آئیں! ہم سب پاکستانی، کیا حکومت و اپوزیشن اور کیا عوام و خواص بنے اور بنتے منظر پر لکھی اس واضح حقیقت کو پڑھ لیں، اور سمجھ کر قومی زندگی میں اپنے اپنے رویے کو بمطابق ڈھال لیں۔ ہے موجود بلیم گیم میں آساں تو نہیں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔نوشتہ دیوار ہے کہ ’’پاکستان کے سنگین اقتصادی بحران، سیاسی انتشار اور داخلی سلامتی کے چیلنجز سے نپٹنے اور عوام کی خوشحال اور ترقی جاریہ ہی نہیں چھلانگیں لگاتی مجموعی بہتری کے یقینی حاصل کے تمام راستے ہمارے امور خارجہ میں سمٹ گئے ہیں ۔ان ہی کو آئیڈیل حد تک اختیار کرکے تشکیل پذیر خطے کی صورتحال سے بہت کچھ حاصل ہونا مکمل عیاں ہے ۔ اس میں بنی اور بڑھتی پاکستان کی ہمسایوں اور طاقتور پرانے نئے دوستوں کے لیے اہمیت نے ہمیں جاری گھمبیر بحران سے نکلنے کے سازگار مواقع فراہم کر دیئے ہیں ۔چھوڑیئے یہ زور لگانے پر کہ موجودہ خستہ حالی کا ذمے دار کون اور موجود حکومت کتنی ناکام و نااہل ہے ۔ابتلا و ابتری میں تو عوام ہیں ہم سب علانیہ نہ سہی غیر علانیہ ہی اپنے اپنے رویے میں تبدیلی لاکر بہت کچھ نہیں سب کچھ وہ کرسکتے ہیں جو قوم و ملک کے لیے بہتر ہے۔ فوکس ساز گار حالات اور بنی کیش سچویشن سے فائدہ اٹھانے پر اعتراف و اتفاق کو کر لیں ۔ہم اورچین لازم و ملزوم اور طویل مستقبل کے لیے ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں۔ پاکستان کی فقط جیو پولیٹکل اور جیو اکنامیکل پوزیشن و لوکیشن ہی نہیں، ہماری دفاعی صلاحیت بہترین اور نتیجہ دینے والے اتحادی کے طور ثابت شدہ حقیقت ہے۔ہمیں خود شناسی میں جاکر اپنا اصل بتانا اور جتانا ہو گا۔ تفصیلات و تجزیہ تو آنے والے ’’آئین نو‘‘ میں کیا جائے گا ۔آج کی CONSUMPTIONکیلئےیہ کہ وزیر اعظم عمران کا دورہ چین بہت ثمرآور نکلا ہے۔پاکستان میں جدید زراعت و صنعت کا انقلاب اس میں چھپا ہوا ہے۔ یقین جانیے قدرت بہت مہربان نظر آ رہی ہے، اپوزیشن خود کو مظلوم و مقہور ہی نہ ثابت کرے دعوئوں کے مطابق وہ حکمران بھی بن سکتی ہے اور حکومت بھی اب اپوزیشن کو بے اثرو بے ثمر بنائے رکھنے پر سارا زور نہ لگائے مل کر ملک چلانے کی صورت نکالنے کے مواقع ہیں ، سوچیں ! اپنے اپنے کردار صورتحال کے مطابق انجام دیں۔
کرپشن: ’’ٹرانسپیرنسی انڈیکس‘‘، حقیقت نہیں تاثر!
(گزشتہ سے پیوستہ)
عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے انقلاب، جو حقیقت میں اختراع کی اختیاریت کی تیز ترین شکل ہے، نے ترقی پذیر ممالک کے بڑے حصے میں بھی مین اسٹریم الیکٹرونک میڈیا پر سرکاری اجارہ داری ختم کر دی ہے۔ آئی ٹی کے جادو نے عالمی سطح کے WHISTLE BLOWERSپیدا کیے ۔یوں انڈر ورلڈ کے خلاف ایک بڑی اور نتیجہ خیز مزاحمت ممکن ہو گئی ۔اب اس پر قابو محال ہوتا جا رہا ہے عالمی مالیاتی نظام بوقت ضرورت منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کی بیمار ملکی معیشتوں کی مانیٹرنگ کرتا اور نوٹس تو لیتا رہا، لیکن اس کے ترقی پذیر ممالک کو قرض دینے اور وصول کرنے والے IMFجیسے ادارے پھر ان کے بھی FATFجیسے ذیلی ادارے مکمل سیاسی فنکاری سے غریب ملکوں کے کرپٹ حکمرانوں کے کالے دھندے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے فری ہینڈ دیئے ہوئے ہیں، تبھی تو قرض پہ قرض لینے اور عوامی خزانے پر ڈاکے ڈالنے کی دیدہ دلیری اور معیشت کو جعلی سہارا دینے اور مزید قرض کڑی شرائط پر لینے کی ضرورت لازم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان اداروں اور مالیاتی نظام کی حیثیت بطور پولیٹکل پریشرانسٹرومنٹ کی بھی بنتی گئی جس کا بری طرح شکار اب پاکستان بنا ہوا ہے ۔ ترقی پذیر ممالک سے اس چیرہ دستی کا الزام فقط عالمی مالیاتی ادارروں پر ہی نہیں ڈالا جا سکتا، اس سارے عالمی دھندے کے اصل مجرم غریب ملکوں کے اپنے کرپٹ حکمران ہیں ۔
بینک، جی ٹوئنٹی اور اقوام متحدہ تک سے جا کر مل جاتے ہیں، تبھی تو یہ عالمی مالیاتی نظام کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ 2005میں قائم ہونے والے اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر تو برلن میں ہے لیکن قائم اسے ورلڈ بینک کےسابقہ ڈائریکٹروں نے کیا۔ اس کے پاس ترقی پذیر ممالک میں ہونے والی قومی خزانے کی لوٹ مار کو ماپنے اور مکمل ثابت کرنے کا کوئی مکمل قابلِ قبول ریسرچ میتھڈ نہیں لیکن مانیٹر کے طور پر اس نے اپنا بھرم کمال فن کاری سے قائم کیا ہوا ہے۔ یہ اپنی مانیٹرنگ کو خود حقیقت نہیں مانتا بلکہ کرپٹ ملکوں میں وہیں کے شہریوں سے ’’واضح تاثر‘‘ کی بنیاد پر ہی معلومات جمع کرکے جو پبلیکشنز سالانہ بنیاد پر تیار کی جاتی ہے اس کا نام ’’کرپشن پرسیپشن انڈکس‘‘ ہے۔ کمیونیکیشن اور پولیٹکل سائنس ان دو باڈیز آف نالج اور عام لسان میں بھی PERCEPTION ثابت شدہ حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ تاثر، زاویہ نگاہ، کسی فرد یاگروپ کی اپنی ہی انڈراسٹینڈنگ یا ذہنی تصویر ہوتی ہے جو دوسروں سے مختلف بھی ہوسکتی ہے بلکہ بالعمومل مختلف ہی ہوتی ہے۔واضح رہے کہ ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جس سالانہ پبلی کیشن میں پاکستان کے کرپشن کی فہرست میں 13درجے بڑھ جانے کا مژدہ دنیا کوسنایا گیا ہے۔ اس کا ٹائٹل ہے’’ کرپشن پرسیپشن انڈکس‘‘ یعنی اسکا اپنی پبلیکیشنز کو خود ہی PERCEPTION ماننادرجہ بندی کی صحت کو مشکوک اور متنازعہ بنا دیتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے کرپشن میں 13 درجے کا سالانہ اضافہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں خصوصاً اتار چڑھائو کی پیمائش ملکی باشندوں کی ٹیم پر چھوڑنے سے یہ مکمل ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔
حیرت یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی کی اس پبلیکیشن کو پاکستانی اپوزیشن ہاتھ لگے بڑے موثر پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر تو استعمال کررہی ہے، لیکن حکومت میں ترجمانوں کی بھرمار میں بھی کوئی نہیں جانتا کہ PERCEPTION، رئیلٹی نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کا الٹا سیدھا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ ملکی ٹی وی ٹاک شوز میں بیان کئے مبینہ حقائق کے مطابق پاکستان میں ٹرانسپیرنسی کی ٹیم 8فارن فنڈڈ این جی اوز اور سابق حکمرانوں سے قربت والے کچھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ معاملہ سیاسی سے زیادہ اور حکومت و اپوزیشن کی تائید و مخالفت سے زیادہ شفاف اور بااعتبار اپنے مانیٹرنگ نظام کے قیام کی طلب کو واضح کرنا ہے۔ جو آنے والی ہر حکومت اور ہر اپوزیشن کی سیاسی سے کہیں زیادہ ملکی نظامِ ریاست کی اہم انتظامی ضرورت ہوگی۔