ماجد نظامی
وجیہہ اسلم ، حافظ شیزار قریشی
عبد اللہ لیاقت
2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف عوام کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ،جس نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر حکومت بنانے کے لئے اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ پی ٹی آئی نے وفاق اور پنجاب میں اتحادیوں کے ساتھ ملکر حکومت تشکیل دی۔ حال ہی میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم )نے ملک میں بڑھتی مہنگائی اور معاشی بد انتظامی کو سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہوئے حکومت کے خلاف عدم اعتما د کی قرارداد پیش کرنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ گئی۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحا ل کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت تحریک انصاف حکومت کو بچانے کے لئے جبکہ اپوزیشن حکومت کو گرانے کے لئے سیاسی داؤ پیچ لڑ رہے ہیں۔ حکومت اپنے اتحادی ایم کیو ایم پاکستان،مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہان کے ساتھ حکومت کی حمایت کے لئے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ دوسری طرف حزب اختلاف کی متعدد جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کے اتحادیوں کو حکومت مخالف عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کے لئے سربراہاں اورقومی اسمبلی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔
قومی اسمبلی میں 5جبکہ پنجاب اسمبلی میں 10نشستوں کی حامل مسلم لیگ ق حکومت کی بڑی ا تحادی جماعت ہے یہی وجہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کوقومی اسمبلی اور پنجاب میں مزید کامیاب بنانے اور حکومت کوذہنی دباؤ کا شکار کرنے کے لئے شہباز شریف،فضل الرحمان اور آصف علی زرداری نے چودھری شجاعت حسین اور پرویز الہی سے ملاقات کر کے حکومتی صفوں میں ہل چل مچا دی۔وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتمادکے ووٹ کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 95 کی پہلی شق کہتی ہے کہ " وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20فیصد ارکان نے پیش کیا تو اسے منظور کر لیا جائے گا۔
دوسری شق کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قراردار پر تین دن کی مدت کے خاتمہ سے پہلے یا سات دن کی مدت کے بعد ووٹنگ نہیں ہو گی۔ تیسری شق میں شامل ہے کہ قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ اجلاس کے دنوں میں قراداد پیش نہیں کی جا سکتی۔ آخری شق میں واضح درج ہے کہ قومی اسمبلی کی مجموعی رکنیت کی اکثریت (172) سے منظور کر لیا جائے تو وزیر اعظم عہدے پر فائز نہیں رہے گا۔
تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لئے قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن کو جاننا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف342 میں سے 155نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے اس کے بعد مسلم لیگ ن 84اراکین قومی اسمبلی کیساتھ دوسرے، پیپلزپارٹی 56 نشستوں کے ساتھ تیسرے جبکہ متحدہ مجلس عمل 15ایم این ایزکے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف سادہ اکثریت لینے میں نا کام رہی جبکہ حکومت بنانے کے لئے اس نے اپنے اتحادیوں کی طرف رجوع کیا۔
حکومتی اتحاد میں 179اراکین اسمبلی شامل ہیں جس میں تحریک انصاف 155 ایم این ایز، متحدہ قومی مومنٹ 7،مسلم لیگ ق کے 5 اراکین اسمبلی، بلوچستان عوامی پارٹی5،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 3، جمہوری وطن پارٹی 1، آزاد 2 جبکہ عوامی مسلم لیگ 1 رکن کے ساتھ حکومت کا حصہ ہے۔ اپوزیشن اتحاد 162ارکین اسمبلی پر مشتمل ہے جس میں سر فہرست مسلم لیگ ن84، پیپلز پارٹی56، متحدہ مجلس عمل 15 ،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)4، عوامی نیشنل پارٹی 1 جبکہ 2آزاد امیدوار شامل ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپوزیشن کو کم از کم10ایم این ایزکا فاروڈ بلاک بنا کر حکومتی حمایت کو نظر اندار کر کے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینا پڑے گا۔پی ٹی آئی کو اس عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کےلئے اپنے 10رکن اسمبلی کی ناراضی کو ختم کرنا ہوگا۔
یہاں پر سب سےدلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جنرل الیکشن 2018ء میں 46 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیں جن کی ماضی میں سیاسی وابستگی دوسری سیاسی جماعتوں سے رہی جبکہ 5آزاد ایم این ایز کامیابی کے بعد حکومت کا حصہ بنے۔ عمومی طور پر اس طرح کی صورتحال میں حکومتی جماعت سیاسی اور انتظا می طور پر کمزور نظر آتی ہے کیونکہ حکومت میں شامل سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی کسی بھی وقت سیاسی شطرنج کی بساط پلٹ سکتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار کا جائزہ لیں تو اس میں خفیہ رائے دہی کی بجائے اراکین اسمبلی کو خود کو سامنے لانا پڑتا ہے قومی اسمبلی میں ووٹنگ خفیہ طریقے سےنہیں ہوتی۔ طریقہ کار کے مطابق حکومت کا ساتھ دینے والے اراکین اسمبلی حکومتی بینچوں میں وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہوں گے جبکہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے والے قائدحزب اختلاف کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ اس تمام عمل کے دوران کھل کر اخلاقیات اور اصولوں کی پامالی ہوتی نظر آتی ہے۔ جن اراکین قومی اسمبلی نے وزیر اعظم کی مخالفت میں ووٹ دیا ہوگا ان کے خلاف اسپیکر اسمبلی کی جانب سے آئین کے مطابق قانونی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
آئین پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعدآرٹیکل 63کی شق 2میں حکمران جماعت کے خلاف فارورڈ بلاک بنانے پر آئین سیاسی جماعتوں کوانتباہ کرتا ہے کہ کسی پارلیمانی جماعت میں فاروڈ بلاک نہیں بن سکے گا اگر کوئی پارلیمنیٹرین بلاک بنانے کی کوشش کرے گا تو وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر دیا جائے گا۔ آئین میں واضح کر دیا گیا ہے کہ فارورڈ بلاک بنانے اور پارٹی قیادت کے فیصلوں سے انحراف ،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پارٹی سربراہ کے فیصلے کے مطابق ووٹ نہ دینے یا سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کی صورت میں رکن قو می اسمبلی اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ماضی میں صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے خلاف فارورڈ بلاک بنانے کی کوششوں پر نظر دوڑائیں تو 2019ء میں سندھ حکومت کو تبصروں اور تجزیوں کی بنا پر منتخب وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی نیب کی طرف سے گرفتاری کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف فارورڈ بلاک کی تحریک نے بھی دم توڑا۔سندھ حکومت کے خاتمے کے لئے بھی 16ایم پی ایز کے فارورڈ بلاک کی خبریں بھی سر گرم رہیں۔گزشتہ حکومت میں خیبر پختو انخوا میں فارورڈ بلاک بنا کر وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کو گھر بھیجنے کی کوشش کی گئی مگر ایم پی ایز نے اسے کوئی عملی جامہ نہیں پہنا یا۔
سازشی کہانیاں
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد اگر قومی اسمبلی میں کامیاب ہوتی ہے تو ملک کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ انکے پاس 20 سے زائد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کے کو تیار ہیں۔
مگر یہاں کیا درست ہے اور کیا غلط اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ اپوزیشن کھل کر اپنی حکمت عملی ظاہر نہیں کر رہی۔پی ڈی ایم کی جانب سے ہر روز ایک نئی ملاقات اور ایک نیا بیان منظر عام پرآ جاتا ہے جس سے کئی سازشی کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحما ن کی جانب سے امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سندھ اسمبلی کے علاوہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب،خیبر پختو انخوا اور بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کی کوشش ہو سکتی ہے۔
اس موقف کے بعد جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی کامیا بی کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران استعفیٰ دے دیں گے تاکہ ملک میں دوبار جنرل الیکشن کا انعقاد ہو سکے۔ اپوزیشن عدم اعتمادکی کامیابی کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے بارے میں کون سی حکمت عملی اپنائے گی اس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا۔ حکومت کو ذہنی اور سیاسی دوباؤ میں مبتلا کرنے کے لئےمولانا فضل الرحمان، شہباز شریف،آصف علی زرداری نےحکومت کے اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین سے بھی ملاقاتوں کے سلسلے پہلے سے زیادہ تیز کر دیے ہیں جبکہ اسی سلسلے میں 14سال بعد شریف فیملی اور چودھر ی خاندان کے درمیان ملاقات نے بھی عدم اعتماد کی تحریک میں جان ڈال دی ہے۔
گزشتہ دنوں سے سازشی کہانیوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ حکومتی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم پاکستان ،مسلم لیگ ق ،جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی حکومت سے الگ ہو سکتی ہیں جبکہ اپوزیشن نے ان کے ساتھ آئندہ کے سیاسی اور انتخابی لائحہ عمل کو ابھی تک یقینی نہیں بنایا۔ عمومی طور پر اتحادیوں کو حکومت کاساتھ چو ڑنے کے لئے آ ئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹوں اور وزارتوں کا یقین کروایا جاتا ہے۔ سازشی کہانی میں جنوبی پنجاب کی سیاسی شخصیات کو خاص تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ انہیں اراکین اسمبلی نے صوبہ جنوبی پنجاب نہ بنانے کی وجہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
عام انتخابات2018 کے بعد ملک میں پرائیویٹ جہازکے حوالے سے مشہور ہونے والے سیاسی شخصیت جہانگیر ترین اپوزیشن جماعتوں کے آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم کے جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ رابطوں میں دن بد دن تیزی آ رہی ہے۔ جہانگیر ترین کی لند ن میں میاں نواز شریف کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی خبریں بھی سر گرم رہیں جس نے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈر ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے جہانگیر خان ترین سے خفیہ ملاقات کی جس کے بعد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے سوچ بچار کرنا شروع کردی ہے ۔پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے گروپ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد نے دو مرتبہ لاہور میں ملاقات کی تھیں۔
ایک ملا قات میں قومی اسمبلی سے تعلق رکھنے والےخواجہ شیراز، سردار ریاض مزاری، راجہ ریاض، مبین عالم انور، غلام لالی بھی شامل تھے۔ جہانگیر ترین ملک کی سیاست میں بہت اہمیت کے حامل ہیں گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جنرل الیکشن سے پہلے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹوں کی تقسیم اورانتخابات میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کا تحریک انصاف میں شامل ہونا ان سب معاملات میں جہانگیر ترین کا اہم کردار رہا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کے 5قومی اسمبلی کے حلقوں میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونےو الے اراکین خانیوال سے سید فخر امام، بہاولنگر سے محمد عبدالغفار ووٹو، مظفر گڑھ سے دو امیدوار محمد شبیر علی اور مخدوم سید باسط احمد سلطان جبکہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے امجد فاروق خان کھوسہ بعدا زاں جہانگیر ترین ہی کی سیاسی بصیرت سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ دلچسپ پہلویہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اپوزیشن کی سرگرمیوں کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اتحاویوں کے ساتھ ملاقاتوں میں اضافہ حکومت کے لئے وبال جان بنتی نظر آ رہی ہیں۔
ماضی میں عدم اعتماد کب کب ہوئی؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منتخب پارلیمانی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں چلتی آرہی ہیں۔ ان میں ایک مقبول ترین عدم اعتماد کی تحریک بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف چلی تھی۔1988ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 93نشستوں پر کامیاب ہوئی جبکہ دوسرے نمبر پراسلا می جمہوری اتحاد 54 نشستوں کے ساتھ بڑی اپوزیشن کی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔
1989ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو 10ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ ان کے خلاف قومی اسمبلی میں26اکتوبر1989ء کو اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی۔ یکم نومبر کوقومی اسمبلی میں قرارداد کے حق اور مخالفت میں ووٹنگ ہوئی ،نتائج کے مطابق 12ووٹوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت بچ گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح تمام تر اخلاقی اور معاشرتی قدروں کو پس پردہ چھوڑ کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے ہارس ٹریٹنگ کے ذریعے ایم این ایز کو پیسوں کے ذریعے خریدا گیا تھا۔
اگست 2006 کو وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جوکہ ناکام ہوئی۔اپوزیشن کی جانب سے 136ووٹ تحریک کے حق میں کاسٹ ہوئے جبکہ 201ووٹ حکومتی اراکین نے تحریک کی مخالفت میں کاسٹ کئے۔ یکم اگست2019ء کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے جبکہ ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈی والا کے خلاف حکومت کی طرف سےتحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ۔
صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری میں 100 ارکان نے حصہ لیا تھا۔تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ پڑے،جبکہ مطلوبہ تعداد (53 ووٹ) نہ ہونے کے باعث تحریک نا کام ہوئی۔ دوسری طرف ڈپٹی چیئرمین کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 32 ووٹ کاسٹ ہوئے جس کے باعث اسے بھی مسترد کردیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کے دن سینیٹ میں ٹوٹل 103 سینیٹرز نے ووٹ کاسٹ کرنا تھا ۔اکتوبر 2021ء میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، حکومتی اتحاد میں شامل وزیر اعلیٰ سے ناراض 14 اراکین نے جمع کرائی تھی۔
تحریک عدم اعتماد کے مطابق آئین کی شق 37 اور 38 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر منصفانہ، عدم مساوات اور متعصبانہ ترقیاتی بجٹ پیش کیا گیا۔بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان میں متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 23 ہے۔ جن میں جمعیت علمائے اسلام ف کے 11، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 10، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک اور ایک آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد قرارداد منظور ہونے کے لئے 13 اراکین کی ضرورت تھی۔
سیاسی بحران کے دوران صورتحال اس وقت جام کمال کے خلاف نظر آنے لگی جب اپوزیشن اور ناراض گروپ نے تحریک عدم اعتماد کی قرار اسمبلی میں پیش کرنے کے دوران اپنے چار ارکان کی عدم شرکت پر انہیں لاپتہ کرنے کاالزام لگایا جس کے بعد باقی ممبران بھی اس خوف کا شکار ہوئے کہ انہیں بھی غائب کیا جاسکتا ہے ۔ بلوچستان میں سیاسی بے چینی کو ختم کرنے کے لئے وزیراعلیٰ جام کمال نے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کی قرارداد واپس لے لی گئی۔