سال 2025ء کراچی کے لیے خوابوں، خدشات اور حقیقتوں کا ایک عجیب امتزاج لے کر آیا۔ یہ شہر دنیا کے بڑے شہروں کی تجارتی و ثقافتی رنگارنگی میں شامل ہونے کے بجائے ناقابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر رہا، جو کبھی اپنی خوب صورتی کے باعث’’ملکۂ مشرق” کہلاتا تھا، آج کچرا کنڈی بن چکا ہے۔ سال کے آغاز میں میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اعلان کیا تھا کہ ’’ نیا سال کراچی کی تعمیر و ترقی کا سال ہوگا، 1000 سے زائد ترقیاتی منصوبے زیرِ تعمیر ہیں اور شہر ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘۔
سندھ حکومت کے بھی ایسے ہی بیانات تھے۔ ان بلند بانگ دعووں اور کھربوں روپے کے ترقیاتی اعلانات نے شہریوں کے دلوں میں اُمید کی ایک ہلکی سی روشنی ضرور جگائی، مگر عملی صورت بہت کم دکھائی دی۔ شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرا ہو جس میں اہلِ کراچی کو کسی نہ کسی آفت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔
کوئی گٹر میں ڈوب کر مرا، کوئی بارش کے پانی کے بہاؤ میں بہہ گیا، کسی کی شدید گرمی یا سردی نے جان لی، کہیں لاپروا ڈرائیوروں نے موٹر سائیکل سواروں کو روند ڈالا، اور کہیں نشے میں مست اشرافیہ یا مافیا کے کارندے شہریوں پر گاڑیاں چڑھاتے رہے۔
لاقانونیت کا یہ طوفان گزشتہ برسوں کی طرح 2025ء میں بھی شہر پر سایہ فگن رہا۔ بنیادی سہولتوں کی بات کی جائے تو شہری اس سال بھی پانی، بجلی، صفائی اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مسائل میں جکڑے رہے۔ کراچی کو وسائل کا حصہ نہیں دیا گیا لہٰذا ترقی کا پہیہ بھی جام ہی رہا۔ ملاحظہ کیجیےکراچی کا مختصرا تجزیہ 2025 کے آئینے میں۔
پانی و سیوریج : صاف پانی کی فراہمی 2025ء میں ممکن نہ ہوسکی۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ کے-فور 2024ء میں مکمل ہوجائے گا، مگر 2025ء بھی گزر گیا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اب بھی 77 ارب روپے درکار ہیں، جب کہ وفاقی حکومت نے آئندہ بجٹ میں صرف 3 ارب روپے رکھے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بھی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کے-فور منصوبہ کراچی کو نیا خون فراہم کرے گا، مگر یہ نیا خون کب آئے گا،فی الحال تو عوام کا خون ٹینکر مافیا چوس رہی ہے، جو مبینہ طور پر حکومت سے بھی زیادہ طاقت ور ہوچکی۔
حکومتِ سندھ نے 12.4 ارب روپے کی لاگت سے نئی حب کنال کراچی تک مکمل کی جس سے روزانہ 4 کروڑ گیلن اضافی پانی فراہم ہونا شروع ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔ اسی سال 1.7 ارب روپے کی لاگت سے کے-تھری سے ایک لائن لیاری ندی میں ایلیویٹڈ ڈالنے کا کام بھی شروع ہوا۔
مزید برآں، ڈیفنس اور کلفٹن تک پانی کی ترسیل کے لیے 36 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی بحالی کے منصوبے پر 10.25 ارب روپے کا قرض منظور کیا گیا، تاہم ان اقدامات کے باوجود شہر کے بیشتر علاقوں میں نلکے خشک، اور عوام ٹینکر مافیا کے محتاج رہے۔
سیوریج نظام: شہر کا تقریباً 40 فیصد علاقہ کچی آبادیوں پر مشتمل ہے، جہاں سیوریج کا نام و نشان تک نہیں۔ سیوریج پروجیکٹ S-III، جو 2007ء میں 7.98 ارب روپے کی لاگت سے منظور ہوا تھا، اب 54 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، مگر ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔
یہ منصوبہ روزانہ پیدا ہونے والے 400–450 ملین گیلن گندے پانی کو صاف کر کے سمندر میں جانے سے پہلے ٹریٹ کرنے کے لیے تھا، تاکہ ماحولیاتی آلودگی کم ہو اور صحت عامہ میں بہتری آئے، مگر تاحال کچھ نہ ہوا۔ لہذا کراچی کا 450 گیلن روزانہ سیوریج نے کراچی کے سمندر کو سیاہ کر دیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ: حکومت کے تمام تر دعوؤں اور اعلانات کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہی رہا۔ گرین لائن بس منصوبہ اگرچہ فعال ہو چکا ہے، مگر اس کی محدود لائنیں اور ضرورت سے کم بسیں ان علاقوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکیں۔ دوسری جانب کئی سال سے زیرِ تعمیر ریڈ لائن منصوبہ، گلستانِ جوہر سے نمائش تک سفر کرنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث رہا۔ منصوبہ، 2025ء میں بھی سست روی کا شکار رہا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خود تسلیم کیا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے، جب کہ صوبائی حکومت گزشتہ چودہ برسوں میں صرف 400 بسیں لانے میں کامیاب ہوئی۔ گویا کراچی کے شہری گزشتہ برسوں کی طرح 2025ء میں بھی یلو لائن، ریڈ لائن اور اورنج لائن کی آمد کی آوازیں سنتے رہے، سڑکوں پر جو سرخ بسیں نظر آتی ہیں وہ غنیمت سہی۔ اگر حکومت نے اس منصوبے کو مکمل طور پر کمرشل بنیادوں پر چلانے کی سوچ برقرار رکھی، تو یہ سفر غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔
وزیر ِ اعلیٰ سندھ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ کراچی ٹرانسپورٹ ماسٹر پلان میں یلو لائن بی آر ٹی کے علاوہ لائٹ ریل منصوبہ "کراچی میٹرو" بھی شامل ہوگا، جب کہ سرکلر ریلوے کا منصوبہ بھی جلد شروع کیا جائے گا۔ تاہم ان منصوبوں کے اجرا یا تکمیل کی حتمی تاریخ نہیں بتائی گئی۔ گویا یہ بھی وعدوں اور دعووں کا پرانا سلسلہ ہے جو کراچی کے شہری کئی عشروں سے سن رہے ہیں۔
سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کے مطابق داؤد چورنگی سے خالد بن ولید انٹر سیکشن تک 21 کلومیٹر طویل یلو لائن بی آر ٹی منصوبے پر 268 بسوں کا بیڑا چلے گا ۔ تین کروڑ آبادی کے اس شہر میں اربن ٹرین، سب وے یا لوکل ٹرین کا کوئی جامع منصوبہ شروع نہ ہو سکا، حالاں کہ اتنی آبادی کے شہروں کے لیے یہ نظام ناگزیر ہوتا ہے۔
حکومتِ سندھ کی جانب سے گاڑیوں کے لیے نئی نمبر پلیٹ کے اجرا کا اعلان، شہریوں اور حکومت کے درمیان سال کا سب سے بڑا تنازعہ بن گیا، جب ٹریفک پولیس نے سڑکوں پر آتے ہی پرانی پلیٹ والی گاڑیوں کے چالان اور ضبطگی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔
اس صورتِ حال میں سب سے زیادہ موٹر سائیکل سوار متاثر ہوئے، جن کی تعداد تقریباً 42 لاکھ، جب کہ دیگر گاڑیوں کی تعداد تقریباً 23 لاکھ ہے۔حکومتِ سندھ نے عوامی ٹرانسپورٹ کے بڑھتے مسائل کے پیشِ نظر 200 ورکنگ ویمن اور طالبات کو مفت الیکٹرک پنک اسکوٹیز فراہم کیں، جب کہ آئندہ مرحلوں میں مجموعی طور پر دس ہزار خواتین کو یہ سہولت دینے کا منصوبہ ہے۔
خواتین کو بااختیار بنانے کا یہ اقدام قابلِ تعریف ہے۔ سڑکوں اور سگنلز پر کھڑے ٹریفک پولیس اہلکار ٹریفک مینجمنٹ سے زیادہ 4 ارب روپے کے بجٹ ہدف کو پورا کرنے میں دلچسپی لیتے رہے۔ یہ شاید دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے کہ گاڑیوں کے چالان کو باقاعدہ ریونیو کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس صورت میں ٹریفک پولیس ایک خدمتی ادارہ نہیں بلکہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ بن گئی، جس کے لیے قوانین کی خلاف ورزی روکنے سے زیادہ بجٹ ٹارگٹ پورا کرنا اہم ہو گیا۔
نتیجتاً ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزا کا تصور تقریباً ختم ہوتا گیا۔ 2025ء اکتوبر کے آخری ایام میں شہر میں ’’ای ٹکٹنگ‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا، پہلے 6 گھنٹوں کے دوران ایک کروڑ 25لاکھ روپے کے چالان ہوئے، شہریوں نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سڑکوں کی حالت اور سگنلز ٹھیک نہیں تو پھر حکومت کو چالان کا بھی اختیار نہیں۔
بارشیں اور نکاسی آب2025: میں بھی کراچی کے شہری طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد میں رہے۔ بلدیہ کراچی ہر سال نالوں کی صفائی کے دعوے کرتی ہے، تقریباً 600 چھوٹے بڑے نالوں کی صفائی اور پھر اس صفائی کو برقرار رکھنا شاید آسان کام نہیں۔
مالی سال میں نالوں کی صفائی کے لیے 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے، مگر اس کے باوجود برساتی نالے مکمل صاف نہ ہو سکے۔ جب تک پانی کی قدرتی نکاسی میں رکاوٹیں دور نہیں ہوتیں، تجاوزات کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا، شہر سے برساتی پانی کی نکاسی ممکن نہیں۔
کچرا اور ماحولیات۔2025ء بھی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (SSWMB) کی ناکامی کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ چینی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے باوجود گلی کوچے کچرے سے بھرے رہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں، فضائی آلودگی اور کچرا جلنے کے دھوئیں نے شہریوں کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔ سمندر میں بہایا جانے والا کچرا اور سالڈ ویسٹ ماہی گیروں کے لیے نئی مشکلات لے کر آیا۔
مبینہ طور پر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے سالانہ اخراجات 43 ارب روپے سے تجاوز کر گئے، جب کہ صوبائی کابینہ کمیٹی نے مالی سال 2024-25ء کے لیے 12 ارب روپے کی اضافی گرانٹ بھی مشروط منظور کی، گویا 65 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے کسی ایک شہر کو بھی "صاف" نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی پر تو بورڈ کی توجہ نہ ہونے کے برابر رہی۔
کہیں کہیں بورڈ کی گاڑیاں ضرور نظر آئیں ، مگر صفائی والے کارکن، جو کبھی صبح سویرے گلیوں میں جھاڑو دیتے دکھائی دیتے تھے، اب غائب ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں نے کچھ ترقیاتی منصوبوں پر کام تو ضرور کیا، کہیں کسی چورنگی پر انڈر پاس یا فلائی اوور کی تعمیر دیکھی گئی، تو کہیں کسی سڑک کی مرمت یا توسیع کا عمل، تاہم ان منصوبوں پر کام کی رفتار نہایت سست رہی۔
زیادہ تر ترقیاتی سرگرمیاں شہر کے پوش اور مرکزی علاقوں تک محدود رہیں، جہاں سڑکوں اور چوراہوں کی استرکاری اور تزئین پر توجہ دی گئی، جب کہ گنجان و کم آمدنی والے علاقوں، کچی آبادیوں اور گوٹھوں کے مسائل جوں کے توں رہے۔
ان آبادیوں میں گندگی، پانی کی کمی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کی بدحالی کا وہی پرانا منظر قائم رہا۔ گویا کراچی دو متضاد چہروں میں منقسم دکھائی دیا، ایک جدید، منظم اور پر آسائش کراچی، جس پر حکومت و اداروں کی توجہ مرکوز رہی، دوسرا وہ کراچی، جو متوسط اور غریب عوام کا ہے، جہاں زندگی دن بدن مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
انفراسٹرکچر میں بہتری: حکومت اور بلدیاتی اداروں نے اپنی سطح پر کچھ کوششیں ضرور کیں، تاہم ان کے نتائج شہریوں کو اس حد مطمئین نہیں کرسکے کہ وہ شہر کی بحالی کا احساس کر سکیں، کچھ مرکزی شاہراہوں کی توسیع، تعمیر نو اور مرمت کے منصوبے ضرور مکمل ہوئے، جب کہ چند انڈر پاس اور فلائی اوورز نے ٹریفک کے دباؤ میں کسی حد تک کمی کی۔ گلستانِ جوہر، کریم آباد مینا بازار اور دیگر مقامات پر انڈر پاس کی تعمیر کا کام جاری رہا۔
اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ الانا روڈ، جو گزشتہ پندرہ برس سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، بالآخر اس کی تعمیر ہوئی، اسے سابق میئر غلام علی الانا کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اسی طرح ضلعِ وسطی میں تین ہٹی کے مقام پر ایک انٹرچینج کی تعمیر کا آغاز ہو ا، جو لیاری ایکسپریس وے سے ٹریفک کے بہاؤ کو جوڑے گا۔ ایک ارب چالیس کروڑ روپے کی لاگت سے چھ کلومیٹر طویل یہ شاہراہ مکمل ہونے کے بعد ضلع وسطی سے آنے والا ٹریفک براہِ راست سہراب گوٹھ اور ماری پور آ جا سکے گا۔
اسی ضلع میں امیر خسرو روڈ اور اس سے ملحقہ سڑکوں کی بحالی، کا کام بھی جاری رہا۔ کورنگی کی یونین کونسل 35، وارڈز 1 اور 2 میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا گیا، جن میں 3 لاکھ مربع فٹ کنکریٹ بلاکس، 5 ہزار فٹ کریب بلاکس کی تنصیب، اور نئے مین ہولز کی تعمیر شامل ہے۔ بلدیہ کراچی نے اکتوبر 2025ء میں "میگا ڈیولپمنٹ اسکیمز" کےنام سے مختلف منصوبے شروع کیے، جن کی مجموعی لاگت تقریباً 90 کروڑ روپے بتائی گئی۔
ان کا مقصد شہری بہبود، بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور عمومی شہری ماحول میں بہتری لانا ہے، تاہم ان منصوبوں کی افادیت کا اندازہ ان کی تکمیل کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا ۔ کراچی کو تیز رفتار، محفوظ اور جدید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ تین اہم منصوبے، کورنگی کاز وے، شاہراہ بھٹو اور کریم آباد انڈر پاس صرف سڑکیں نہیں ہیں بلکہ شہر کی معیشت اور روزمرہ کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
توانائی اور اندھیرے: چند نئے پاور پروجیکٹس کے قیام سے بجلی کی فراہمی میں کسی حد تک بہتری ضرور محسوس کی گئی، مگر مسئلہ مکمل طور پر ختم نہ ہو سکا۔ بعض علاقوں میں پندرہ پندرہ گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ صارفین کے ساتھ اس سے بڑھ کر غیر مساوی سلوک اور کیا ہو سکتا ہے کہ جن محلّوں میں کچھ لوگ بل ادا نہیں کرتے، وہاں پورے علاقے کی بجلی بند کر دی جاتی ہے، جہاں کنڈا سسٹم رائج ہے وہاں کا بل بھی باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
صنعتی زونز میں توانائی کی فراہمی میں بہتری سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کچھ بحال ہوا، مگر شور و غوغا برقرار رہا۔ 2025ء میں شمسی توانائی (سولر انرجی) کے فروغ کے لیے سولر پارکس کے قیام اور پسماندہ علاقوں میں پینلز کی تقسیم کا سلسلہ جاری رہا، مگر یہ اقدامات اس قدر محدود تھے کہ ان کا اثر براہِ راست عوامی سطح پر محسوس نہ ہو سکا۔
حکومت کی جانب سے مختلف اعلانات بھی کیے گئے۔ مثلاً 300 یونٹ تک کے صارفین کے لیے ٹیکس میں نرمی یا چھوٹ کی تجاویز، لیکن سال کے اختتام تک شہری ان نعروں کے ثمرات سے محروم رہے۔ شمسی توانائی کے دعوے اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے بیشتر علاقوں میں تا حال روزانہ آٹھ سےبیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی رہی۔ وفاق اور صوبے کے درمیان بجلی کے بلوں پر سیاست ضرور ہوئی ، مگر شہری اندھیروں میں وعدوں کے انتظار میں وقت گزارتے رہے۔
پارکس اور تفریحی مقامات: اگرچہ مئیر کراچی مرتضی وہاب کے اعلان کے مطابق پانچ بڑے پارکوں کی تعمیر نو کی گئی تاہم تفریحی سہولتوں کی شدید کمی محسوس کی جاتی رہی۔ چائنا کٹنگ کے بعد تو صورتِ حال مزید ابتر ہو گئی۔ زمین ہی باقی نہ رہی کہ محلے کی سطح پر تفریح یا کھیل کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا جا سکے۔
ٹاؤن کی سطح پر چند چھوٹے پارکس اور کھیل کے میدانوں کی تعمیر نو پر کام شروع ہوا، جو گھریلو تفریح کے لیے خوش آئند اضافہ تھا۔ تاہم کوئی ایسا منصوبہ سامنے نہیں آیا جسے کراچی کے شایانِ شان کہا جا سکے۔ باغِ ابنِ قاسم اور سفاری پارک جیسے بڑے تفریحی مقامات کی بحالی کی کوشش ضرورکی گئی، مگر ان مقامات پر بھی تفریح کے بجائے کمرشل سرگرمیوں نے زیادہ جگہ گھیر لی۔ ساحلی پٹی پر صفائی مہم اور واک ویز کی مرمت سے شہریوں کو کسی حد تک سہولت ملی۔
پارکنگ فیس: 9فروری 2025ء کو مئیر کراچی، مرتضیٰ وہاب نے ایک پریس کانفرنس میں شہر بھر سے پارکنگ فیس کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ: "بلدیہ کراچی کے اکاؤنٹ میں دو ارب روپے سے زائد رقم ہے، لہٰذا شہریوں کی سہولت کے لیے پارکنگ فیس کی مد میں چار سے پانچ کروڑ روپے قربان کیے جا رہے ہیں۔" تاہم زمینی حقیقت اس کے برعکس رہی۔
بلدیہ کے اکاؤنٹ سے اگرچہ یہ رقم کم ضرور ہوئی، مگر شہریوں کی جیبوں سے بدستور وہی رقم نکالی جاتی رہی۔ جن 106 مرکزی سڑکوں پر واقع 46 پارکنگ سائٹس سے فیس ختم کرنے کا اعلان ہوا تھا، وہاں سال بھر 25 ٹاؤنز، 6 کنٹونمنٹ بورڈز اور بعض نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے پارکنگ فیس بدستور وصول کی جاتی رہی۔
تجاوزات: کراچی کی زمین، خواہ سرکاری ہو یا نجی، قبضہ مافیا کے لیے اب کوئی مشکل نہیں رہی اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ تاہم اس حوالے سے 2025ء میں ہولناک خبروں نے پورے نظام کو ہی ہلا کر رکھ دیا۔ ایک رپورٹ میں، چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ: "سندھ کی زمینوں میں بڑے پیمانے پر جعلسازی ہو رہی ہے، کراچی میں کھربوں روپے مالیت کی تقریباً 7500 ایکڑ زمین کے دستاویزات میں فراڈ کیا گیا ہے۔"
اس سے قبل کے ڈی اے کی اسکیمز کے پلاٹوں کی فائلوں یا ایس ٹی پلاٹ پر قبضہ یا بورڈ آف ریونیو کی زمین پر آبادی کی خبریں آتی تھیں مگر اب چیئرمین نیب کا بیان حیران کن ہے۔ بعد کی کوئی اطلاع نہیں کہ یہ زمینیں قابضین سے خالی کرائی گئیں یا مافیا سے کسی سطح پر مفاہمت کر لی گئی۔ اسی برس ایک اور رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کی 1448 ایکڑ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا جا چکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ KPT کی کل اراضی تقریباً 8644 ایکڑ ہے، جس میں سے 1098 ایکڑ پر اب بھی تجاوزات قائم ہیں، مزید یہ کہ وفاقی حکومت کی تقریباً 350 ایکڑ زمین پر خود سندھ حکومت قابض ہے۔ کراچی کی زمینوں پر جاری اس "خاموش لوٹ مار" پر، بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر اب صرف عمارتوں سے نہیں، ضمیر کے ملبے سے بھی بھرا جا رہا ہے۔
کراچی کی تعمیر یا تباہی: کراچی، میں عمارتیں بلند ،مگر زندگی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ اس پوری کہانی کا مرکزی کردار ایک ہی ہے، ’’غیر قانونی تعمیرات‘‘۔ ابتدا چند جھونپڑیوں سے ہوئی جنہیں ’’کچی آبادیاں‘‘ کہہ کر نظرانداز کیا گیا۔ بلدیاتی ادارے، بورڈ اور اتھارٹیز کی اپنی اپنی حدود ہیں، مگر ان حدود پر قبضہ کرنے والوں کے سامنے کوئی قانون مؤثر نہیں۔
لیاری سے گلستانِ جوہر اور کورنگی سے نارتھ ناظم آباد تک ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی پلاٹ، عمارت یا گلی "ریگولرائزیشن" کے انتظار میں ہے۔ یہ ریگولرائزیشن کا قانون دراصل اُن تعمیرات کو وقتی طور پر جائز قرار دینے کے لیے بنایا گیا تھا جو معمولی تکنیکی غلطی کے باعث قواعد کی زد میں آ گئی ہوں، مگر کراچی میں اس قانون نے ایک راستہ بنالیا ہے، پہلے تعمیر کرو، بعد میں رشوت اور فیس دے کر سرٹیفکیٹ لے لو، یوں شہر کی ہیئت ہی بدل گئی۔
اب بلڈرز "مافیا" بن چکے ہیں، اور ادارے خاموش تماشائی۔ تعمیر سے پہلے اجازت نہیں لی جاتی بلکہ بعد میں رعایت مانگی جاتی ہے۔ اور اس درمیانی عرصے میں افسران کی آنکھیں بند رہتی ہیں، جب معاملہ بےقابو ہو جائے تو، توڑ پھوڑ ہونے لگتی ہے۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق 2025ء میں بظاہر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف 1,450 آپریشنز کیے گئے۔
ایس بی سی اے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 22 مارچ سے 5 ستمبر تک 872 عمارتیں مسمار کی گئیں۔ 2020 سے اب تک 7,400 سے زائد غیر قانونی عمارتوں کے خلاف آپریشن ہوئے، سوال یہ ہے کہ، یہ تعمیر کیسے ہو ئیں اور یہ کام اب بھی کیوں جاری ہے؟
جو شہری قانون کے مطابق نقشے کی منظوری لیتے ہیں، اُنہیں مہینوں فائلوں کے لیئے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، جب کہ جو قانون توڑتے ہیں، وہ چند دنوں میں اجازت نامہ حاصل کر لیتے ہیں، یہی وہ المیہ ہے جو کراچی کے شہری ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ 2025ء میں بھی کئی غیر قانونی اسکیموں کو "انتخابی وعدوں" کے عوض قانونی شکل دینے کے احکامات جاری کیے گئے۔
یوں ریگولرائزیشن عوامی خدمت نہیں بلکہ سیاسی سرمایہ کاری بن گئی۔ ہر نئی حکومت نعرہ لگاتی ہے کہ "غریبوں کے گھروں کو مسمار نہیں کیا جائے گا"، مگر یہی نعرہ غیر قانونی تعمیرات کے تحفظ کا جواز بن جاتا ہے۔’’ نسلہ ٹاور‘‘ کی مثال آج بھی زندہ ہے، جب عدالت کے حکم پر غیر قانونی عمارت گرانے کے خلاف جلوس نکلے، حالاں کہ سب جانتے تھے کہ وہ عمارت قانون سے باہر تھی۔
نتیجہ یہ نکلاکہ کراچی کا شہری ڈھانچہ بگڑ چکا ہے۔ ٹریفک نظام، نکاسیٔ آب، پارکنگ اسپیس اور شہری سہولتیں سب اس بدنظمی کی نذر ہو چکی ہیں، فٹ پاتھوں، پارکوں، پلوں اور فلائی اوورز کے نیچے تا حال بے گھر افراد کا قبضہ برقرارہے۔
ماسٹر پلان: کسی بھی شہر کی منظم ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، مگر بدقسمتی سے کراچی میں ہمیشہ منصوبہ بندی کو نظرانداز کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلا ماسٹر پلان 1974ء میں تیار ہوا، مگر اس پر کبھی عمل نہ ہو سکا۔ یہی غفلت بعد ازاں کچی آبادیوں کے پھیلاؤ اور بے ہنگم تعمیرات کی شکل میں ظاہر ہوئی۔
آج صورت حال یہ ہے کہ کراچی دنیا کا ایک منفرد اور پیچیدہ انتظامی ڈھانچہ رکھتا ہے، جہاں بیک وقت 32 میونسپل سروسز، 23 لینڈ کنٹرول اتھارٹیز، اور 3 ڈیولپمنٹ ادارے سرگرم ہیں، جب کہ ڈیڑھ درجن سے زائد ادارے زمین کے معاملات پر بااختیار ہیں، اور اپنی اپنی حدود میں جو چاہیں کر گزرتے ہیں، وہ کسی ماسٹر پلان کے پابند نہیں۔
2025ء میں، جب عالمی اداروں نے کراچی کو ناقابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر شامل کیا، تو حکومتِ سندھ کو ایک بار پھر ماسٹر پلان 2047ء تیار کرنے کا خیال آیا۔ اس مقصد کے لیے ایک ارب ترانوے کروڑ تیس لاکھ روپے کے خطیر فنڈز مختص کیے گئے ہیں، اور اعلان کیا گیا کہ حکومتِ سندھ اس منصوبے کی براہِ راست نگرانی کرے گی۔
مجموعی طور پر 2025ء میں کراچی ایک ایسا شہر رہا، جہاں ترقیاتی منصوبوں اور شہری سہولتوں کی فراہمی میں حکومت نے جزوی کامیابیاں ضرور حاصل کیں، خصوصاً مرکزی شاہراہوں کی مرمت، ڈیجیٹل سہولتوں اور بجلی کی فراہمی وغیرہ، مگر بنیادی مسائل جوں کے توں رہے۔ حکومت نے شہر کے زخموں پر عارضی پٹیاں تو باندھ دیں، مگر مستقل علاج سے پہلو تہی کی۔ دیلھیں 2026 میں کراچی کیا رنگ بدلتا ہے۔