عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں دنیا کو ایک متوقع شدید معاشی بحران سے خبردار کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، نصف سے زائد کم آمدنی والے ممالک قرض کے بوجھ تلے دبنے والے ہیں یا پہلےہی قرض کے شدید باؤ کے زیرِ اثر ہیں، جس کی وجہ سے ان میں سے کچھ ممالک کی معیشت مکمل طور پر ٹوٹنے والی ہے۔ اگر ان ممالک کے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ان کی صورتِ حال مزید خراب ہونے کے امکانات ہیں۔
وَبائی مرض کے باعث پیدا ہونے والے صحت کے بحران کے دوران ان ممالک کے لیے صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔ اب، وَبائی مرض سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں بڑھنے والی افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں سود کی شرح بڑھنے والی ہے اور اس عمل میں ان کے قرضوں کی ادائیگیاں مزید مہنگی ہوجائیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ اب عالمی مالیاتی آرکیٹیکچر کو تبدیل کرنے کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں، کیوں کہ اسے موروثی طور پر غیر منصفانہ سمجھا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس وقت کم آمدنی والے 60فی صد ممالک قرض کے دباؤ میں ہیں، جب کہ 2015ء میں کم آمدنی والے ایسے ممالک کی شرح صرف 15 فی صد تھی۔
وبائی مرض کے دوران دولت مند ممالک کے سرکاری قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس سے عالمی معاشی طاقت امریکا بھی محفوظ نہیں رہا، جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی ریزرو کرنسی ہے اور وہ ایک قابل اعتماد قرض دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکا کا سرکاری قرضہ حال ہی میں جی ڈی پی کے 123فی صد تک جا پہنچا ہے، تاہم وہ 10 سال کی مدت کے قرض پر 2فی صد سے بھی کم سود ادا کرتا ہے۔
زیمبیا، جس کے سرکاری قرض کا تخمینہ جی ڈی پی کا 115فی صد لگایا گیا ہے، 10 سال کی مدت کے قرض پر 25فی صد سود ادا کرتا ہے۔ یوگنڈا، جس کے قرض کا تناسب تقریباً 50فی صد ہے، وہ تقریباً 15فی صد سود ادا کرتا ہے۔ کووِڈ-19 کے دوران کم آمدنی والے ممالک پر قرض کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، جی20ممالک نے قرض معطلی کا اعلان کیا، لیکن اس کی میعاد بھی 31 دسمبر 2021ء کو ختم ہوچکی ہے۔
سب کیلئے درست کریڈٹ ریٹنگ کا نظام؟
بدھ بھکشوؤں نے حال ہی میں بلٹ ٹرینوں پر مقدس پانی کا چھڑکاؤ کیا جو کہ5.9ارب ڈالر کے ریلوے منصوبے کی بدولت جلد ہی چین اور لاؤس کے دارالحکومت وینٹیانے کے درمیان چلنے والی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، لاؤس کی حکومت نے اس منصوبے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ قرض لیا، جس کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے کہ آیا اس کی ادائیگی کی جا سکتی ہے؟ گزشتہ سال کے آخر میں، لاؤس کی کریڈٹ ریٹنگ میں ایک درجہ کمی کردی گئی تھی، جس کا مقصد قرض دہندگان کو یہ بتانا تھا کہ ’ادارہ جاتی عدم صلاحیت‘ اور بدعنوانی پر قابو پانے میں ناکامی کے باعث، اس ملک کا ’نادہندہ‘ ہونا ایک حقیقی امکان ہے۔
ریٹنگ ایجنسیوں کا کم دولت مند ممالک پر وہی معیار لاگو کرنے کا رجحان جو وہ اپنے زیادہ آرام دہ شراکت داروں پر کرتے ہیں اور اس عمل میں قرض لینے کی ان کی لاگت میں اضافہ کرتے ہیں، حالیہ عرصہ میں جانچ پڑتال کی زد میں آیا ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے کچھ ناقدین نے ایک نئے قسم کے درجہ بندی کے نظام پر زور دیا ہے جوریٹنگ ایجنسیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرتا اور ضرورت مند ممالک کے انسانی حقوق پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔
کریڈٹ ریٹنگ مسئلے کا صرف ایک حصہ ہو سکتی ہے۔ ایک مطالعہ نے ایک غیر ذمہ دار ’سرمایہ کار جھکاؤ‘ کی نشاندہی کی ہے،جس کے باعث سب صحارا ئی افریقی حکومتیں ہر سال تقریباً 300 ملین ڈالر اضافی سود ادا کرنے پر مجبور ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ کریڈٹ ریٹنگ ہو سکتی ہے۔
قرض کے پرانے مسائل کو حل کرنے کے نئے طریقے
مالی اعانت کے متلاشی کم آمدنی والے ممالک کے ساتھ جس طرح برتاؤ کیا جاتا ہے، اس کی ایک جھلک وبائی مرض کے دوران واضح طور پر دیکھی گئی۔ ماضی میں ان میں سے کچھ جگہوں پر حکومتوں کی ملکی قرضوں کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکامیوں نے مظاہروں کو جنم دیا اور عالمی اداروں سے مزید قرض لینے کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔
دوسروں کا کہنا ہے کہ، ترقی پذیر ممالک کو مزید وسائل مہیا کر کے ان اداروں کو درحقیقت بڑا کردار ادا کرنا چاہیے، اور یہ کہ دولت مند ممالک کو فطرت کے تحفظ اور معدومیت کے خطرے سے دوچار نسلوں کے تحفظ کے وعدے کے عوض ان کی مالیاتی ذمہ داریوں کو منسوخ کرنا چاہیے۔
حامیوں کا کہنا ہے کہ، اس طرح کی کوششیں ناہموار مواقع کی وجہ سے قابل قدر ہیں۔ اگرچہ دنیا کے بیشتر ممالک کو وبائی مرض کے دوران معاشی تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، پسماندہ اقوام معاشی طور پر اس سے قبل ہی غیر یقینی کا شکار تھیں، جس میں کووِڈ کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر سب صحارا افریقا کی مجموعی معیشت میں اس سال دنیا کے کسی بھی خطے کے مقابلے میں سب سے سست رفتار نمو کی توقع ہے، جس کی وجہ کم از کم جزوی طور پر کووِڈ-19ویکسینز کی غیر مساوی عالمی تقسیم ہے، بہت سے افریقی ممالک میںان کی فراہمی بہت کم ہے۔