکر سزا میں تخفیف کرسکے گی،عدالت کیس منیجمنٹ شیڈول سات روز کے اندر دے دیگی، درخواست ضمانت، بریت یا اخراج کو زیر التوا نہیں رکھا جاسکے گا،عدالت درخواست کی سماعت اورمقدمے کی کارروائی کیلئے الگ الگ دن مقرر کرے گی.

مجسٹریٹ کے روبرو گواہ کے بیانات کاآڈیو اور ویڈیو ریکارڈ محفوظ کیا جاسکے گا،اعتراف جرم، بیان ،جرح اور مجسٹریٹ کی وضاحت کا بھی آڈیو ویڈیو ریکارڈ محفوظ کیا جائیگا.

اس مقصد کیلئے تمام سہولیات کی فراہمی کا انتظام یقینی بنایا جائیگا،فیصلے کیخلاف اپیل کرنے سے پہلے ملزم فوت ہوجائے تو ورثا بالکل اسی طریقے سےنظر ثانی درخواست دائر کرسکیں گے جیسے ملزم زندہ ہو، جیل حکام کی سفارش پر صوبے کےہر ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاسکے گا.

ترمیم شدہ 47 دفعات کے مطابق مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد فیصلہ ایک ماہ کے اندر دینا ہوگا‘ جسٹس آف پیس کوپولیس کے اختیار حاصل ہوں گے اوراسے کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا‘مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت سے قید کی سزا 3 سے بڑھا کر 5 سال اور جرمانہ 45 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے.

مجسٹریٹ درجہ دوم قید کی سزا1 سال سے بڑھا کر 3 سال اورجرمانہ15 ہزار روپے سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے، مجسٹریٹ درجہ سوم قید کی سزا1 ماہ سے بڑھا کر1 سال جرمانہ3 ہزار سے بڑھا کرپچیس ہزار روپے کرنیکی تجویز ہے،جھوٹی درخواست ثابت ہونے پر درجہ اول مجسٹریٹ ہرجانہ 25 ہزار روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کرنے جبکہ درجہ سوم کا مجسٹریٹ 25 سو روپے سے بڑھا کر دو لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے.

اشتہاری ہونے کی صورت میںعدالت ملزم کا قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک کارڈ ، بینک اکاؤنٹ بلاک کرنے کا حکم دے سکے گی،15 سال سے کم اور 65 سال سے بڑے مشتبہ مرد ، جسمانی یا ذہنی معذور یاکسی خاتون کو تفتیش کیلئے تھانے نہیں بلایا جائیگا بلکہ انکے پاس جاکرقانونی عمل پورا کیا جائیگا.

تفتیش کے ناقص پن کو ختم کرنے کیلئےایف آئی آر کے اندراج کے 45 دنوں میں تفتیش مکمل کی جائیگی،عدم تکمیل پرتفتیشی افسر تین دنوں میں عبوری رپورٹ پراسیکیوٹر کو بھیجے گا،جھوٹی اور تکلیف دہ درخواست دینے پر اس کےخلاف کارروائی کی جائے گی،حدود قوانین کے تناظر میں دفعہ 199 ( جسم فروشی یا شادی شدہ خواتین کوورغلانے سے متعلق )، ملزم کی پیشی سے متعلق دفعہ 468 اورذہنی معذور قیدی سے متعلق دفعہ 473کو بھی اضافی قرار دیکر خارج کردیا گیا ہے۔

ضابطہ تعزیرات پاکستان میں16تبدیلیاں کرتے ہوئے 4 نئی دفعات شامل جبکہ 12 دفعات میں ترامیم کی گئی ہیں، بیوی پر خاوند یا اس کے رشتہ دار کی جانب سے تشددپر تین سال قید اور جرمانہ ہوگا، غیر قانونی اجتماع پر جرمانہ ایک لاکھ روپے ہوگا.

جرم کے بارے میں جھوٹی اطلاع دینے پردو سال قید ہوگی،چوری کی سزا 3 سال قید سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے،دھوکہ دہی کی دفعہ 420 میں، جائیداد سے محروم کرنے ،مالی خیانت جیسے معاملات کی سزا 7 سال سے بڑھا کر 10 سال کردی گئی ہے، بدنیتی یا شرارت کر کے ایک لاکھ روپے یا زیادہ نقصان کرنے پر ملزم کو 10 سال قیداور نقصان کے برابر جرمانہ ہوگا، کسی کے گھر میں بلااجازت داخل ہوکر اسے بے عزت ، پریشان کرنا جرم ہوگا.

مکین کو کسی چیز سے محروم کرنے پر 10 سال قید اور جرمانہ ہوگا، جائیداد کے کیسوں میں جعلی دستاویزات کی تیاری پر سزا 7 سال سے کم نہیں ہوگی، چیک باؤنس ہونے کی دفعہ میں ترمیم کی گئی ہے،چیک وصول کنندہ رقم کی ادائیگی کیلئے چیک جاری کرنیوالے کو تحریری نوٹس دے گا، دس روز میں ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں کارروائی کی جائیگی،جس کی سزا 3 سال قید یا جرمانہ یا دونوں ہوںگی۔ 

اہم خبریں سے مزید