• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں لگتا ہے کہ شہر کراچی دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک حصہ میں وہ سارے مسائل موجود ہیں جن کا حل الہ دین کے چراغ والے جن کے پاس بھی نہیں۔ دوسرے میں مسائل کا وجود ہی نہیں۔ اس دوسرے حصے میں کوئی فساد نہیں ہوتا۔ سڑکیں چوڑی اور ویسی ہی ہموار ہیں جیسی ہونی چاہیں ۔ٹریفک بھی بے مہار محسوس نہیں ہوتا۔ اسٹریٹ لائٹس بھی بہترین اور ہریالی بھی ۔ گھر بڑے اورگلیاں کشادہ ، دنیا بھر کے بہترین ریسٹورنٹ ہیں ۔ 

تفریح گاہیں اور ساحل بھی ہے۔ میوزک کنسرٹ ہوتے ہیں شہر کا یہ حصہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی سے شروع ہوکے ڈیفنس اور کلفٹن سے آگے وہاں تک ہے جہاں زمین ختم ہوتی ہے اور سمندر کی لامحدود مملکت شروع ہوتی ہے۔اگر آپ ایک ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کرایہ دے سکتے ہیں یا پانچ سے پچیس کروڑتک کی رہائش خرید سکتے ہیںتو اس مملکت میں آپ کو خوش آمدید۔ اس مملکت کوتوسیع دینے کے لیے سمندر کو پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔

پانی جو پہلے بوٹ بیسن کی سڑک پر بنی حفاظتی دیوار کے پیچھے ہوتا تھا اب کئی کلومیٹر دور چلا گیا ہے ۔ یہ زمین مفت ہی ملی ہے لیکن سونے کے بھاؤ فروخت ہوئی ہے، کیونکہ اب پوش آبادی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، پیچھے تو پرانا بدصورت شہر ہے جو شاید تین چوتھائی کراچی ہے اور اس میں نچلا، متوسط نچلا اور متوسط طبقہ کچی پکی، جائز ناجائز تعمیرات اورلاقانونیت کے تمام مظاہر والی، اَن گنت آبادیوں میں رہتا ہے۔

یہ صاف نظر آتا ہے کہ اس حصے میں تفریح کوئی نہیں ہے ۔کوئی پارک نہیں، جہاں ایک فیملی سکون سے بیٹھ سکے اور اسے چند فٹ کی خلوت میسر ہو۔آسمان کی نیلاہٹ اور سبزے کی ہریالی کو دیکھ سکے ۔ آسمان ہمیشہ یہاں دھویں سے سیاہ نظر آتا ہے جو پبلک پارک تھے سب پر تعمیر ہوگئ۔ جگہ کی وہ قلت ہے کہ رہایشی گھروں میں اسکول اوراسپتال بن گئے۔ 

میں نے ایک چھوٹے بچوں کا سکول 120 گز یا پانچ مرلے سے کم جگہ میں دیکھا جہاں غیر قانونی طور پر چار منزلوں پر چھوٹے چھوٹے کمروں میں سیکڑوںوں بچے پڑھ رہے تھے اور چھٹی کے وقت جب شور مچاتے بھاگتے تونہیں معلوم کیا حادثات پیش آتے ہوں گے۔ وہاں کھیلنے کی جگہ کا کیا سوال۔ ایسی ہی جگہوں پر اسپتال اور میٹرنٹی ہوم بھی ہیں جہاں واحد لیڈی ڈاکٹرتمام امور چوبیس گھنٹے خود سر انجام دیتی ، کیونکہ اسی گھر میں اُس کی رہائش بھی تھی۔ تعلیم اور صحت کو یونیسکو کی رپورٹ میں پاکستان کا سب سے منافع بخش پیشہ بتایا گیا ہے

پرانے دو کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے کراچی میں اب واحد تفریح کھانا پینا رہ گیا ہے ۔ نصف صدی سے کم میں شہر کے اس حصے میں کھانے پینے کا کلچر کیسے بدل گیا؟ایک تو چائےکے اچھے پر سکون ریسٹورنٹ ہی غائب نہیں ہوگئے، ایرانی ہوٹل بھی نہیں رہے۔ ملباری ریسٹورنٹ بھی بہت کم رہ گئے، ان کی جگہ کوئٹہ چائے آگئی۔ ان کے نام بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں، ماشاللہ یا نصیب گل خان کوئٹہ چائے۔ یہ ہر گلی محلے سڑک اور چوک میں بلبوں سے چراغاں دکانوں میں ہیں جہاں عوام سڑک کنارے ٹریفک سے بے نیاز دن رات بیٹھے نظر آتے ہیں اور دودھ پتی او چینی والی چائے کے ساتھ گرما گرم گھی میں تربتر پراٹھے کھاتےہیں۔ ان پراٹھوں میں جدت کی انتہا کوئی نہیں۔

انڈے والے پراٹھے سے پنیر پراٹھے تک ہیں جن کی قیمت پچاس روپے سے ڈھائی سو روپے تک عام ہے۔ ایک نے ساحل پر کرسیاں ڈال دیں تو سیکڑوں لوگ ہروقت بیٹھے نظر آنے لگے ، دیکھتے دیکھتے کئی ہوٹل بن گئے، پھر کسی نے تندوری چائے چلائی جو مٹی کے کوزوں میں تھی، وہ بھی بےحد مقبول ہوئی ۔ یہ اندازہ کرنامشکل ہے کہ کراچی میں کتنے ہزار عوامی ہوٹل ہیں اور وہاں کتنے کروڑ کپ چائے روز پی جاتی ہے۔ 

یہاں کا ایک قدیم مشہور ہوٹل "کیفے پیالہ" چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جو ہمیشہ ہاوس فل ہوتاہے اوراپنے اصل سائزسے دس گنا تو ضرور پھیل گیا ہے، شاید ایسی چائے دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ عام طور پر چائے میں دودھ استعمال نہیں ہوتا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ چائے کا ایک کپ بھی پچاس روپے کا ہوگیا ہے اور "کٹ چائے" کی صورت میں اب آدھے کپ سے چند قطرے زیادہ چائے ملنے لگی ہے۔ ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دارو گیر کلچرل یلغار نے کھانے میں دلی ،لکھنو کی ثقافت کویوں بلڈوز کیا ہے کہ یخنی پلاؤ غائب ہو گیا، اس کی جگہ آگئی بمبئی بریانی، سندھی بریانی ،میمن بریانی۔ یہ سب مرچ مسالے والی بریانی ہے اور کراچی کی سب سے مقبول ڈش جو گلی گلی چوبیس گھنٹے ملتی ہے اور سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے۔ 

اس کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بغیر سالن چلتی ہے تو سستی پڑتی ہے۔ پلاؤ اور دلی کی بریانی کہیں کہیں ، شادی میں یا گھریلو دعوت میں نظر آجاتی ہے ۔ اسی انداز میں زردہ، متنجن، قورمے کا ہی نہیں بلکہ کوفتے ،پارچے اور اسٹوو کا خاتمہ ہوا ،جو مہاجر ثقافت کی پہچان تھے۔ دہلی مسلم کالی ہوٹل نام کے چار ہوٹل قورمے ، نرگسی کوفتےکی شہرت رکھتے تھے۔ دروازہ کھلے تو خوشبو باہر آتی تھی اور اکثر بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تھی،وہ سب ختم ہو گئے۔ شادی بیاہ میں بھی قورمہ کلچر نہیں رہا۔ اس کی جگہ لےلی چکن،بیف اور مٹن کڑاہی گوشت نے ،جو پہلے پہل پہلے پٹھان بستیوں میں مقبول ہوا۔

 1955 میں جب میں پشاور سے بی اے کر رہاتھا تو رہائش مال روڈ کے آخری کنارے پر باڑہ لائن کوارٹرز میں تھی۔یہاں خاردار تاروں کی باڑھ سے علاقہ غیر کی سرحد شروع ہوتی تھی۔ ایک فری ٹرین ہر اتوار کی صبح لنڈی کوتل جاتی تھی، جہاں اسمگل کیا ہوا کپڑا، الیکٹرونک اور کراکری وغیرہ بہت سستے ملتے تھے چنانچہ کاروں میں خواتین بھی بہت جاتی تھیں۔ لنڈی کوتل کا کڑھائی گوشت مشہور تھا ، پہلی بار میں نے وہیں کھایا۔ دنبے کی چربی میں صرف ٹماٹر کے ساتھ آدھا پکا آدھا کچا گوشت۔ آج یہ کراچی کی سب سے مقبول ڈش ہے اور اس کےسیکڑوں بلکہ ہزاروں آفریدی شنواری ہوٹل شہر کے طول و عرض اور مضافات میں موجود ہیں جو رات کو لاکھوں روشنیوں سے جگمگاتے اور ہر قسم کا کڑھائی گوشت کھانے والی ہزاروں فیملیز سے بھرے رہتے ہیں،یہاں تخت قالین اور گاو ٔتکیوں کا رواج ہے۔

یقینا" مہاجر برادری کو یہ سچ بہت تلخ اور ناگوار گزرے گا کہ ان کی ثقافت کو سرحد بلوچستان کی پٹھان مہاجر ثقافت نے یکسر ناک آوٹ کر دیا ہے۔ لیکن 1947 میں سندھ کی ثقافت مہاجر انقلاب کے سامنے پسپا ہو چکی ہے۔ اصل کلچر تو معاشی ہے پیزا برگر گلوبل کلچر کا تحفہ ہے۔ پرانے مہاجر فوڈ کلچرکی دو چیزیں زندہ ہیں اور مقابلے پر ہیں، ایک نہاری اور دوسری حلیم۔

نہاری کے مراکزدرجنوں میں ہوں گے تو حلیم کے گنے چنے۔ ماہرین کی شہرت کم نہیں ۔ نہاری سادہ سےمغز، نلی اور تڑکے والی بنتی ہے تو بہت مہنگا کھانا ہوجاتا ہے ،چنانچہ بریانی ہی کراچی فوڈ ہے یا کڑاہی شہر کے کسی بچے، نوجوان، بوڑھے، مردو زن سے پوچھیں ۔ وہ ایک فہرست بتائے گا کہ کہاں اور کس محلے بازار میں کس کی بریانی غضب کی ہے۔ چائے پراٹھا کس کا اچھا ہے۔

سخت ترین حالات میں زندگی کرنے والے اور کیا کریں۔ ماحول میں آلودگی، صفائی مفقود، ٹرانسپورٹ عذاب، ان کی تفریح کے لیے کچھ نہیں، باغ نہیں ، تھیٹر نہیں،سنیما نہیں، میوزک کنسرٹ نہیں ،میلے نہیں، اسپورٹس نہیں ۔پاکستان سے پہلے کا ایک چڑیا گھرہے سمندر دور ہے اور مہنگا ہے۔ فارم ہاوس سب سے مہنگا۔ چلو کچھ نہاری بریانی ہی سہی ۔چائے پراٹھا سہی۔ سیاست اور ثقافت سے تو پیٹ نہیں بھرتا۔