• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مری میں انتظامی نااہلی کے ہاتھوں 23افراد کے ’’قتل‘‘ اور ہزاروں برف محصورین میں سے شاید کسی ایک بھی متاثرہ فریق کے بیان کو بھی انکوائری میں شامل نہیں کیا گیا۔ سانحہ مری پر ہونے والی انکوائری رپورٹ کی فائل میں انہی ہوٹل مالکان اور مقامی افراد کو بڑے وثوق سے سنا گیا جو کسی نہ کسی شکل میں شریک جرم رہے۔ ’’وہ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے‘‘۔ مری کے تاجر اور سول سوسائٹی کے لوگ کبھی بھی حقائق سے پردہ نہیں اٹھائیں گے کیونکہ جو قیامت ہم پر بیت رہی تھی اسے بطور عینی شاہد ان سے زیادہ میری دس سالہ بیٹی بیان کر سکتی ہے۔ جسے دو دن گاڑی میں گزارنا پڑے۔ جو مرحلہ وار موت کو قریب سے قریب تر دیکھتے ہوئے فوت ہو گئے، جن کی میتیں تدفین کے لیے آبائی علاقوں میں بھجوائی گئیں، ان کے لواحقین کا بھی کوئی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

انکوائری کمیٹی نے بہت سی چیزیں فرض بھی کی ہوں گی مگر ہر بار مفروضے درست ثابت نہیں ہوتے۔ ریسکیو 1122کے ریکارڈ سے جانچا جا سکتا تھا کہ انہیں سات اور آٹھ جنوری کو جو فون کالز موصول ہوئیں ان پر رسپانس کیوں نہ دیا گیا۔ محکمہ ہائی ویز کے لوگ ایمرجنسی پیغامات کیوں نظر انداز کرتے رہے۔ ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسروں کے موبائل فونوں پر برف کی قبر میں دفن ہونے والوں کی آخری ہچکی سنی جا سکتی تھیں۔ 15افسروں کی معطلی ناکافی سزا ہے۔ لاپروا افسروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جاتے، فرائض سے غفلت کی وہ دفعات لاگو کی جاتیں جو تعزیراتِ پاکستان میں صرف پڑھنے کے لیے رہ گئی ہیں۔

مرحوم اے ایس آئی کے رشتہ دار ضلعی انتظامیہ کو اس کے بچوں کی آخری سانسیں تک بذریعہ وٹس ایپ سنواتے رہے اور افسرانِ بالا اپنے فون خاموش کرکے گرم لحافوں میں نرم خواب دیکھتے رہے۔ محکمہ موسمیات نے برفانی طوفان کی خبر کو رد کرکے اسے معمول کی برف باری کی رپورٹ جاری کی ہے۔ مری کو آفت زدہ قرار دینے والے موسم کو نہیں انتظامی بےحسی کو آفت لکھیں تو اچھا ہو۔ آفت ایسی ہوتی ہے جس میں صرف راہ گیر مارے جائیں؟ آفت تو سب کے لیے برابر ہوتی ہے مگر مری میں تو لوٹنے والے اور لٹنے والے الگ الگ تھے، مارنے والے اور مرنے والے بھی مختلف تھے۔ انکوائری غیرتسلی بخش ہوئی اور ملوث ملزمان پر سزا اس سے بھی غیرتسلی بخش۔

رپورٹ سے معلوم ہوا کہ سب متعلقہ محکمے سوئے ہوئے تھے۔ کسی نے اپنا کام نہیں کیا، رپورٹ ملتے ہی وزیراعلیٰ نے ان سب کو عہدوں سے ہٹا کر فارغ کر دیا اور داد وصول کرنے کے لیے عوام کی جانب دیکھا مگر جو حشر ہمارے ساتھ ہوا، ہم مطمئن نہیں ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات، ریسکیو 1122اور ہائی وے کا محکمہ بھی انتہائی غفلت کے مرتکب ہوئے، کسی نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی، افسران واٹس ایپ پر ہدایات چلاتے رہے، صورتِ حال سمجھ ہی نہ سکے۔ کئی افسر نے اپنے واٹس ایپ میسج بھی تاخیر سے دیکھے۔ سانحہ مری کی رپورٹ کے مندرجات سامنے آگئے، جس میں تمام متعلقہ محکموں کی غفلت ثابت ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کمشنر، ڈی سی، اے سی سب کو غفلت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سی پی او، سی ٹی او بھی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے، محکمہ جنگلات، ریسیکیو 1122کا مقامی آفس بھی ڈیلیور نہ کر سکا۔ کسی درجہ چہارم کے سرکاری اہلکار کے منہ پر تھپڑ مارنے والے تو کارِ سرکار میں مداخلت کے مقدمے میں جیل جاتے ہیں اور ہزاروں افراد کی زندگیوں کو قربت موت میں رکھنے اور دو درجن انسانی جانوں کے ضیاع کے مرتکب ریاستی غافلوں کو بس چند روز کی معطلی کا انعام دیا گیا۔ جان سے جانے والوں کے لواحقین تو ایک طرف دو دن موت کی آغوش میں گزارنے والے میرے تینوں بچے بھی معطلی جیسی بےضرر سزاؤں پر مطمئن نہیں۔ ایک ستم کے بعد انکوائری رپورٹ پر یہ سزائیں متاثرین مری کے ساتھ دوسرا ظلم ہے۔ اگر سرکاری ذمہ داریوں سے غفلت برتنے والے افسران اور ملازمین کو کم از کم فوجداری سزائیں دے دی جاتیں تو آئندہ کے لیے محتاط رویہ سامنے آتا۔ ہم کسی بھی واقعہ سے سیکھتے نہیں بس انکوائری رپورٹس کے مواد سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن کو مختلف درجہ بندی کے کرایوں پر پابند کر لیا جائے تو بھی اس سانحے کی کوکھ سے حاصل ہونے والا سبق کافی ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین