• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی افریقہ کے ہیرو نیلسن منڈیلا نے جب اک حقائق اور مصالحتی کمیشن کی بنیاد رکھی تو اس کے سامنے اک بہت واضح ویژن تھا کہ قوم کو کس طرح متحد رکھا جا سکتا ہے۔ یہ کام آسان نا تھا خاص طور پر جس طرح برسوں سفید فام اقلیت نے سیاہ فام اکثریت پر نا صرف حکومت کی بلکہ بدترین انسانیت سوز، نسل پرستی کی مثالیں قائم کیں۔ خود اس نے تین دہائیاں بدترین جیلوں میں گزاری۔

اس کو پتا تھا کہ اگر وہ معافی کا رستہ اختیار کرنےکے بجائے انتقام اور بدلہ لینے کی پالیسی پر چل پڑا تو سوائے قتل عام کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ لہٰذا اس نے اپنی رہائی کے فوراً بعد اعلان کیا کہ کسی سفید فام سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ 

کسی کو بے جا نوکریوں سے نہیں نکالا جائے گا اور جنہوں نے ظلم کیے ہیں ان کے سامنے یہ راستہ رکھا جائے گا کہ وہ آئیں اپنے ظلم کا اعتراف کریں اور معافی مانگیں، اس ماڈل نے دنیا میں ایک مثال قائم کی۔ وہ خود بھی ایک بار صدر رہا مگر آج شائد کم لوگوں کو جنوبی افریقہ کے صدر کا نام آتا ہو مگر ہر سمجھ بوجھ رکھنے ولے شخص کو نیلسن منڈیلا کا نام ضرور یاد ہو گا۔

ہماری سیاسی تاریخی غلطیوں سے بھری پڑی ہے مگر شاذو نادر ہی کسی نے اپنی غلطی کی معافی مانگی ہو۔ لوگ پھانسی چڑھ گئے اور بات بس یہیں تک رہی کہ ہاں ناانصافی تو ہوئی ہے یا مقدمہ صحیح نہیں چلا۔ ملک کا آئین اک بار نہیں بار بار توڑا گیا معافی تو دور کی بات مقدمہ بھی نہیں چلانے دیا گیا۔ 

سیاستدانوں نے بھی اور فوجی آمروں نے بھی اور ان سب کے درمیان کھیل کھیلنے والی نوکر شاہی نے بھی اس ملک کو کوئی سمت نا دی اور آج ہم جس حال میں ہیں وہاں فرقہ ملنے پر بھی خوش ہوتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ قومی جرائم ہیں جن کی سزا نا سہی اک اجتماعی معافی تو بنتی ہے۔ جس میں بہرحال کسی بھی طرح اعلیٰ عدلیہ کے مجرمانہ کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،چاہے بات نظریہ ضرورت ہی کی کیوں نا ہو۔

اس وقت بھی بات سال بھر سے اک معافی کی چل رہی یعنی اگر معافی مانگ لی جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے مطلب بات چیت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ بات ہے 9مئی 2023کو ہونے والے افسوسناک اور قابل مذمت واقعات جس کا الزام بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے کئی ساتھیوں پر ہے۔ 

اب تک 100سے زائد کو سزائیں ہو چکی ہیں جن میں تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنما شامل ہیں مگر عمران یہ جرم یا الزام تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ اسے اپنے خلاف ریاستی سازش قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں فیصلہ اب عدالت نے ہی کرنا ہے ویسے بھی قانونی طور پر معافی کا مرحلہ سزا کے بعد آتا ہے یا پھر شروع میں ہی اعتراف کر لیا جائے۔ دیکھتے ہیں بات کہاں تک جاتی ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو شرمندگی کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔

پاکستان بنانے کی جدوجہد میں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ خاندان کے خاندان اجڑتے گئے ایک بہتر خواب کی بہتر تعبیر دیکھتے بطور شاعر۔

دو زمانوں میں مسلسل ہے ہماری زندگی

اک زمانہ خواب کا دوسرا تعبیر کا

پاکستان بنا تو بانیٔ محمد علی جناح نے اپنے پہلے خطاب کے لئے اسمبلی کا انتخاب کیا پیغام یہ دنیا تھا کہ اس ملک کو جمہوری انداز میں ہی آگے بڑھنا ہے اور آئین کی تشکیل نو کے لئے پالیسی بیان 11؍اگست 1947کو سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں دے کر بات واضح کر دی کہ ریاست کی نظر میں ہر شہری برابر ہے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو۔

جناح کے انتقال کے بعد اس وقت کی مسلم لیگ کی قیادت اور نوکر شاہی نے اس پالیسی تقریر کو بعد میں بننے والے آئین کا حصہ ہی نہیں بننے دیا، کیا اس پر بابائے قوم سے اک معافی نہیں بنتی۔ آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ اس پالیسی بیان کو نظر انداز کر کے ہم قوم کو سمت ہی نا دے سکے۔ 

جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس وقت کی سیاسی اشرافیہ جس میں بعض مغربی پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور غلام محمد ، اسکندر مرزا جیسے لوگ شامل تھے، کس طرح حسین شہید جیسے سیاستدانوں کو ناکام کروایا، یوں 1956میں بننے والا آئین دو سال بعد ہی پہلے مارشل لاء کے ذریعہ ختم کر دیا گیا، جس کے مرکزی کردار اسکندر مرزا اور ایوب خان ہیں۔ 

میجر جنرل اسکندر مرزا نے بحیثیت صدر اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو وزیر دفاع بنایا اور کچھ عرصہ بعد ہی اسکندر مرزا کو فارغ کر کے ملک میں مکمل مارشل لاء نافذ کر کے جناح کے پاکستان کو عملی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 

تو کیا اس عمل پر اک معافی نہیں بنتی تھی۔ بدقسمتی سے اس عمل کو ہر چند سال بعد دہرایا گیا چاہے وہ 1968کو ایوب کی رخصتی کے بعد جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا ہو ، پانچ جولائی1977کو ایک منتخب حکومت کو غیر آئینی انداز میں ہٹا کر تیسرا مارشل لاء ہو یا 12 اکتوبر 1999 کو ایک اور منتخب حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کرنا ہو، اک معافی تو بنتی ہے ان سارےغیر آئین اقدامات پر۔

جہاں جمہوریت اور سیاست کا پودا لگنے ہی نا دیا گیا ہو وہاں ایسی ہی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان پیدا ہوں گے جو کبھی کسی پروجیکٹ کے ذریعہ لائے گئے ہوں کبھی نام نہاد بنیادی جمہوریت کے نام پر تو کبھی مجلس شوری یا غیر جماعتی بنیادوں پر لائےگئے ہوں، جب سیاسی عمل ہی نہیں رہنے دیا گیا تو بااصول اور کردار والے سیاستدان کہاں سے لائیں گے۔ 

جنہوں نے اصولی سیاست کی چاہے ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہو یا مغربی پاکستان سے یا تو انہیں بدنام زمانہ قوانین بنا کر چاہے وہ ابیڈو ہو یا پروڈا ہو، نااہل قرار دیا گیا۔ اس کے بعد آنے والے بیشتر سیاستدانوں نے اصولی نہیں وصولی سیاست کو اپنایا۔ اپنے بڑے بھائی کو پہلے دن سے ہی قبول نہیں گیا، جبکہ انہوں نے آخری سانس تک ساتھ رہنے کی کوشش کی تمام تر ناانصافیوں کے باوجود یہاں تک کے ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں محتر مہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔

اسی شیخ مجیب الرحمان نے جس کو بعد میں غدار کے لقب سے نوازا گیا وہ محترمہ فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ عوامی لیگ 1970کے انتخابات میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری مگر مغربی پاکستان کی قیادت اور حکمران اشرفیہ نے ملک توڑ دیا اکثریتی فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ اس پر اجتماعی معافی تو بنتی ہے کیونکہ توڑنے یا بنگالیوں کے ساتھ زیاتیوں کا عمل تو ہم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع کر دیا تھا۔

پاکستان کو نوکر شاہی یا بیورو کریسی کہنے کو تو سول سرونٹ ہوتے یا کہلائے جاتے ہیں مگر ملک کو اس بھیانک موڑ پر لانے میں ان کا برابر کا ہاتھ ہے ان میں سے کئی نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں بھی لکھیں مگر شائدہی کسی کتاب میں اعتراف گناہ کیا ہو۔ بڑے بڑے بیوروکریٹ نے بعد میں جمہوریت کا لبادہ بھی اُوڑھنےکی کوشش کی، کچھ آج بھی سیاست کا حصہ بننے اور اپنے اپنے کردار کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

سویلین حکمران بنے تو ان کی ہاں میں ہاں ملا دی فوجی آمریت آئی تو وعدہ معاف گواہ بن گئے اور جی حضوری میں لگ گئے۔ اگر صرف ان افسران کے اثاثوں کا ایمانداری سے حساب کیا جائے تو پاکستان کو قرضہ لینے کی ضرورت نا رہے۔ان سے اگر اجتماعی معافی نامہ کا کہا جائے تو اس میں بھی ایسی اصلاحتیں نکال لائیں گے جس سے خود کو نکال پائیں۔

اب آتے ہیں اعلیٰ عدلیہ کے کردار کی جانب۔ آج جو پاکستان ہمارے سامنے ہے، اسے یہاں تک پہنچانے میں عدلیہ کا کلیدی کردار ہے، اگر صرف یہ ادارہ یا ریاست کا ستون عدل و انصاف اور آئین کے تحفظ پر کھڑا رہتا اور صرف اور صرف انصاف کرتا تو قوم ناانصافی کی دلدل میں نہیں پھنستی چلی جاتی اور صرف ریاست کا یہ اہم ترین ستون کھڑا رہتا تو نا 1956 کے بعد کوئی دوسرا آئین بنتا نا کوئی مارشل لاء لگانے کی جرأت کرتا، ناملک دو لخت ہوتا مگر اس کی تو بنیاد ہی نظریہ ضرورت پر ڈال دی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس عدل و انصاف کے مینار نے ہر مارشل لاء کو قانونی اور جائز قرار دیا، منتخب اور مقبول وزیر اعظم کو تختہ دار تک پہنچانے میں آمر کا ساتھ دیا۔ 

جنہیں آئین توڑنے پر غدار کا سامنا کرنا چاہئے تھا انہیں آئین میں ترامیم لانے کا اختیار دے دیا گیا۔ چند سال پہلے ایک شخص کی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ اس کی بربریت کی صورت میں سامنے آیا تو انکشاف ہوا کہ اسے تو پھانسی ہو چکی ہے۔

ہاں عدلیہ میں کچھ آوازیں انہیں جنہوں نے اصول اور نظریہ کا ساتھ دیا اور آج بھی ہم مثالیں دیتے ہیں۔ جسٹس دور اب پٹیل، جسٹس فخرالدین جی ابراہیم، جسٹس کارنبولس اور جسٹس بھگوان داس جیسے باضمیر ججوں کی۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

آج بھی عدالیہ اسی ڈگر پر چلتی نظر آتی ہے، کبھی آدھی رات کو عدلیہ کے دروازے کھل جاتے ہیں تو کبھی دن میں بھی دروازے بند ہوتے ہیں، صرف یہ ایک ادارہ عدل و انصاف، پر کھڑا ہو جائے تو اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے حکمرانوں کا قانون نہیں۔ اپنے لیے اعلیٰ مرعاتیں اور اگر کوئی عام آدمی پنشن نا ملنے پر عدالت کو رجوع کرے تو انصاف ملتے ملتے وہ اپنے رب کے پاس چلا جاتا ہے جہاں اصل انصاف ہوتا ہے۔

ہماری عدالتیں تاریخ ماسوائے، شرمندگی کے اور کچھ نہیں بس چند مثالوں پر گزارا ہے۔ کبھی آئین توڑنے والے کو تحفظ دیا تو کبھی آئین بنانے والے کو پھانسی دلوانے میں کردار ادا کیا۔ کبھی کسی آمر کی حفاظت کی اور منتخب وزیر اعظم کو عمر قید دے دی گئی اور آرٹیکل 6کے بجائے محفوظ راستے دینے میں مدد فراہم کی۔ ناانصافیوں اور غیر آئینی اقدامات کی لمبی فہرست ہےجس کی اجتماعی معافی تو بنتی ہی ہے مگر لگتا نہیں کہ کوئی سبق سیکھا گیا ہے یا سیکھا جائے گا۔

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

اک بڑی معافی تو اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں اور قائدین کی بھی بنتی ہے جو کبھی مارشل لاء لگنے پر مٹھائی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی اس کا حصہ بنتے ہیں اور کبھی ہائبرڈ جیسے غیر جمہوری فارمولا پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاستدانوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے صرف اور صرف غیر سیاسی قوتوں کو مضبوط کیا اور جمہوریت کو کمزور۔ کیا جمہوریت کبھی ہائبرڈ ہوتی ہے وہ تو یا ہوتی ہے یا نہیں ۔ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان یا تو آمریت کے بطن سے نکلے یا ان آمروں کا ساتھ دیا ،ورنہ انہیں10سال ، 11سال اور 9سال نہیں ملتے۔ 

کبھی بنیادی جمہوریت کا لبادہ اوڈھا، کبھی غیر جماعتی نظام کا تو کبھی ہائبرڈ نظام کا حصہ بن کر سویلین اسپیس کو سر نڈر کیا۔ کسی نے 58-2(B) جسے کالے قانون کے تخت حکومت گرائی یا وزیر اعظم کو برطرف کیا، یہ سیاستدان ہی توتھے جو اسے جمہوریت کی طع قلع قرار دے رہے تھے۔ یوں سیاست کو ہی کاروبار بنا لیا گیا اور آہستہ آہستہ سویلین اسپیس نان سویلین نے لے لی۔ اس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا لیاقت علی خان سے لے کر شہباز شریف تک۔ 

ہماری بدقسمتی یہ بھی رہی کہ پہلے وزیر اعظم کے قتل سے لے کر مسلم دنیا کی پہلی منتخب وزیرا عظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مجرم پکڑے گئے نا سازش بے نقاب آئی۔ ایک وزیر اعظم کو عمر قید کی سزا ہوئی یعنی نواز شریف کو تو اس کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کرانے کے لئے اپیل دائر کی گئی اور پھر ڈیل ہوگئی، جنرل پرویز مشرف کو محفوظ راستے دے دیا گیا، اس سے پہلے میاں صاحب سعودی عرب اپنے خاندان کےساتھ شفٹ ہوگئے۔ کرپشن اور میرٹ کا قتل بھی ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے جس سے لگتا یہی ہے کہ معافی نہیں مانگی گئی۔

2008 سے 2025تک جیسی تیسی ہی صحیح ایک سویلین ادوار کا سلسلہ جاری ہے مگر پھر بھی یہ جمہوریت نہیں لگتی۔ کیا جمہوریت میں بھی ایسے قوانین بنتے ہیں کہ کسی شخص کو 90 روز سے لے کر چھ ماہ تک قید میں بنا کچھ بتائے رکھا جا سکتا ہے۔

کل جس صورت حال کا سامنا میاں صاحب یا بھٹو خاندان کو کرنا پڑا، کم و بیش ویسی ہی صورتحال کا سامنا اس وقت عمران خان کو کرنا پڑ رہا ہے۔ کاش عمران خان، آصف علی زرداری یا شریف برادران تاریخ سے سبق سیکھتےاور ایک ہائبرڈ نظام کا حصہ بننے سے انکار کردیتے۔ ہمارا اور ہماری سیاست کا المیہ ہی یہی ہے کہ حق اچھا پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔تم بھی کوئی سقراط ہو سولی پر چڑھو اور خاموش رہو۔

اس وقت عمران کو کم وبیش ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماضی میں عمران نے معافی جنرل پرویز مشرف کی حمایت پر مانگی مگر اس وقت اس کو 9مئی والے سانحات کا سامنا ہے۔ سیاسی طور پر اس پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔ اس روز 2023میں جو ہوا وہ نا صرف قابل مذمت ہے بلکہ ملک کو کمزور کرنے اور جمہوریت کو ڈھیر کرنے کی گہری سازش تھی۔ 

اگر خان صاحب فوری طور پر 9مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے توآج صورتحال مختلف ہوتی۔ اب بات معافی تک آ گئی ہے اور کسی بھی ممکنہ مذاکرات اور بات چیت کو مشروط کر دیا گیا ہے۔ صدق دل سے معافی۔ اس وقت بہرحال تحریک انصاف مشکل میں ہے جبکہ کل تک ہائبرڈ نظام کے شدید مخالف آج اس کو آگے بڑھنے کا راستہ کہہ رہے ہیں۔

ایک اجتماعی معافی میڈیا یا ریاست کے چوتھے ستون کی بھی بنتی ہے۔ اس ستون کو معاشرہ کا آئینہ بنناتھا مگر اس نے صرف آئینہ کے سامنے اپنے آپ کوخوب سنورانے کے لئے استعمال کیا اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ یہ سیاستدان واقعی ایسے سنوارےکہ اصل اسٹوری ہی بھول گئے۔ خبریں پیچھے اور کاروبار آگے آ گیا۔ نتیجہ جمہوریت، آئین کی جدوجہد کرنے والوں کو ملنا چاہئے تھا لیکن ہم پس آئینہ کوئی اور ہے کو ہی تلاش نا کر سکے۔

سیاست نظریہ تھی ہمارے بیشتر سیاست دانوں نے اس کو اپنا اپنا کاروبار بنا لیا۔ آج ماشا اللہ گلی محلوں میں موٹر سائیکل لے کر جانے والوں کو اب بڑی گاڑیاں لے جاتے ہوئے مشکل میڈیا اور صحافت یا صحافیوں کی بنیادی ذمہ داری جیسی تمام غیر آئینی اور اخلاقیات سے گری چیزوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے تھی مگر وہ تو خود حصہ دار بن گئے۔ آئینہ دکھانے کے بجائے اب جمہوریت کی بات آئے تو اگر مگر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 

مدیر کا ادارہ ہی ختم نہیں ہوا مدیر ہی ختم ہوگئے اب ا داریہ بھی نہیں رہا۔ پرنٹ سے لے کر ڈیجیٹل دور تک صحافت اب عوام کی عکاسی نہیں ہے نا ہی اس کو اجازت ہے۔ پس آئینہ کوئی اور ہے۔ ایسے میں معافی تو بنتی ہے کہ ہم نے خبر کے بجائے کاروبار یا اشتہارات کو فوقیت دی۔ خبر دینے والا صحافی قبر تک جا سکتا ہے اور ایسی مثالیں سو سے زائد صحافیوں نے جان کا نذرانہ دے کر کسی حد تک خبر کی حرمت کو برقرار رکھا ،شاید اسی وجہ سے صحافت آج بھی زندہ ہے۔

معافی تو اہل دانش کی بھی بنتی ہے، جنہوں نے غاصبوں کو قصیدوں سے ہمکنار کیا۔ بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلوا یا تھا۔ گدا گراتے ستم کے ہجوم سامنے میں۔ کل بھٹو نے معافی سے انکار کیا تو اس کے چاہنے والے آج بھی نعرہ لگاتے ہیں۔ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے بھی یہی کرتے ہیں۔

آخر میں میرا معافی نامہ حاضر ہے۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میں نے جمہوریت کے خواب دیکھے۔ معافی کا طلب گار ہوں کہ اس ملک میں ہمیشہ قانون اور آئین کی حکمرانی کی بات کی۔ معافی چاہتا ہوں کہ میں نے جناح کے پاکستان کا خواب دیکھا۔ معاف کیجیے گا کہ میں نے دربار میں حاضری سے انکار کیا۔ 

میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے سالہ سال سے اعلیٰ عدلیہ کے نظریہ ضرورت کو ضرورت کا نظریہ کہا۔ معذرت خواہ ہوں کہ اداروں کے سیاسی کردار پر تنقید کی۔ اعتراف ہے کہ بحیثیت صحافی کوشش کی صحافت کی حرمت کو برقرار رکھنے کی جس کا نقصان اٹھایا۔

دوستوں، معافی کبھی بھی انسان کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرتی ہے۔بعض اوقات آپ کو ناکردہ گناہوں کی بھی سزا ملتی ہے، البتہ معافی یا معذرت اگر واقع کوئی غلطی یا بلینڈر ہو جائے تو سبق یہ ہوتا ہے کہ آئندہ وہ غلطی نا ہو۔ ہماری ایک طویل تاریخ ہے غلطیوں کی مگر اب وقت ہے کہ کیوں نا ایک اجتماعی معافی نامہ تیار کیا جائے چاروں ستونوں کا اور آگے بڑھنے کا، سمت کےتعین کا راستہ نکالا جائے۔ ملک تقسیم ہو گیا، قوم تقسیم ہو گئی اب بس کر دیں… کہیں دیر نا ہو جائے۔ سب کو غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہم ’’معافی‘‘ مانگیں گے؟ کیس عمران خان کا ہو، ذوالفقار علی بھٹو کا، نواز شریف کا یا الطاف حسین کا۔ بات چار آمرانہ ادوار کی ہو یا ہائبرڈ سولین حکمرانی کی۔ اعلیٰ عدلیہ کی ہو یا ریاست کے چوتھے ستون ، میڈیا کی، ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو وہ سب کو معاف کرے یا انصاف کرے۔ یہ ہی ہماری 78سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے دیکھتے ہیں فیصلہ ساز کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ 

بہت تقسیم ہوگئے کبھی زبان کے نام پر تو کبھی لسان کے نمام پر، کبھی مذہب نام پر تو کبھی فرقوں کے نام پر، کبھی برادری کے نام پر تو کبھی قومیت کے نام پر۔ بس کر دیں اور آئیں اک بار ’ اجتماعی معافی، مانگیں پاکستان کو پاکستان نا بنانے کی وہ جمہوری اور فلائی ریاست نا بنانے کی جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور تعبیر جناح نے دی … مگر پھر ریاستی پالیسوں اور اجتماعی غلطیوں نے ہم کو یہاں لا کھڑا کیا جہاں سے ہم کو بھی ہماری خبر نہیں۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید