• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان کے صدر حامد کرزئی صاحب جب گزشتہ دنوں اسلام آباد تشریف لائے تو باہمی ملاقات و مذاکرات کے بعد اخبارات کی سرخیاں کچھ یوں نمایاں تھیں ”طالبان سے مذاکرات کیلئے کرزئی نے پاکستان سے مدد مانگ لی“ متن کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی اپیل پر وزیراعظم نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے ہر ممکن سہولت دیں گے“۔ خبر کے مطابق مہمان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ”میں بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ اسلام آباد آیا ہوں، پاکستان، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کرے“۔ مدد کی اپیل اور اس کے جواب میں پاکستانی یقین دہانی سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان طالبان کو امن مذاکرات کیلئے راضی کرنے کی مطلوبہ استعدادکار کا حامل ہے، بصورت دیگر یا تو صدر کرزئی کو اس طرح کی اپیل کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور اگر وہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ایسی اپیل کر بھی لیتے تو پاکستانی وزیراعظم اپنی وضاحت اور اس حوالے سے معذوری ظاہر کر کے صدر کرزئی کی غلط فہمی دور کردیتے…
ہم چونکہ ان سطور میں خطے کے مسائل کے حوالے سے پاکستان و افغانستان کے کردار کو زیر بحث لانا نہیں چاہتے لہٰذا اس نکتے کو یہی منجمد کرتے ہوئے آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے کہ جب افغانستان اس حوالے سے یکسو اور دو ٹوک موقف رکھتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان ہی سہولتیں فراہم کرسکتا ہے تو پھر پاکستان خود اپنے ہاں کے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے یکسو کیوں نہیں اور مخمصے کا کیوں شکار ہے!!ایک سیدھا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ حامد کرزئی تو ان افغان طالبان کی بات کررہے ہیں جو امریکہ و افغان حکومت سے لڑ رہے ہیں اور چونکہ وہ پاکستان کی بات کی لاج رکھتے ہیں اس لئے حامد کرزئی پاکستان کی مدد کے خواستگار ہیں جبکہ پاکستانی طالبان پاکستانی فوج سے برسرپیکار ہیں اس لئے مخالف قوت ہونے کے سبب پاکستانی حکومت اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے!! اب اس طرح کے دیگر متعدد جوابات و تاویلات ہو سکتی ہیں لیکن سرا پھر بھی اس مخمصے سے بندھا ہوا ملے گا کہ ایک طرف طالبان نامی تنظیم ہماری اس قدر ہمنوا ہے کہ افغان صدر لاکھ اختلافات رکھنے کے باوجود ہم سے مدد لینے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف ہم ایسے مجبور کہ ہزاروں پاکستانیوں کی لاشوں کو دفناتے دفناتے تھک جانے کے بعد بھی ہماری سمجھ میں یہ بات نہیںآ تی کہ پاکستان میں اپنی قوت کا برہنہ مظاہرہ کرنے والے طالبان کون ہیں!! اور یہ کن کے ہمنوا یا آلہ کار ہیں جن کے توسط سے انہیں مذاکرات کی میز پر لایا جائے!!
یہ بات عام ہے کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کے استاد ہیں اور یہ کہ خطے میں پھیلے تمام طالبان ملّا عمر کی سربراہی پر متفق ہیں… اگر ایسا ہے تو جب پاکستانی طالبان کے استاد یعنی افغان طالبان کی حمایت کیلئے افغان صدر کو پاکستان کی جانب سے یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے تو انہی افغان طالبان کے ذریعے پاکستان کیلئے پاکستانی طالبان کو راضی کیوں نہیں کیا جاسکتا!! بعض اصحاب کہتے ہیں کہ پاکستانی طالبان اس لئے پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ان کا موقف ہے کہ چونکہ پاکستان افغان طالبان کیخلاف امریکہ و نیٹو کو سہولتیں فراہم کررہا ہے اور یہ کہ پاکستان ہی کے راستے نیٹو کو سپلائی بھی جاری ہے اس لئے وہ پاکستان مخالف کارروائیاں کرتے ہیں… یہ دلیل بھی اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ دونوں طالبان ایک دوسرے کے معاون ہیں… یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان پر امریکی مظالم کے ردعمل میں پاکستان میں پاکستانی طالبان کا ردعمل اس بنا پر ہے کہ پاکستان ظالم کے ساتھ کھڑا ہے!! یعنی ہر زاویہ سے ان دونوں طالبان تنظیموں کے مابین ایک تعلق کسی نہ کسی طور ثابت ہوتا ہے۔ بعض واقفان حال بتاتے ہیں کہ طالبان کے ایک دو نہیں32 گروپ ہیں، جو مختلف اہداف رکھتے ہیں، ان میں وہ گروپ بھی شامل ہیں جو غیر ملکی مقاصد کیلئے بروئے کار آتے ہیں، بے قصور انسانوں کو بارود کی خوراک بنانے والے واقعات ایسے ہی گروپوں سے جوڑے جاتے ہیں… یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان اہداف ہی کو نشانہ بناتے ہیں اور آبادی کے بجائے غیر ملکی یا افغان سرکاری کارندے، املا ک اور ساز و سامان کو نقصان پہنچانا ہی ان کا مشن ٹھہرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں صورتحال اس کے قطعی برعکس ہے، اس لئے ابہام بھی زیادہ ہے۔
طالب علم کے ذہنی انتشار میں آئے روز اس لئے بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے کہ ایک تو ہر اختیار مند مسئلے کے حل سے فرار کیلئے حیلے بہانے کی تلاش میں نظر آتا ہے اور پھر جب طالبان مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو اور تو اور منور حسن صاحب جیسے جہاندیدہ اور طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے سیاست دان تک واضح موقف اختیار کرتے ہچکچاتے ہیں تو پھر ہم جیسے کج فہموں کے خیالات کس قدر پراگندہ ہوں گے اس کا اندازہ لگانا شاید مشکل نہ ہو۔ چار جماعتیں مسلم لیگ (ن) جے یو آئی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی طالبان کی ضامن کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان کے خیالات بھی باہم ایک نہیں، اب جناب منور حسن کے اس بیان کو ہی لے لیجئے جن کی پریس ریلیز ان کے میڈیا سیل نے جاری کی ہے اس میں منور حسن نے کہا ہے کہ ”طالبان کی طرف سے ہمیں ثالثی کی جو پیشکش کی جارہی ہے اس کا ایجنڈا واضح ہونا چاہئے کیونکہ ہم بااختیار نہیں ہیں، البتہ طالبان ہمارے ذریعے کوئی اخلاقی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں یا جو بھی ان کا ایجنڈا ہے واضح کیا جائے“۔ اب ایجنڈا تو کوئی ایسا راز نہیں ہوتا جو سات پردوں میں چھپا کر رکھا جاتا ہے اور جسے مذاکرات کے روز اچانک سامنے لے آیا جاتا ہے بلکہ یہ کسی تنظیم، جماعت یا شخص کے قول و فعل سے ہر وقت نمایاں ہوتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے طالبان کا ایجنڈا بھی ان نکات و امور پر مشتمل ہوگا جس کا اظہار وہ گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں یعنی یہ مطالبات، مقاصد، ترجیحات و خواہشات پر مبنی ہی ہوتا ہے، اب ہر کوئی طالبان کے ایجنڈے سے یوں آگاہ ہے کہ وہ ہر لمحے اس کے پرچارک ہیں… یہی وجہ ہے کہ کوئی ان سے متفق ہے اور کوئی مخالف، اور اسی تناظر میں مذاکرات کی حمایت و مخالفت کی جارہی ہے۔ عمومی طور پر دائیں بازو والے طالبان کے حامی اور بائیں بازو والے مخالف گردانے جاتے ہیں، لیکن مذاکرات کے دونوں حامی ہیں۔ یہاں تک کہ مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرنے کی خاطر جے یو آئی سے بھی پہلے اے این پی نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مذاکرات وہ وسیلہ ہیں جن سے امن کے حصول کے امکانات وابستہ ہوتے ہیں اور پھر مذاکرات کی حمایت اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ ضروری نہیں کہ اس میں صرف اس فریق کی ہی تمام باتیں مانی جائیں جسے مذاکرات کی میز پر لایا گیا ہو بلکہ مذاکرات کا عمل اس سنجیدگی کا متقاضی ہوتا ہے کہ ایک بڑے مقصد کی خاطر چھوٹے چھوٹے مقاصد فراموش کردیئے جائیں، لچک، قربانی اور ملک و ملت سے محبت ہی مذاکرات کی کامیابی کی راہ کو روشن رکھتے ہیں۔ بہرکیف جیسا کہ کہا گیا کہ ہر سو ابہام ہی ابہام ہے لیکن معاملہ جس قدر بھی گمبھیر و مشکل ہو، ریاست خود کو اس کے حل کی تلاش سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی، طالبان کو پیپلزپارٹی کی حکومت پر اعتماد نہیں تھا لیکن موجودہ حکومت کیلئے اس نے انتخابات سے قبل ہی دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھے لہٰذا آنے والے شب و روز یہ پیغام لائیں گے کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی پر طالبان کا اعتماد محض ان جماعتوں کے مخالفین کو شکست فاش سے دوچار کرنے کیلئے تھا یا یہ اعتماد خون آلود پاکستانی سرزمین پر، پُراعتماد پُرامن فضا کے قیام کیلئے بھی باعث اعتماد ٹھہرے گا۔
تازہ ترین