• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میروں، پیروں اور کھجوروں کا دیس ’’خیر پور‘‘

سندھی کہاوت ہے ’’خیرپور میں خیر‘‘ ویسے اسے میروں، پیروں اور کھجوروں کا دیس بھی کہا جاتا ہے اس لئے کہ یہاں کے تالپور حکمران خود کو میرکہلواتے تھے کھجور یہاں کی مشہور فصل ہے اور گمبٹ، پیرگوٹھ، کھوڑا، درازہ، رانی پور کی درسگاہیں اپنے پیروں کے حوالے سے معروف ہیں۔ بالخصوص حضرت سچل سرمست جو شاعر ہفت زباں معروف ہونے کے ناطے دنیا بھر میں پاکستان اور ارض مہران کی شناخت ہیں۔ 

کلہوڑہ حکمرانوں سے ان کے جرنیلوں نے جوتالپور تھے حکومت چھینی تو سندھ کو تین ریاستوں میں منقسم کیا ۔اوّل حیدرآباد، دوم خیرپور اورسوم میرپورخاص، ڈیرہ غازی خان کے راستے سندھ آنے والے تالپورابتداً سندھ کے کلہوڑہ حکمرانوں کے لشکر کا حصہ تھے اور میر شہداد تالپورجس کے نام پر شہداد پورکا شہرآباد ہے تالپور کا سپہ سالارتھا۔ بعد کے ادوار میں اختلافات ہوئے اورہالانی کا معرکہ کلہوڑہ اقتدار کا خاتمہ کرگیا جس کے بعد کلہوڑہ بہاولپور میں جابسے اور وہاں بہاولپور کی عباسی سلطنت کی بنیاد رکھی سندھ میں حیدرآباد کے تالپور شہدادانی، میرپورخاص کے مانکانی اور خیرپور کے سہرابانی کہلاتے تھے ۔

سندھ کے تالپور آزاد ہونے کے دعوے کے باوجو کابل کے باجگزار تھے اورباقاعدہ خراج ادا کیا کرتے تھے۔ شاہ شجاع حاکم کابل کا خوف دلا کرہی انگریزوں نے سندھ کے تالپور حکمرانوں سے مراعات اوررعایات حاصل کی تھیں ایک انگریز مورخ نے سندھ پر قبضے کے بعد جب روزنامچہ تحریر کیا تو سندھ کی آبادی دس لاکھ بتائی اس کے اندازے کے مطابق حیدرآباد 35 ہزار اور شکارپور جو اسی زمانے میں بڑا خوبصورت اورتاریخی شہر ہواکرتا تھا، 22 ہزار نفوس پرمشتمل تھا۔ 

اس نے سندھ کو پسماندہ ریاست بتایا اور یہاں تک لکھا کہ برطانوی نوآبادیات میں سب سے پسماندہ سندھ ہے۔ تالپور حکمرانوں نے جن کی زبان فارسی تھی، سندھی رسم الخط تک طے نہ کیا تھا وہ باہم سرائیکی، گھروں میں بلوچی بولتے اور کاروبار مملکت فارسی میں چلاتے۔ سندھی کو عربی رسم الخط برطانوی عہد میں ملا ،حالانکہ سندھ کے ہندو چاہتے تھے کہ اسے گورمکھی میں لکھا جائے۔ 

تالپور سندھ پرکم و بیش 60 برس حکمران رہے اور 1843ء کے معرکہ میانی میں تالپوروں کی حیدرآباد سرکار ختم ہوئی اور بعد کے چند برسوں میں میرپور خاص سلطنت کا خاتمہ ہوا ،اس سے قبل 1839ء میں انگریز کراچی پرغلبہ پاچکے تھے اوراسے سندھ کا دارالسطنت بناچکے تھے جو تالپور دور میں حیدرآباد تھا خیرپور ریاست نے البتہ اپنا وجود برقرار رکھا اور قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ کی تشکیل کے وقت تحلیل ہوئی۔

ریاست خیرپورکی بنیاد تالپوروں نے ہی رکھی تھی اس کے پہلے حکمران میرسہراب خان تالپور تھے جنہوں نے 1783ء سے 1811ء تک زمام اقتدار سنبھالی جب کہ میر رستم خان تالپور نے 1811ء سے 1843ء تک حکومت کی ان کے بعد علی مراد سربراہ ریاست مقرر ہوئے اور 1843ء سے 1894ء تک حکمرانی کی۔ بعدازاں میرفیض محمد تالپور سریرآرائے سلطنت ہوئے اور 1894ء سے 1909ء تک حکمران رہے۔ 1909ء میں میرامام بخش تالپور نے تاج حکومت پہنا اور 1921ء تک راج کیا۔ 

ان کے بعد میرعلی نواز نے 1935ء تک اور میرفیض محمد ثانی نے 1947ء تک حکمرانی کی۔ 1947ء میں میرعلی مراد تالپور نے تخت شاہی سنبھالا اور 1955ء یعنی ریاست کے پاکستان میں انضمام تک والی رہے۔ ان کی شادی ممتاز عالم دین علامہ رشید ترابی مرحوم کی صاحبزادی ایلیا خاتون سے ہوئی جو ہر ہائینیس بیگم صاحبہ ایلیا تالپور کہلاتی تھیں، ان کا انتقال 2019ء میں ہوا تھا۔ ان کے صاحبزادے میر عباس رضاتالپور اور میرمہدی رضا تالپور بھی سماجی طورپر معروف شخصیت تھے۔ 

خیرپور اسٹیٹ کا مونوگرام سرخ، سنہری اورسبز رنگوں پر مشتمل تھا جس میں سنہری تاج، دو ہرن سبز کھجور کا درخت اور درمیان میں ریاستی نشان پر مچھلیاں نقش تھیں۔ برصغیر کی دیگر ریاستوں کی طرح خیرپورکی ریاست نے بھی 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ خیرپور کے حکمرانوں کو پندرہ توپوں کی سلامی کا اعزاز میسر تھا اورایڈورڈ ہفتم 1875ء میں ہندوستان آئے تو 1877ء کے دہلی دربار میں میرعلی مراد تالپور اول بھی موجود تھے اور 1991ء کے شکارپور دربار میں میرصاحب کو 19 توپوں کی سلامی دی گئی اور نائٹ گرینڈ کراس آف دی انڈین ایمپائر کے خطاب سے نوازا گیا اور ’’سر‘‘ کا اعزاز ملا۔ میرصاحب کی چار بیگمات میں سے ایک بہاولپورکے عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ میرعلی مراد تالپور کا انتقال ہوا تو ان کی میت بذریعہ سمندری جہاز کراچی سے کربلائے معلیٰ بھیجی گئی اور وہیں سپردخاک ہوئے۔

خیرپور ریاست میں رانی پورکی درگاہ غوثیہ کے سجادگان حضرت غوث پاک کی اولاد ہیں۔ درازہ شریف کے حضرت سچل سرمست کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے تو پریالو کے مخدوم گ صاحبان،مبٹ کے سجاد گان، پیرگوٹھ کے پیران پاگارہ سید النسل ہیں اور کھوڑہ کے مخدوم صاحبان ہاشمی کہلاتے ہیں ۔ ان تمام خانقاہوں کا سندھ ہی نہیں بلوچستان اور پنجاب سمیت اطراف واکناف میں احترام کیا جاتا ہے۔ سیاسی طور پر بھی یہ خانوادے مستحکم ہیں۔ قلعہ کوٹ ڈیجی موجود ہے جسے پہلے تالپورحکمران سہراب خان نے تعمیر کرایا تھا۔ 

انہوں نے صحرائے تھر میں قلعہ امام گڑھ اور جودھپور جیسلمیر کی سرحد پر قلعہ شاہ گڑھ بھی بنوایا تھا تاکہ ریاست کی حفاظت ہوسکے۔ قومی شاہراہ اور کراچی پشاور ریلوے لائن بھی ریاست خیرپور کی حدود سے گزرتی ہے۔ ریاست کے مشہور شہروں میں سے ایک کوٹ ڈیجی بھی ہے جو سہراب تالپور کے عہد میں ریاستی دارالحکومت بھی رہا۔ 1854ء میں ریاستی نظم و نسق خیرپور منتقل ہوا اور یہاں فیض محل، دلشاد منزل سمیت متعدد تاریخی عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ کوٹ ڈیجی میں قلعہ اور تاریخی قیدخانہ بھی ہے ۔

سندھ میں تالپوروں کو میر کے لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے جبکہ دیگر بلوچ قبائل اپنا سابقہ رئیس لکھتے اورکہلواتے ہیں۔ میروں کی حکومت کو ’’صاحبی‘‘ کہا جاتا تھا۔ خیرپور کا فیض محل ایک لاکھ روپے کے صرفہ سے تعمیر ہوا تھا اس لئے لکھی محل یا لکھی بنگلہ بھی کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں اس کا رقبہ ابتداً تیس ایکڑ تھا جواب بمشکل نصف رہ گیا ہے۔ میرعلی نواز خان ناز نے ہائی اسکول بھی اسی محل میں تعمیر کرایا تھا جسے ناز ہائی اسکول پکارا جاتا ہے۔ 

رانی پور پیرجوگوٹھ، گمبٹ، کھوڑہ، ٹھری میرواہ، ہنگورجہ اور پریالو کے مشہور شہرو قصبے بھی اسی ضلع میں واقع ہیں، پریالو کی ایک وجہ شہرت یہاں واقع عطر بیز خوشبو بکھیرتے گلاب کے پھولوں کے باغات بھی ہیں دوسرے سندھی لوک گلوکار عبدالرحمٰن مغل کی جائے پیدائش بھی یہی شہر ہے وہ ٹریفک کے حادثہ میں ٹھٹھہ کے قریب انتقال کر گئے تھے لیکن اپنے آبائی شہر میں آسودہ خاک ہیں۔ ایک قصبہ کھین واری بھی ہے جو پیرسورہیہ بادشاہ کی حرموومنٹ میں اہم مرکز رہا۔ قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری بھی بطور درباری شاعر خیرپور ریاست سے وابستہ رہے۔

انسائیکلوپیڈیا سندھیکا کے مطابق ریاست کا رقبہ پانچ ہزار مربع میل اور آبادی کم وبیش دو لاکھ تھی۔ بیشتر علاقے شکارگاہیں تھیں کیونکہ تالپوروں کو شکار سے شغف تھا۔ وہ شکار کی تلاش میں خیمہ زن ہوتے، مچان لگاتے اور پھر ہرنوں، خرگوشوں و دیگر جانوروں کوشکار کرتے۔ ان کا زیادہ وقت شکار میں ہی گزرتا تھا۔ خیرپور کے محلات میں اب حکمراں ہیں نہ درباری، البتہ ان عمارتوں سے جاہ و جلال ٹپکتا ہے۔ 

خیرپور آج بھی سندھ کے بڑے اضلاع میں سے ایک ہے۔ سندھ کے تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہنے والے قائم علی شاہ ہوں یا ایک ایک بار اس منصب پر براجماں ہونے والے غوث علی شاہ اور علی مدد شاہ یا پھر کئی عشروں تک بادشاہ گر کے طور پر زندگی بسر کرنے والے مرحوم شاہ مردان شاہ ثانی پیرسکندر علی شاہ پیرپگارہ کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔ جو ماضی میں ریاست تھا۔ اونچی عمارتوں، کشادہ حویلیوں اور پُرپیچ گلیوں والا ریاستی تشخص کا حامل شہر کیا تھا کیا ہوگیا۔