قدرت ہم سے خفا ہے یاکیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ مانا کہ موسم ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے، بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ملائم، کبھی گلابی۔کبھی شدید اور کبھی بہت شدید۔مگر اِدھرانہوں نے یہ نیا شیوہ اختیار کیا ہے کہ سرد ہوں تو ہڈیوں میں اتر جائیں یا گرم ہوں تو روح تک جھلس جائے۔برسنے پر آئیں تو شہر کے شہر ڈوب جائیں اور جل تھل ایک ہوجائیں تو پیر ٹکانے کو بھی جگہ نہ ملے۔سوکھا پڑے تو زمین چٹخ جائے اور مویشی جہاں کھڑے ہوں،وہیں گرکردم توڑ دیں۔بہار آئے تو پھو ل غریب کھلے بھی نہیں کہ مرجھاکے گرنے لگیں اور خزا ں یوں آئے کہ جانے کا نام نہ لے۔ایسا پہلے بھی ہوتا تھا مگر کم کم۔ اب کے موسم کے تیور کچھ نرالے ہی ہیں۔لندن کی سڑکوں کے کنارے لگے درختوں پر ہر سال بادام جیسے پھل آیا کرتے تھے، اس سال وہ پھل ہی نہیں لگا۔میرے گھر کے پیچھے کھلنے والی کھڑکی میں دیکھتا ہوں، ایک بڑا درخت کب سے برہنہ کھڑا ہے اور خدا جانے کب تک زور کے جاڑے میں یوںہی کھڑا ٹھٹھرتا رہے گا۔
یہ سب تو وہ منظر ہیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ مگر ان منظروں کو کہاں لے جائیں جو دیکھنے میں نہیں آتے اور ہم یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ان منظروں کا کہیں وجود ہی نہیں۔ اور وہ ہے خستہ حال مکان میں ٹپکتی چھت کے نیچے ذرا خشک کونے میں سمٹ کر اور سکڑکر بیٹھا ہوا فاقہ زدہ کنبہ جس کے دروازے پر دستک دے کر یہ پوچھنے والا بھی کوئی نہیں کہ تم لوگ کیسے ہو۔کچھ کھانے کو ہے گھر میں، کچھ اوڑھنے بچھونے کو ہے؟
موسم کا کام ہے آنا، وہ تو آئے گا مگر اس اکیسویں صدی کے چوتھائی حصے میں ہم کیسا نظام لے کر بیٹھے ہیں جس میں پرسانِ حال نہیں معلوم کس طرف کو سدھار گئے۔ میں برطانیہ میں رہتا ہوں اور میری عمر ساٹھ برس سے اوپر ہے۔ ہر سال جاڑے آتے ہی ملکہ کی سرکار کا ایک خط میرے نام آتا ہے۔ لکھتی ہیں کہ گھر کو گرم رکھنے پر بھاری خرچ آتا ہے اس خیال سے آپ اور ضعیف اہلیہ کے لیے دو سو پاؤنڈ بھیجے جارہے ہیں۔کیا ہماری بستیوں میں کوئی دردمند ایسا نہیں جس کی باربردار گاڑیاں ٹوٹے پھوٹے بوسید ہ مکانوں کے آگے رکیں،کوئی شخص ہاتھوں میں کمبل اور کھانے پینے کا سامان لے کر اترے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے کمبل اوڑھائے، پاؤں میں جوتیاں ڈالے، ٹپکتی چھت کے اوپر ڈالنے کے لیے پلاسٹک کے شاپر دے اور جواب میں دعا کا انتظار کرنے کے بجائے اگلی اجڑی ہوئی بستی کی طرف لپک جائے۔
ہم جس فلاحی مملکت کی بات کرتے ہیں وہ کسی دیوانے کا خواب نہیں۔جہاں ہر شخص سکون اور آرام سے زندگی گزارے اور اسے اطمینان ہو کہ کہیں کسی رجسٹر میں اس کا نام پتہ محفوظ ہے۔ کوئی اس کے حال سے واقف ہے اور اسے سکون عطا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہو۔ یہ دیوانے کا خواب ہوتا اگر دنیا میں اس کی کوئی مثال نہ ہوتی، کوئی نظیر نہ ہوتی۔ کتنے ہی ملک ہیں جنہیں فراوانی نصیب ہوئی ہے اور وہ اس نعمت کا رُخ عوام کی جانب پھیر رہے ہیں۔کیا کریں کہ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ زمین سے دولت ابلی پڑ رہی ہے اور ملّت کے نادار لوگ کانٹوں کے بستر پر عمر گزارنے پر مجبور ہیں۔
میرے ایک مرحوم بھائی کا یہ معمول تھا کہ جاڑے آتے ہی وہ بازار سے کمبل خریدتے اور جھونپڑیوں میں جاکر فاقہ زدہ کنبوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔میں نہیں کہتا کہ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور لوگوں کے تن ڈھانپیں اور پیروں میں جوتیاں پہنائیں۔ میں صر ف یہ کہتا ہوں کہ اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ والے مکانوں ہی میں دیکھ لیں کہ کس کی چھتیں ٹپک رہی ہیں کس کے لیے مستری کی مدد لی جائے۔ کس کے بچے جاڑے کی وجہ سے بیمار پڑے ہیں اور کوئی انہیں دوا کی ایک گولی فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔میں ایسے گھرانوں سے واقف ہوں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک گھرانے کو جانتا ہوں جس میں بوڑھی او ر بیمار ماں اور طلاق یافتہ بیٹی رہتی ہیں۔بیٹی باہر سے لکڑیاں چن کر لاتی ہے تو چولہا جلتا ہے۔ ایک زمانے میں تو سنا ہے کہ لوگ کھیتوں میں جاکر پانی کی نالیوں میں اگنے والے سا گ کی پتیاں توڑکر لاتے تھے تو کھانا نصیب ہوتا تھا۔مجھے یقین سا ہے کہ اب بھی یہی ہوتا ہوگا۔ اب آتا ہوں اپنی اصل با ت کی طرف۔اور بات ہے مفلسی او رناداری کی۔آپ نے شاید غور نہ کیا ہو۔ مفلسی کا عجب معاملہ ہے کہ چھپی رہتی ہے۔کچھ تو غریب اپنی حالت پر خود ہی ترس کھاتا ہے،دوسرے یہ کہ دنیا کو یہ بتانے سے گریز کرتا ہے کہ میں بھوکا ہوں۔ یہ بھی نہیں بتاتا کہ میرے کتنے بچے ہیں۔مکان کے کرایہ دینے کے بعد دن میں بس ایک وقت کھاتاہوں۔لباس میں دو پیوند لگے ہیں، اس کی خیر منارہاہوں،اندر کے لباس میں جو چیتھڑے لگے ہیںشکر ہے کہ وہ دنیا کو نظر نہیں آتے۔ اس طرح کے سو جتن کرکے مفلس اپنی مفلسی پر پردہ ڈالتا رہتا ہے یہی سبب ہے کہ غریبی دکھائی نہیں دیتی۔
مفلسی کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان جیسے بھی بنے جی لیتا ہے۔ حالات کے تھپیڑے کھا کھا کر اس کی جلد موٹی ہوجاتی ہے۔ وہ سخت جان ہوجاتا ہے جس سے دنیا یہ قیاس کر لیتی ہے کہ سارا نظام چل تو رہا ہے۔ کام سارے ہی جاری ہیں۔مفلسی کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ سارے کام جنہیں دنیا حقیر تصور کرتی ہے،غریب سر جھکا کر کرلیتا ہے۔ ہم جہاں کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے لباس پر کوئی چھینٹ نہ پڑے، مفلس محنت کش وہاں بے دھڑک بوجھ ڈھولیتا ہے اور جانتا ہے کہ جب تھکا ہارا گھر جائے گا تو پریشان حال بیوی کمر دبا دے گی۔ اگلے روز کام کی تلاش میں باہر نکلے گا تو یہ طعنہ سننے کو ملے گا کہ دیہاڑی داراول تو ملتا نہیں اور مل جائے تو سو نخرے کرتا ہے اور ایک دن میں ہزار روپے کما لیتا ہے۔یہ بات بھی کچھ یوں کہتاہے جیسے ایک دن پلک جھپکتے گزر جاتا ہو۔ ابھی سننے میں آیا کہ کسی جگہ مزدوروں نے پیشگی پیسے مانگے۔ پتہ چلا کہ پہلے کام کراکے مال دار شخص کام میں ہزار نقص نکالتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ ہزار روپے کا کام تین چار سو میں ہوجائے یا مزدور اگلے روز اپنی محنت کا معاوضہ لینے پر تیار ہوجائے اور پھر وہ اگلا روز کبھی نہ آئے۔
کہتے ہیں کہ دولت دولت کو کھینچتی ہے۔اب پتہ چلا، مفلسی بھی مفلسی کو کھینچتی ہے۔