موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کو 2فروری کو نئے عہدے کا حلف اٹھائے آج 24واں دن ہے۔ درمیان کے 23دنوں میں جلد اور سستے انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے مختلف شعبوں بالخصوص ’’کیس مینجمنٹ سسٹم‘‘ میں قابلِ ذکر اصلاحات کا جو عمل شروع کیا گیا اور جس کے نتائج زیر التوا مقدمات کی تعداد گھٹنے سمیت کئی حوالوں سے نظر بھی آرہے ہیں، ان کی بنا پر توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام کو جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کا عمل مزید تیزی سے ارتقا کی منزلیں سر کرے گا۔ وطن عزیز میں رائج عدالتی نظام میں شروع سے بعض ایسی صورتیں موجود رہی ہیں جن کے بارے میں جسٹس ایم آر کیانی جیسی شخصیت ہی کسی نہ کسی انداز میں اظہارِ رائے کا راستہ تلاش کرتی رہی ہے۔ ماضی قریب میں مقدمات کو طوالت سے بچانے کے لیے آن لائن گواہی سمیت کئی طریقے اختیار کیے گئے۔ جہاں تک ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی طوالت کا تعلق ہے، ان کی مثال وہ اخباری رپورٹ ہے جس کے بموجب ڈیرہ غازی خان کی دو حقیقی بہنوں کو 1926میں ’’رواجِ عام‘‘ کی آڑ میں ان کے حصے کی زمین سے محروم کیا گیا اور اب ان کی چوتھی نسل کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شکایات و تنازعات کے ضمن میں نچلی سطح پر تصفیوں اور فیصلوں کا موثر نظام پوری طرح فعال ہو تو اعلیٰ عدلیہ پر مقدمات کا دبائو کم ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس میں جہاں معاملات و مسائل کے حوالے سے تمام فریقین سے مل کر کام کرنے کی ضرورت اجاگر کی تھی وہاں یہ بھی واضح کیا کہ تنازعات کے فوری حل کے لیے سپریم کورٹ کے براہِ راست اختیار کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمات کے التوا کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ انہوں نے وکلا پر بھی زور دیا کہ وہ مقدمات میں تحریری معروضات اور جامع بیان جمع کرانے کا طریقہ اپنائیں۔ فاضل چیف جسٹس نے عدالتوں کا ’’پرفارمنس آڈٹ‘‘ کرانے کی بھی تجویز دی جبکہ بطور منصفِ اعلیٰ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد فاضل چیف جسٹس نے نئی اصلاحات کا آغاز بی ایم ڈبلیو گاڑی لینے سے انکار، اضافی گاڑیوں کی واپسی اور دیگر برادر ججوں کی طرح کا پروٹوکول برقرار رکھنے کے عمل سے کیا۔ تیز رفتار نظامِ انصاف کے لیے مختلف شعبوں کی کمیٹیاں تشکیل دیدی گئیں جبکہ مقدمات کی جلد سماعت کی درخواست کا مخصوص پرفارما متعارف کرایا گیا ہے جو سائلین یا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ جمع کرا سکیں گے۔ اسی طرح وکلا کی طرف سے کسی مقدمے میں کنسائز اسٹیٹمنٹ جمع کرانے کیلئے پرفارما بنایا گیا ہے۔ قبل ازیں مقدمات کی کاز لسٹ جمعہ یا ہفتہ کو جاری کی جاتی تھی۔ جس کے باعث دور دراز شہروں سے آنے والے وکلا اور سائلین کو خاصی پریشانی ہوتی تھی۔ اب یہ کاز لسٹ جمعرات کی شام تک سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہے۔ بنچوں کی تعداد بڑھانے اور انتظامی اختیارات سے متعلق مختلف کمیٹیوں کی تشکیل سے بھی معاملات میں بہتری آئیگی۔ اگلے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مختلف انتظامی کمیٹیوں کا سربراہ بناکر ان کا چیمبر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دیگر امور کے حوالے سے بھی ایسے اقدامات سامنے آئے ہیں جنہیں قانونی و سماجی حلقے عدلیہ کی عزت و توقیر میں مزید اضافے اور کارکردگی میں بہتری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اصلاحاتی اقدامات کے اثرات نہ صرف اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کے جلد فیصلے صادر ہونے کی صورت میں سامنے آئیں گے بلکہ ماتحت عدلیہ میں مثبت تبدیلیاں محسوس ہوں گی۔ عدالتی نظام قومی زندگی کا وہ اہم حصہ ہے جس کی اصلاح پوری قومی زندگی کی اصلاح کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔