• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم کے آئینی تصورات اور پاکستان کا دستوری سفر

پاکستان نے آزادی کے بعد سے اب تک اپنا تقریباً سارا سفر سیاسی بحرانوں اور آئینی تنازعات کی آغوش میں طے کیا ہے۔ لامحالہ ایسے موقعوں پر جبکہ ان بحرانوں اور تنازعات کی صورت حال درپیش ہوتی ہے، تو فطری طور پر ان کی بنیادوں کا کھوج لگاتے ہوئے ذہن ملک کے قیام اور اس وقت کے عزائم اور بانیان ِ ملک کے افکارو خیالات تک سفر کرنے لگتا ہے۔

یہ سفر اس لحاظ سے سودمند بھی رہتا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ مملکت کا جواز کیا تھا، ملک کے قیام کے وقت اس کو کس سمت میں لے جانے کے فیصلے ہوئے تھے اور ہمارے رہنماؤں نے عوام کے سامنے نئے ملک کا کیا وژن پیش کیا تھا۔

ایسے موقعوں پر ماضی، حال، تاریخ اور سیاست کے درمیان ایک مکالمے کی سبیل بھی پیدا ہوتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں قائد اعظم کے یوم پیدائش پر حال کی کشمکش کو ماضی میں پیش کردہ مثالیوں کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش نذر قارئین۔

……٭٭……٭٭……

اس سال قائداعظم کا یوم پیدائش ایک ایسے وقت آیا ہے جبکہ ملک ایک مرتبہ پھر آئینی مباحثوں اور تنازعات کی زد میں ہے۔ 1973ء کے متفقہ آئین میں ریاست کے تینوں ستونوں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے دائرہ کارکے لیے جو حدود رکھی گئی تھیں، ان کے بارے میں ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ ان کا پاس نہیں کیا جارہا۔ 

ہمارا آئین اختیارات کی تثیلث(Trichotomy of Powers)کے جس تصور پر استوار کیا گیا تھا، وہ بڑی حد تک مجروح ہوچکا ہے، ایک عرصے سے اداروں کے درمیان کھینچ تان کا عمل جاری ہے جس سے ریاست کا بنیادی آئینی اور جمہوری ڈھانچہ متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ کا یہ بڑا اور مستقل المیہ رہا ہے کہ ملک کو جس سیاسی و آئینی اساس کے ساتھ وجود میں لایا گیا تھا، اُس سے انحراف اور روگردانی بجائے خود ایک مستقل روش بن چکی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی بنیادی وجہ یہ قرار پائی تھی کہ برطانوی استعمار کے زمانے میں جب ہندو اکثریت اورمسلم اقلیت کا سیاسی تضاد امرِ واقعہ بن گیاتو اس تضاد کو حل کرنے کے کسی آئینی فارمولے کی تلاش شروع ہوئی، مگر برسہا برس کی کوششوں کے باوجود اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ کانگریس اور مسلم لیگ ،دونوں جماعتیں دو مختلف نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ہندوستان کے آئینی مسئلے کو دیکھ رہی تھیں۔

کانگریس ایک مضبوط مرکز کی دلدادہ تھی، اس کا خیال تھا کہ مضبوط مرکزہی ہندوستان کی وحدت کی ضمانت فراہم کرسکے گا۔ اس کے برعکس قائداعظم اور مسلم لیگ کا خیال تھا کہ ہندوستان میں ایک ایسا وفاق ہی اتحاد کی ضمانت بن سکتا ہے جس میں صوبوں کوواضح خودمختاری حاصل ہو۔ 

قائداعظم کا یہ بھی خیال تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اپنی مجموعی عددی کمتری کا تدارک یوں کرسکتے ہیں کہ ایک تو مسلم اکثریتی صوبوں کو خودمختاری حاصل ہو، دوسرے یہ کہ مسلم اکثریتی صوبوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے۔

اسی سیاسی اور آئینی مطالبے کو جب ایک نظریاتی بیانیے کی شکل دینا مطلوب ہوئی تو قائداعظم ایک عرصہ مسلمانوں کو ایک ایسی اقلیت کے طور پر پیش کرتے رہے جس کے لیے اُن کا مطالبہ تھا کہ اس کو ملک کے مجموعی نظام میں اتنا حصہ اور نمائندگی ضروردی جائے جو اس کو اعتماد سے ہمکنار کرسکے اور وہ ایک معمولی اقلیت بن کر دوسرے درجے کے شہری نہ بن جائیں۔

بعد ازاں جب کانگریس اور ہندوستان کی دوسری تنظیموں کی طرف سے اس موقف کی شنوائی نہیں ہوسکی تو 1937ء کے بعد قائداعظم نے مسلمانوں کے علیحدہ قومی وجود اور دو قومی نظریے کو ایک بیانیے اور ایک دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کیا لیکن یہاں بھی ان کا مدعا بنیادی طور پر مسلمانوں کے لیے ایک ایسی حیثیت کا حصول تھا جس میں وہ خود کو ریاست کے برابر کے شہری تصور کرسکتے۔

مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور میں ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں بلکہ اس کے مسلم اکثریتی خطوں کو جداگانہ طور پر متشکل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ قرارداد میں پیش کردہ نقشہ کار کو مستقبل کے ایک آئینی دروبست کے لیے مسلم لیگ کی تجویزیا مطالبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ 

ظاہر ہے کہ آئین ملک پر خطِ تنسیخ کھینچنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو جوڑنے اور اس کو متحد رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قراردادِ لاہور ہندوستان کی ایک مجوزہ کنفیڈریشن کی تجویز کی حیثیت رکھتی تھی،گو کہ اس میں کنفیڈریشن کا لفظ استعمال نہیں ہوا تھا۔

قیام پاکستان کی آئینی بنیادیں

1940ء کے عشرے کے اوائل میں جب یہ بات واضح ہوئی کہ دوسر ی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ ہندوستان کی اپنی نو آبادی سے نکل جائے گا تو آئندہ کے سیاسی و آئینی نقشے پر بھی اس حوالے سے گفتگو شروع ہوئی کہ کیا بعد میں ہندوستان کے متحد رہنے کی صورت میں مسلمانوں کاایک اقلیت کا تشخص مستقبل میں ان کی سیاسی و اقتصادی نشوونما کی راہ میں حائل رہے گا یا ان کے لیے برابر کے شہری ہونے کا کوئی انتظام ہوسکے گا۔

اس گفتگو میں ایک مرتبہ پھر کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات کسی اتفاق تک نہیں پہنچ سکے، یہاں تک کہ انگریز کے واپس جانے کا وقت آپہنچا، ویسے بھی برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت اور وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی ہندوستان سے اب جلد از جلد گلوخلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ کسی قدرعجلت کے ساتھ ان کاہندوستان سے نکلنا طے پایا، جس کے نتیجے میں تقسیم ِ ہندکسی مضبوط منصوبے کے ساتھ نہیں ہوسکی اور لاکھوں لوگوں کی ہلاکت اور تقریباً سوا کروڑ انسانوں کی نقل مکانی پر منتج ہوئی۔

1945ء میں جس آئین ساز اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہوئے تھے، اس کا بھی اجلاس نہیں ہوسکا۔ اس اسمبلی میں وہ اراکین جو تقسیم ِ ہند کے وقت ہندوستان کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے وہ ہندوستان کا آئین بنانے پر فائز ہوئے جبکہ مسلم اکثریتی صوبوں کے اراکین پر پاکستان کا آئین بنانے کی ذمہ داری عائد ہوئی۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ برصغیر کی تقسیم ایک ایسا آئین بنانے میں ناکامی کا نتیجہ تھی جو تقریباً چالیس کروڑ کی اُس آبادی کو جوڑ کر رکھ سکتا جو غیر معمولی ثقافتی تنوعات کی حامل تھی اور اپنی ثقافتی شناختوں کو اپنی سیاسی پہچان بناتے ہوئے، ملک کے وسیع تر سیاسی نظام کا حصہ بننے کی کوشش کررہی تھی۔

پاکستان کا قیام چار اعتبار سے اس کی آئینی بنیادوں کے مطالعے کو ناگزیر بنادیتا ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ ہمارا ملک بنا ہی متحدہ ہندوستان کے کسی مشترکہ آئینی نظام کے متشکل نہ ہوپانے کے نتیجے میں تھا۔ دوسری یہ کہ ملک کے قیام سے پہلے ہی یہ بات ایک منشور کی حیثیت سے مسلم آبادی کے پیش نظر تھی کہ پاکستان ایک ایسا جمہوری وفاق ہوگا جو جدید قومی ریاستوں کے طرز پر اپنی ادارہ سازی کرے گا۔

تیسرا اہم پہلو جو پاکستان میں جمہوری و وفاقی آئین کی ناگزیریت پر دلالت کرتا تھاوہ یہ حقیقت تھی کہ جب تقسیم ہند کا فیصلہ ہوگیا تو سوال یہ تھا کہ مسلمان جو ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے ، وہ سب کسی ایک مملکت میں کیوں کر یکجا ہوسکتے تھے۔

چنانچہ ضروری تھا کہ ہندوستان کے ان علاقوں پر مشتمل ایک مسلم اکثریتی وفاق تشکیل دیا جائے جن علاقوں یا صوبوں میں وہ پہلے سے اکثریت میں موجود تھے۔ جب یہ فیصلہ ہوا کہ پاکستان کا وفاق مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ہوگا تو اگلا سوال یہ تھا کہ خود ان صوبوں کی اس ضمن میں کیا رائے ہوسکتی ہے۔

چنانچہ مسلم اکثریتی صوبوں سے ان کی رائے لی گئی جس کے مختلف طریقے اختیار کیے گئے لہٰذا یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ پاکستان کا وفاق کہیں اوپر سے تشکیل نہیں دیا گیا بلکہ یہ وحدتوں کا تشکیل کردہ ایک رضاکارانہ وفاق ہے۔

اس امر کو اس تاریخی حقیقت سے بھی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں جو چار صوبے مشرقی بنگال، پنجاب ، سندھ اورصوبہ سرحد_ تھے، وہ سیاسی، آئینی اور انتظامی اعتبار سے فعال صوبے تھے، ان کے دارالحکومت تھے، اسمبلیاں تھیں، حکومتیں تھیں، اور اپنے کچھ نہ کچھ خزانے تھے، جبکہ پاکستان کواپنا وفاقی مرکزخود ملک کے قیام کے بعد تشکیل دینا پڑا۔ دارالحکومت بنا، آئین سازاسمبلی بنی جو قانون ساز اسمبلی بھی تھی، وفاقی ادارے بنائے گئے، ریاست کا مرکزی بینک بنایا گیا۔ پاکستان کا وفاق پاکستان کی اساس قرار پایا۔

پاکستان کی آئینی بنیادوں کے حوالے سے چوتھا اہم پہلو خود بانی ٔ پاکستان کے سیاسی و آئینی تصورات ، ایک وکیل کی حیثیت سے ان کا کیریئر، اوران کا پورا طرزِ فکرو احساس اور زندگی کا قرینہ تھاجو آئین اور قانون کی رہنمائی سے مرتب ہوا تھا۔

قائداعظم کے سوانح نگار ہیکٹر بولائتھو(Hector Bolitho)نے اپنی کتاب Jinnah Creator of Pakistan)میں ایک پورا باب نوجوان وکیل کی حیثیت سے اُن کے ابتدائی کیرئیر پر لکھا ہے، جس میں عدالتوں میں ان کے دلائل، ججوں اور موکلوں کے ساتھ ان کے مکالموں اور انتہائی پیشہ ورانہ رویوں، اُن کی’سردمنطق‘ اور صرف قانون کی زبان پر انحصار کا ذکر ہے۔ قائداعظم نے قانون کو لبادے کے طور پر اوڑھ لیا تھا۔

قائداعظم کا آئینی طرز فکر، اور ان کے تصورات

آئین اور آئینی طرز حکمرانی کے حوالے سے قائداعظم کے طرز فکر کا اندازہ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کی سیاست میں ان کی دلچسپی اور قانون کے ساتھ ان کے پیشہ ورانہ تعلق کے ابتدائی دور کے مطالعہ سے ہی ہوجا تا ہے۔ ہندوستان میں انگریزی تسلط کے قیام، اور اس کے سلطنت ِ برطانیہ کی ایک نو آبادی بن جانے کے بعد برطانیہ کی طرف سے ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک پر مؤثر کنٹرول کے لیے حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ 

اس کی رُو سے برطانیہ نے ہندوستان میں نمائندہ ادارے قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ 1861میں برطانوی پارلیمنٹ نے انڈین کونسلز ایکٹ منظورکیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان میں مرکزی اور صوبائی سطح پر کونسلزبنائی گئیں۔1909میں انڈین کونسلزایکٹ آیا جس کے تحت بننے والی انڈین لیجسلیٹوکونسل میں قائداعظم 1910میں بمبئی کے مسلمانوں کے لیے مخصوص کی گئی نشست پر منتخب ہوئے۔ 1913میں ان کی مدت ختم ہوئی لیکن چونکہ بعض بلوں پر ان کی گفتگو ختم نہیں ہوئی تھی لہٰذا ان کو کونسل کا اضافی رکن بنایا گیا۔ قائداعظم مختلف وقفوں کے ساتھ بحیثیت مجموعی 39سال مرکزی لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن رہے ۔اس حیثیت میں انہوں نے قانون سازی کے عمل میں فعال کردار ادا کیا۔ 

اسمبلی میں ان کی تقاریر ان کے آزمودہ کار قانون دان اور پارلیمنٹیرین ہونے کی دلالت کرتی ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے جنہوں نے خود 1973کے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا تھا، قائداعظم کی، امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی میں کی گئی تقاریر پر مشتمل ایک کتاب کے پیش لفظ میں ان تقاریر کے حوالے سے قائداعظم کی پانچ خصوصیات کا ذکر کیا تھا۔

انڈین لیجسلیٹو اسمبلی میں قائداعظم نے جن موضوعات پر بہت زیادہ اظہار ِ خیال کیا ان میں ہندوستان میں حکومتِ خوداختیاری، جواب دہ حکومت، پارلیمانی نظام کا قیام، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری اور صوبائی خود مختاری کے موضوعات پیش پیش تھے۔ 1930میں لندن کی پہلی گول میز کانفرنس میں انہوں نے وفاقی نظام اور صوبائی خود مختاری کے حق میں دلائل دیے، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جدید وفاقی نظاموں کی داخلی حرکیات کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ 

ان نظاموں کی تفہیم ان کی 1940کی تقاریر،خاص طور سے 23مارچ کو پیش کردہ قرارداد ِ لاہور سے ایک روز قبل کی جانے والی تقریر میں بہت نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے ہندوستان کے مسئلے کو ایک بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا جس کا مطلب اس طرف اشارہ کرنا تھا کہ ہندوستان میں ایک یا دو نہیں بلکہ اس سے زائد قومیں آباد ہیں۔

پاکستان کے آئین کے حوالے سے قائداعظم کے خیالات 

یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے قبل ملک کے آئین کے حوالے سے مسلم لیگ نے کوئی قابلِ ذکر تیاری اور ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چند ماہ قبل تک یہ بات واضح نہیں تھی کہ انگریز کے جانے پر ہندوستان کا نقشہ کیا ہوگا۔ ملک تقسیم ہوگا کہ نہیں۔ اس صورت حال کے باوجود وقتاً فوقتاً قائداعظم اور لیگ کی جانب سے ایسے بیانات آتے رہے جن میں یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں جو آئین بنایا جائے گا اس کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے۔

8نومبر1945کو قائداعظم نے ایسوسی ایٹڈپریس آف امریکہ ) (Associated Press of America کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’پاکستان کا نظریہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قومی حکومت کے وفاقی یونٹ اس طرح کی خود مختاری کے حامل ہوں گے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے دساتیر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن چند اہم اختیارات مثلاً زری، نظام، دفاع اور بعض دیگر وفاقی ذمہ داریاں مرکزی حکومت کے پاس ہوں گی۔

 10دسمبر1945کو انہوں نے اس امر کا اعادہ کیاکہ ’’ پاکستان کی حکومت امکانی طور پر ایک وفاقی حکومت ہوگی جو صوبائی خودمختاری پراستوار کی جائے گی، جس میں دفاع اور امورِ خارجہ جیسے اہم اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے‘‘۔ اس بیان میں انہوں نے ’امکانی طور پر‘ کے الفاظ صرف اس لیے استعمال کیے کہ وہ اُس وقت اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر رہے تھے مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’آئین کا بنانا آئین ساز اسمبلی کا کام ہوگا اور وہی اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرے گی‘‘۔

پاکستان کے دستور کے حوالے سے قائداعظم کے سوچ بچار کی بابت بھی کئی لوگوں نے ذاتی تعلقات اور مشاہدات کے حوالے سے کچھ باتیں لکھی ہیں۔مثلاً حکیم محمد احسن قیام پاکستان کے وقت کراچی کے میئر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’قائداعظم اُن دنوں مختلف ملکوں کے دساتیر کا مطالعہ کررہے تھے،ایک موقعے پر قائداعظم کے ہاتھ میں سوئٹزرلینڈ کا آئین بھی دیکھا۔

وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ سوئٹزرلینڈ نے، جو جغرافیائی اعتبار سے یورپ کے کئی متحارب ملکوں کے بیچ میں واقع ہے کس طرح اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھا ہوا ہے، قائداعظم نے ایک موقع پر کوئٹہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہم پاکستان کو اٹھارہ مہینے کے اندر ایک آئین دے دیں گے ‘‘۔

قائداعظم کے پیش نظر پاکستان کا تصور ایک جدید قومی ریاست کا تصور تھا۔اٹھارہویں صدی سے وجود میں آنے والی یہ ریاستیں آئینی دروبست پر ہی اپنی بنیادیں رکھتی رہی ہیں۔ ان بنیادوں میں اساسی تصور قوموں کے حق خودارادی اور ان کے اقتدار اعلیٰ(Sovereignity)کا تصورہے۔ 

نیز، یہ ریاستیں جمہوری نظام کی علمبردار رہی ہیں۔ان کے آئین شہریوں اور ریاست کے درمیان ایک سماجی معاہدے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شہری، ریاست کے قوانین پر عملدرآمدکا عزم ظاہر کرتے ہیں، جبکہ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن بنتی ہے۔

بنیادی حقوق جو آئین کا سب سے مقدس حصہ ہوتے ہیں صرف اس صورت میں اپنا اعتبار رکھتے ہیں جبکہ وہ سب شہریوں کو یکساں طور پر دستیاب ہوں۔قائداعظم کے ان اساسی تصورات نے ایک واضح اعلان کی صورت میں ان کی 11اگست 1947ء کی اس تقریر میں جگہ پائی جو انہوں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اسمبلی کے منتخب صدر کی حیثیت سےکی۔

پاکستان کا غیر ہموار آئینی سفر

آزادی سے اب تک پاکستا ن کا آئینی سفربحیثیت مجموعی غیر ہموار اور عدم تسلسل کا شکار رہا ہے۔ ایک قابل عمل اور متفقہ آئین کی عدم موجودگی میں آزادی کے چوبیس سال بعد ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور آبادی کے لحاظ سے اس کا سب سے بڑا صوبہ علیحدہ ہوگیا۔ 1973ء میں ایک متفقہ آئین وجود میں آیا لیکن دو مرتبہ فوج کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں یہ طویل عرصوں کے لیے تعطل کا شکار رہا۔ تدوین سے لے کر اب تک اس میں کئی ترامیم کی جاچکی ہیں، کچھ ترامیم دستور کو اس کی اصل شکل سے دورلے جانے کا سبب بنیں جبکہ بعض ترامیم اس کو اصل شکل میں واپس لانے کے پیش نظر کی گئیں۔

آزادی کے وقت پاکستان کو قانون ہند مجریہ 1935ء کو اپنے عبوری دستور کے طور پر قبول کرنا پڑا۔ مذکورہ ایکٹ کو ہندوستان نے بھی عبوری دستور کے طور پر اختیار کیا مگر وہ`1950میں اپنا مستقل دستور بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان کو یہ کامیابی نو سال بعد 1956میں حاصل ہوئی۔ یہ دستور بھی جو مشکل مصالحتوں کے بعد آیا تھا، تقریباً ڈھائی سال بعد اُس وقت ختم ہوگیا جب ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔

جنرل ایوب خان نے چار سال مارشل لاء جاری رکھا اور 1962ء میں خود ملک کو ایک آئین دے کر مارشل لاء تو ہٹا دیا لیکن ملک میں ایک سویلین آمریت قائم کردی، جب اس آئین اور اپنی آمریت کے خلاف عوامی اور جمہوری تحریک کو وہ کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے تو 1969ء میں اپنے ہی آئین کو کالعدم قرار دے کر ملک کو ایک اور مارشل لاء کی نذر کرکے چلے گئے۔

دوسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے ایک نیا آئین بنوانے کا ڈول ڈالا لیکن آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے واضح اکثریت حاصل کرلینے کے بعد اور اس فیصلے کو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں ملک میں جو بحران آیا، مشرقی خطے میں سول نافرمانی کی جو تحریک چلی، اسےکچلنے کے لیے جو فوجی آپریشن ہوا وہ بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ اس سانحے کے بعد ہی 1973ء کا آئین بننا ممکن ہوا، مگر وہ بھی بعد میں دو فوجی آمریتوں کا ہدف بنا۔

1973ء کے آئین پر جو افتاد پڑی اس کے کئی پہلو ہیں۔ 1977ء اور پھر 1999ء میں جب اس آئین کو معطل کیا گیا تو ا س کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوا، پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام کی شکل دینے کی کوشش کی گئی، دونوں مرتبہ آئین کی بحالی اس شرط پر کی گئی کہ نئی اسمبلیاں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کو آئین کا حصہ بنائیں، اورصدر کو اسمبلی توڑنے اور منتخب حکومت کو رخصت کرنے کا اختیار ہو۔

دونوں مواقع پر فوج کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی نہ صرف قومی اسمبلی توڑ دی گئی بلکہ سینیٹ کو بھی ختم کردیا گیا جو ایوان بالا اوروفاق کا ایوان ہونے کا تشخص رکھتا تھا، جس کا تسلسل ایک دن یا ایک گھنٹے کے لیے بھی ختم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وفاق کا یہ ایوان برسوں ریاست کے نظام سے غیر حاضر رہا۔ان فوجی حکومتوں میں نیشنل فائننس کمیشن اورکونسل آف کامن انٹرسٹس جیسے کلیدی ادارے بھی غیر موجود اور غیر موثر رہے۔ ان ادوار میں بنیادی حقوق بھی متاثر رہے۔

2007ء میں جنرل مشرف کی حکومت کے زمانے میں، حکومت اور عدلیہ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی۔ جنرل مشرف نے، چیف جسٹس افتخار چوہدری کوبرطرف کردیاکیا۔ اس پر پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی وکیلوں کی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی، چیف جسٹس بحال ہوئے لیکن پھر نومبر2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے ان کو ایک مرتبہ پھر الگ کردیا گیا، بعد ازاں ان کی بحالی کی ایک اور تحریک شرو ع ہوئی۔ اب پیپلز پارٹی حکومت میں آچکی تھی ۔چیف جسٹس صاحب کچھ عرصے بعد پھر بحال ہوئے مگر یہاں سے پاکستان میں اداروں کی باہمی کشمکش کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ایک طرف عدلیہ، دوسری طرف انتظامیہ اور مقننہ آمنے سامنے آگئے۔

اس پورے عرصے میں انتظامیہ کا وہ حصہ جو عسکریت کی نمائندگی کرتا ہے، فی الواقعی ملک کی باختیار ترین قوت بھی ہے ، کبھی عدلیہ اور کبھی انتظامیہ کی پشت بانی کرتار ہا ہے ۔2010ء میں دستور میں اٹھارہویں ترمیم متعارف کی گئی جس نے ایک طرف پارلیمانی نظام بحال کیا اور بڑے پیمانے پر اختیارات کی صوبوں کی طرف منتقلی کا اہتمام کیا، وہیں عدلیہ کے حوالے سے بھی بعض ایسے بنیادی فیصلے کیے جن سے جج صاحبان کو اپنے اختیارات او ر دائرہ کار کی تحدید کا خطرہ محسوس ہو ا۔ سپریم کورٹ کے دباؤ ہی پر مقننہ کو انیسویں ترمیم کو کتاب دستور میں جگہ دینی پڑی جس سے ججوں کے تقررکے عمل میں خود عدلیہ کو بالادستی حاصل ہوئی اور مقننہ اور انتظامیہ کو مجبورا ً اس عدم توازن کو قبول کرنا پڑا۔

آئندہ برسوں میں اعلیٰ عدلیہ کے بے شمار فیصلے انتظامیہ اور مقننہ کے نقطہ نظر سے محل ِ نظر ثابت ہوئے۔ مثلاً کم از کم دو وزرائے اعظم کو بہت کمزور مقدموں میں ان کے مناصب سے الگ کردیا گیا۔ بعض اوقات عدلیہ کسی حکومت کے لیے بہت زیادہ طرف داری کا بھی مظاہرہ کرتی رہی جس سے حزب اختلا ف کو شکایتیں پیدا ہوئیں۔

بالآخرعمران خان کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں نے قانون سازی اور آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کو ایک مرتبہ پھر محدود کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترامیم اسی رجحان کا مظہر بنیں۔

ستائیسویں ترمیم نے عدلیہ کے ڈھانچے کو بھی ازسرِ نو مرتب کیا۔ اس پر بھی اعتراضات ہوئے اور یہ اب تک بحث ومباحثے کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس پوری صورت حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ادارے اس بنیادی فلسفے سے ہم آہنگ نہیں ہوپارہے جو کامیاب اور آزمودہ پارلیمانی نظاموں میں تثلیثِ اختیارات (Trichotomy of Powers) کی شکل میں سیاسی نظام اور آئینی دروبست کی فعالیت کا اہتمام کرتا ہے۔

اس ساری کھینچا تانی کے پیچھے ایک اہم عامل ملک کی وہ قوتیں ہیں جن کو آئین نے کوئی سیاسی کردار نہیں دیا لیکن جو تاریخی طور پر ایک مقتدر قوت بن چکی ہیں اور جن کے عمل دخل کی وجہ سے تثلیثِ اختیارات کا نظام تمام و کمال مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے ہاتھوں میں بھی نہیں رہا ۔

پاکستان کا آئینی اکھاڑ پچھاڑ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک کہ مملکت کے بنیادی اور اساسی آئینی تصورات سے رہنمائی نہ حاصل کی جائے۔ یہ تصورات جدید قومی ریاستوں کو بھی اساس فراہم کرتے ہیں۔ بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان کے لیے وژن بھی انہی تصورات پر استوار ہوا تھا۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید