• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کی باتوں میں، کسی کی یادوں میں بسا ’کراچی چڑیا گھر‘

کراچی چڑیا گھر شہر کا قدیم ترین ہے، جو کراچی کے ہر شہری کی یادوں میں رچا بسا ہے، ہر شخص اپنے بچپن یا لڑکپن میں ایک بار ضرور چڑیا گھر گیا ہوگا اور وہاں کی کوئی نہ کوئی خوشگوار یاد اس کی زندگی کا حصہ ہے، بچپن میں چڑیا گھر جانے والے افراد سےاس کا تذکرہ کیا جائے تو وہ چڑیا گھر کی پوری داستان سناتے ہیں۔ کسی کی یادوں میں ،کسی کی باتوں میں وہاں کا مغل گارڈن، ممتاز بیگم، مچھلی گھر، سانپ گھر، وہاں کے جانور، وہاں کے پرندے، ہاتھی پر سوار ہو کر چڑیا گھر کی سیربسی ہوئی ہے۔

شیر، ہاتھی ،زیبرا، گینڈا اور ذرافہ جیسے بڑے جانوروں کی حرکات و سکنات سے ہر شخص اپنے بچپن میں محظوظ ہوتا رہا ہے، کراچی چڑیا گھر میں لگے ہوئے پیتل کے شیر وں پر بیٹھ کر تصاویر بنوانا بھی لاکھوں افراد کی زندگی کا حصہ ہے، والدین جب اپنے بچوں کو چڑیا گھر کی سیر کو لے جاتے ہیں تو یادوں اور تصاویر کا ایک البم بن جاتا ہے جو زندگی کا ایک خوشگوار حصہ ہوتا ہے، اسی طرح ملک کے دوسرے شہروں سے لوگ جب اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آتے ہیں تو یہاں آکر تین مقامات پر ان کی جانے کی خواہش ہوتی ہے، ان میں ساحل سمندر، مزار قائد اعظم اور کراچی چڑیا گھر شامل ہیں۔

وکٹوریہ گارڈن سے چڑیا گھر تک کا تاریخی سفر

واقعی یہ تینوں مقامات کراچی کو دوسرے شہروں سے منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔ یہاں جانوروں اور پرندوں کی نادر اور نایاب اقسام بڑی تعداد میں موجود ہیں جو آنے والوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ بچوں کے لئے مختلف جھولے بھی لگے ہیں اور ایک ٹرین بھی ،جو بچوں اور بڑوں کو چڑیا گھر کی سیر کرانے کے لئے ہے، اس گھر کی بدولت بچے بڑے سب ہی جانوروں اور پرندوں کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں یعنی بندر اور بن مانس کی اچھل کود ، ہاتھی کی سواری، ذرافے اور گینڈے کی عجیب الخلقت وضع قطع ، جنگل کے بادشاہ شیر کی حرکات و سکنات، ہرن کی کلانچوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ وغیرہ سے محظوظ ہوتے ہیں۔ 

اس جدید دور اور زندگی کی تھکادینے والی دوڑ نے انسان کو مشینی پرزہ بنا رکھ دیا ہے، تفریح کی غرض سے آنے والے شہری کچھ وقت اپنے خاندان کے ہمراہ یہاں گزارتے اور قدرتی، ماحول جانوروں اور پرندوں کے درمیان اپنے آپ کو پاکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

اسے پاکستان کا سب سے بڑا چڑیا گھر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ نشتر روڈ کے قریب واقع ہے، اس کا رقبہ تقریباً33ایکڑ ہے، 40فیصد حصہ جانوروں، پرندوں اور بحری حیات کے لیے مختص ہے جن میں ممالیہ، پرندے، رینگنے والے جانور اور مچھلیاں شامل ہیں جنہیں117پنجروں میں حفاظت سے رکھا گیا ہے جبکہ چڑیا گھر کا بقیہ 60فیصد حصہ لان، تالاب، مغل گارڈن، کینٹین، امیوزمنٹ پارک اور دیگر تفریحات پر مبنی ہے، چڑیا گھر بچوں، نوجوانوں اور خواتین کے لئے یکساں دلچسپی کی جگہ ہے۔ 

خاص طور پر بچے چڑیا گھر آکر حیرت اور تجسس کی دنیا میں ڈوب جاتے ہیں کیونکہ وہ جانور جن کا تذکرہ وہ اکثر درسی کتب اور کہانیوں میں پڑھتے، ڈراموں اور فلموں میں دیکھتے ہیں وہ ان کے سامنےہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سالانہ 30لاکھ سے زائد افراد چڑیا گھر آتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔

مغل گارڈن، ممتاز بیگم، مچھلی گھر، سانپ گھر، پرندے، ہاتھی پر سواری کون بھول سکتا ہے

1931ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’بلدیاتی انتظامیہ ‘‘(میونسپل ایڈمنسٹریشن) میں کراچی چڑیا گھر کے حوالے سے تاریخی حوالہ موجود ہے جس کے مطابق اس زمانے میں اس مقام کو مہاتما گاندھی باغ قرار دیا گیا تھا، اس کا رقبہ تقریباً 40، ایکڑ پر مشتمل تھا، اس شرط کے ساتھ 1861ء میں حکومت کی جانب سے میونسپلٹی کو یہ باغ منتقل کیا گیا کہ اسے ایک عوامی باغ کے طور پر رکھا جائے گا، اسے کسی دوسرے کام کے لئے منتقل نہیں کیا جائے گا، اس باغ کی ایک دلچسپ تاریخ یہ بھی تھی کہ یہ1799ء میں مسٹر Crowe نے بنایا تھا اور یہ زمین پرانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اطراف واقع تھی،یہ فیکٹری تھی،اس کے کھنڈرات 1838ء تک موجود تھے ، اس کا ذکر Commander Charles نے اپنے نقشے میں کیا۔

باغ کو حکومت کے ذریعے 1861ء تک فوجیوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ باغ میں سوئمنگ پول، کرکٹ پویلین، فوجیوں کے لیے کھیلوں کے میدان بھی تھے۔ 1878ء میں باغ کی بہتری کے لیے مختلف مشوروں پر غور کرنے کے بعد اسے ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا جو عوامی مدد سے اس کی دیکھ بھال کرتا۔ لیکن اس کام میں ٹرسٹ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی لئے 1921ء میں میونسپل ہارٹی کلچرسٹ کے مقرر ہونے کے بعد اسے واپس شہری حکومت نے لے لیا پھر فوجیوں کے لیے ایک قدیم سبزیوں کا باغ ایک انتہائی خوبصورت باغ میں تبدیل ہوگیا، جہاں پوری زمین کو پھولوں کی چاد کی طرح سجا دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میں کئی لان اور طویل راہداری ھی بنائی گئ۔ باغ کو بڑے پیمانے پر عوام کی طرف سے پذیرائی اور سرپرستی ملی اور موسم سرما میں یہ انتہائی دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔بطخوں کا تالاب انتہائی دلچسپ آبشاروں کے مجموعے پر مشتمل ہے ۔

چڑیا گھر کا انتظام و انصرام چلانے کے لئے 1861ء میں اسے حکومت نے بلدیہ کراچی کو منتقل کردیا۔ اس وقت یہ ’’وکٹوریہ گارڈن‘‘ کہلاتا تھا۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ 1833ء میں اس گارڈن کے ایک حصے میں’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی فیکٹری ہوا کرتی تھی، جس کی نشاندہی کمانڈر سر چارلس نیپیئر کے تیار کردہ نقشے میں کی گئی تھی۔ 1839ء میں برطانوی حکومت نے یہاں اپنے سپاہیوں کے لئے بعض تعمیرات کیں جبکہ 1840ء میں زمین کا کچھ حصہ برطانوی فوجیوں نے کاشتکاری کے لیے استعمال کیا۔ 

1884ء میں یہ اراضی گارڈن بنانے کے لیے کراچی میونسپلٹی کے حوالے کر دی گئی اور اسی سال یہ مکمل طور پر ایک حسین گارڈن میں تبدیل ہوگئی، جہاں اس وقت کی میونسپلٹی نے بعض مقامی جانور پرندوں سمیت رکھے تھے اور پھر 1890ء میں مزید جانوروں کا ضافہ کرنے کے بعد اسے عوام الناس کے لیے کھول دیا گیا۔ 1913ء میں جب گاندھی نے کراچی شہر کا دورہ کیا تو کراچی میونسپلٹی نے اتفاق رائے سے منظور کی گئی ایک قرار داد کے ذریعے اس کا نام بدل کر ’’مہاتما گاندھی گارڈن‘‘ رکھ دیا۔1853 ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے کل وقتی نگراں اور جانوروں کے ماہر ڈاکٹرز کی آسامیاں پُر کیں، تاکہ جانوروں کی دیکھ بھال اور صحت کا خیال رکھا جاسکے۔

1952ء میں اسی گارڈن میں ایک چھوٹا سا’’ فش ایکوریم ‘‘بنایا گیا جوآج بھی موجود ہے۔ 1955ء میں کراچی میونسپلٹی نے چڑیا گھر آنے والوں کے لیے داخلہ ٹکٹ کا نظام شروع کیا ، اسی سال میونسپلٹی نے ایک قرار داد کے ذریعے اس کا نام’’کراچی زو‘‘ (زولوجیکل گارڈن) رکھ دیا، یہ نام تاحال ہے۔ 1953 ء میں جو داخلہ فیس مقرر کی گئی اس کے مطابق بچوں کے لئے دو آنے، بڑوں کے لئے چار آنے مقرر ہوئی۔ 29 جنوری 1953 ء کو کراچی چڑیا گھر کا پہلا باقاعدہ ٹکٹ جاری ہوا۔

1960-70 ء کے عشروں کے دوران یہاں متعدد ترقیاتی کام کیے گئے اور ایک خوبصورت مغل گارڈن تعمیر کیا گیا۔یہاں متعدد یادگار تقریبات کا اہتمام کیا گیا جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہاں1988ء میں بھارتی اداکار دلیپ کمار اور ان کی اہلیہ سائرہ بانوکی پاکستان آمد کے موقع پر ان کے اعزاز میں اہالیان کراچی کی جانب سےعشائیہ دیا گیا جس میں معززین شہر کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، 2004ء میں تین روزہ ساؤتھ ایشین زو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے، جس میں سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور لاہور کے چڑیا گھر اور وائلڈ لائف سے متعلق وفود نے شرکت کی، اس کانفرنس میں ایسوسی ایشن کی سرپرست سیلی واکر (SALLY WALKER) نے بھی خاص طورآئیں۔

مغل گارڈن میں متعدد فلموں اور ڈراموں کی عکس بندی بھی کی جاتی رہی ہے، خاص طور پر وہ ڈرامے جو تاریخی پس منظر کے حامل ہوتے تھے، آج بھی متعدد ڈراموں کی عکس بندی کے لئے مغل گارڈن کو اس کی خوبصورتی اور دلکشی کے باعث پسند کیا جاتا ہے۔

29 جنوری 2012 ء کو پہلی مرتبہ ’’کراچی زو ڈے‘‘ منایا گیا جس کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کرکے یہ عزم کیا گیا کہ کراچی چڑیا گھر کو عالمی سطح پر تسلیم کرایا جائے گا اور یہاں کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا، اس موقع پر اس درخت کا 200 سالہ جشن منایا گیا جو چڑیا گھر میں موجود ہے۔

سر چارلس نیپیئر کی جائے قیام کی رونمائی بھی کی گئی، تاکہ پارک کی اس تاریخی حیثیت کو سامنے لایا جاسکے۔ یہاں درجنوں املی کے درخت بھی ہیں جو اتنے ہی پرانے ہیں جتنا یہ گارڈن ہے ، ان درختوں کی وجہ سے چڑیا گھر میں ایک حصے کا نام ہی املی روڈ پڑ گیا ہے۔

کراچی کے شہریوں کے لئے یقینا یہ بات بھی باعث مسرت ہوگی کہ برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کراچی چڑیا گھر میں موجود ممتاز بیگم کے حوالے سے کراچی چڑیا گھر کا تذکرہ کیا گیا ہے، اخبار کے مطابق کراچی چڑیا گھر میں ایک ایسی مخلوق بھی موجود ہے جس سے ملتی جلتی مخلوق دنیا میں کہیں نہیں، جو آدھی لومڑی اور آدھی عورت کا افسانوی کردار نسلوں سے کراچی چڑیا گھر کی سب سے زیادہ پرکشش تفریح ہے، ایک خاص قسم کے بیڈ کی مدد سے افسانوی روپ میں ڈھلنے والی ممتاز بیگم کا کردار اپنی بذلہ سنجی اور حاضر دماغی سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر رہا ہے۔ 

ممتاز بیگم کا کہنا ہے کہ اسے دیکھ کر اور اس سے باتیں کرکے لوگ خوش ہوجاتے ہیں اور یہی چیز خود میرے لیے بھی خوشی کا باعث ہے ، یہ لوگوں اور میرے درمیان محبت کا رشتہ ہے۔ اس وقت کراچی چڑیا گھر میں ممتاز بیگم کا یہ کردار مراد علی اور شکیل ادا کرتے ہیں، مراد علی کو یہ کردار 26 سال قبل وفات پانے والے اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا، اس کردار کے لئے ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جو اچھی اداکاری اور بہترین گفتگو اور زیادہ سے زیادہ مقامی زبانیں بھی بول سکتا ہو۔ 

ممتاز بیگم کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا ٹکٹ صرف دس روپے ہے لیکن ان سے ملنا لوگوں کو زندگی بھر یاد رہتا ہے۔ یہاں مختلف مواقعوں پر شہریوں کی دلچسپی کے لئے خصوصی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جن میں کراچی چڑیا گھر کا دن اور ہاتھی کی سالگرہ انتہائی دلچسپ پروگرام ہوتے ہیں۔ 31 دسمبر 2021ء کو کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی مدھوبالا کی سالگرہ منائی گئی تھی، جس میں شہر کے ادیبوں ، شاعروں اور ممتاز شخصیات کے ساتھ ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی تھی، ہتھنی کے مہاوت یوسف نے ہتھنی کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تیار کیا اور ہتھنی نے خود اپنی سالگرہ کا کیک اپنی سونڈ سے کاٹا۔

وقت کے ساتھ ساتھ چڑیا گھر میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، ریچھ کے گھر میں اب مگرمچھ رہتے ہیں ریچھ کو ایک نئے پنجرے میں منتقل کردیا گیا ہے، جانوروں کی خوراک کا ماہانہ بجٹ 42 لاکھ روپے سے زائد کا ہے اس طرح خوراک پر یومیہ سوا لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں، ہاتھی، بن مانس ، بندروں اور ریچھ کی پسندیدہ خوراک میں سیب ، کیلے اور موسمبی شامل ہیں، جانوروں کی یومیہ خوراک کے لئے 30 سے زیادہ آئٹمز خریدے جاتے ہیں جبکہ ماہانہ 33 آئٹمزکی خریداری کی جاتی ہے۔ر جو شخص بھی جانوروں اور پرندوں سے شغف رکھتا ہے اس کے لئے کراچی چڑیا گھر کسی نعمت سے کم نہیں۔