• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ‎

دہشت گردی نے سال 2025 میں جنوبی ایشیا کے خطے کو ہلا کر رکھ دیا پہلے ‎پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک محدود جنگ ہوئی اور پھر دہشت گردی کے ‎باعث پاکستان و افغانستان کے تعلقات اتنے کشیدہ ہوئے کہ پاکستان نے ‎افغانستان کے ساتھ سرحد مکمل طور پر بند کردی۔ 

سال کا آغاز یکم جنوری‎2025 کو بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں سے ہوا -‎11 مارچ 2025 کو بلوچستان میں بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس ریل کو‎مبینہ طور پر کالعدم قرار دی گئی بلوچ لبریشن آرمی نے کچھ دیر کے لیے‎اغوا کیا۔ عسکریت پسندوں نے پٹری پر دھماکا خیز مواد نصب کیا اور کوئٹہ‎ سے پشاور جانے والی ٹرین پر فائرنگ کی۔ جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ان‎ عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور ایکشن کیا۔‎

پاکستان نے سرکاری طورپر 3 روز بعد یعنی 14 مارچ 2025 کو 31 ہلاکتوں کی‎ تصدیق کی، جن میں 23 سیکورٹی اہلکار شامل تھے۔ ان میں 18 ڈیوٹی سے باہر‎سفر کرنے والے اہلکار اور فرنٹیئر کور کے 5 اہلکار شامل تھے۔ اس واقعے‎میں ریلوے کے 3 ملازمین اور 5 عام شہری بھی جان سے گئے۔ 

سیکیورٹی فورسز‎ نے ’’آپریشن گرین بولان‘‘ کے دوران بلوچ لبریشن آرمی کے 33 حملہ آوروں‎ کو ہلاک کر دیا، جس کے بعد مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 64 ہوگئی،37 سے 38مسافر زخمی ہوئے، جبکہ تقریباً 30گھنٹے طویل ‎آپریشن کے بعد کل 425مسافروں میں سے 354یرغمالیوں کو بحفاظت نکال لیا‎گیا۔ 

پاکستان کی طرف سے اس واقعے میں بھارت نواز “فتنہ الخوارج” کے ملوث ‎ہونے کی نشاندہی کی گئی ۔ مبینہ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کی طرف سے‎اس بڑی کاروائی کے علاوہ بلوچستان میں دیگر چھوٹی کاروائیاں بھی کی جاتی ‎رہیں۔ ‎22 اپریل 2025 کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے خوبصورت علاقے پہلگام میں‎ دہشت گردی کا ایک واقعہ رونما ہو ا جس میں 3مبینہ عسکریت پسندوں نے ایک‎ مسلمان سمیت 26افراد کو نشانہ بنایا، جس نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ‎ دیا۔

پاکستان نے فوری طور پر بھارت میں ہونے والی اس دہشت گردی کی کھلے‎الفاظ میں مذمت کی مگر بھارت کی طرف سے فوری طور پر بلا تحقیق اس واقعے‎میں پاکستان کے ملوث ہونے کا دعوی کردیا،جس کی پاکستان نے بھرپور ‎تردید کی۔

‎معاملہ یہیں نہیں رکا۔ بھارت نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر‎ آپریشن سندور کے نام سے 6سے 9 جولائی 2025 تک حملے کیے، جس کے جواب میں پاکستانی فضائیہ کی بھرپور کاروائی نے بھارت کے‎نہ صرف 6 جنگی طیارے گرا دئیے بلکہ بھارت فضائیہ کم و بیش اگلے دو روز تک ‎زمین سے کوئی پرواز نہ لے سکی۔ اس واقعے پر پاکستان کے جواب کے باعث‎ بھارت کو عالمی سطح پر سبکی اٹھانا پڑی۔ 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کم و بیش‎ایک درجن سے زائد بار پاکستان کی طرف سے بھارتی طیارے گرائے جانے کا‎بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو طعنہ دیتے عالمی میڈیا پر دکھائی دئیے۔ ‎دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے واقعے کی بنا پر ہونے والی بلا تحقیق‎ محاز آرائی اتنی شدید تھی کہ عملی طورپر خطے پر نیوکلئیر جنگ کے بادل‎ منڈلانے لگے تھے۔ اسی وجہ سے ابتدا میں لاتعلق امریکہ انٹیلی جینس‎ معلومات ملتے ہی دوبارہ متحرک ہوا اور معاملہ ٹھنڈا کرایا۔

پاکستان کے بھارت سے تعلقات کی محدود نوعیت جنگ میں اتنا جانی نقصان نہیں‎ ہوا جتنا جانی نقصان پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ان واقعات سے ہوا جن کے ‎بارے میں پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ یہ کاروائیاں کالعدم دہشت گرد ‎تنظیمیں افغانستان کی سرزمین سے کرتی ہیں۔ 28جون 2025 کو شمالی وزیرستان‎کے علاقے، نور میر علی میں مطلوب عسکریت پسند مولوی گل بہادر گروپ نے مبینہ ‎طور پر سیکیورٹی قافلے پرخودکش حملہ کیا ،جس سے پاک افغان تعلقات میں تلخی‎آئی، کیونکہ واقعے میں 16سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ 

پاکستان نے نہ صرف‎ مولوی گل بہادر گروپ پر انگلی اٹھائی بلکہ موقف اختیار کیا کہ یہ گروپ ‎افغانستان میں چھپ کر پاکستان کے خلاف کاروائیاں کررہا ہے۔ دہشت گردی کے‎ خیبرپختونخواہ میں اسی نوعیت کے واقعات میں اضافے کے بعد پاکستان نے 10‎ اور 11اکتوبر 2025 کو افغانستان کے اندر خوست، پکتیکا اور پکتیا کے صوبوں‎ میں فضائی کاروائی کرکے مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا‎اعلان کیا۔ 

اس کے بعد افغانستان نے پاکستان کے خلاف بلااشتعال فائرنگ ‎اور چھاپہ مار سرحدی کاروائیاں کیں، جن سے پاکستان کے 23جوانوں کی شہادت‎ ہوئی۔ ردعمل کے طور پر پاکستان کی کاروائی میں کم و بیش 200 طالبان جنگجووں‎کی ہلاکت کی رپورٹس سامنے آئیں۔

ردعمل کے‎طورپر پاکستان نے اکتوبر کے وسط میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو مکمل طور پر بند کردیا، جس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت تعطل کا‎ شکار ہوگئی بلکہ تادم تحریر دونوں ملکوں کے درمیان ہرطرح کی تجارت بھی بند ‎ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ سرحد پہلے ہی بند ہے جبکہ بلوچستان میں کشیدگی کے باعث ایران کے ساتھ بھی زمینی راستہ گزرے سال بند کردیا گیا۔

‎پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعہ اتنا شدت اختیار کرگیا کہ برادر اسلامی ملک ‎قطر اور ترکیہ نے دونوں ملکوں کو دوحہ میں دعوت دی جہاں وزیردفاع خواجہ ‎آصف اور افغان وزیر دفاع ملا یعقوب و دیگر کے درمیان 18 اور 19 اکتوبر کے‎ مذاکرات کے بعد سیز فائر کا اعلان ہوا۔بعد ازاں 25اکتوبر اور 7 نومبر کو ‎ترکیہ کے شہر استنبول میں مذاکرات کے دو ادوار ہوئے جو بے نتیجہ نکلے۔

‎پاکستان کاموقف آیا کہ دونوں ادوار میں افغان طالبان پاکستان  میں دہشت گرد حملوں کی روک تھام کے لیے تحریری یقین دہانی کرانے سے گریزاں رہے‎، یہی وجہ مذاکرات کی ناکامی بنی۔ دسمبر کے آغاز میں پاکستان اور‎ افغانستان کے وفود کی خاموشی سے سعودی عرب میں روانگی کی اطلاعات سامنے‎ آئیں جن کا زریعہ افغان میڈیا تھا۔

پاکستانی حکام نے نام ظاہر کیے بغیر‎ اپنے وفد کی سعودی عرب میں موجودگی کی تصدیق تو کی مگر مذاکرات کے نتائج‎ کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں‎ بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر میں‎ توسیع ہوگئی۔‎ اس سے پہلے سال 2024 کے اعدادو شمار کی روشنی میں پاکستان دہشت گردی کے‎ متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر تھا۔ 

یہ بات آسٹریلیا کے ممتاز تھنک‎ ٹینک انسٹیٹوٹ فاراکنامکس اینڈ پیس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں کہی گئی‎ تھی، جس میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک میں‎، برکینوفاسو کو پہلے نمبر پر قراردیا گیا جبکہ، پاکستان دوسرے ، شام تیسرے‎، مالی چوتھے، نائجر پانچویں، نائیجیریا چھٹے، صومالیہ ساتویں اور اسرائیل‎ آٹھویں نمبر پر رہا۔ لیکن اعدادوشمار کی حالیہ صورتحال اس بات کا عندیہ دے ‎رہی ہے کہ نئے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان شائد پہلے نمبر پر آجائے ‎گا۔

‎اگر غیر سرکاری اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو سال 2025 میں پاکستان میں دہشت گردی کے کل 1000 واقعات نوٹ کیے گئے، جبکہ 2024‎میں کل 790 واقعات درج کیے گئے تھے۔ داخلی طور پر پاکستان کے دو صوبوں‎ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ گزرے سال خیبرپختونخواہ میں کم و بیش 514واقعات میں 242شہری اور 420‎سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ 

خیبرپختونخواہ میں موجود تحریک انصاف حکومت‎ نےدہشت گردی کے معاملے کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت اور فوج کے بیانیے سے ‎متصادم بیانیہ اختیار کیے رہا۔ وہ اس کی روک تھام کے لیے افغانستان‎ میں طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی حامی ہے، تاہم یہ وہ‎ معاملات ہیں جن پر پہلے متعدد مذاکراتی کوششیں ناکام بھی ہوچکی ہیں۔

‎اسی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے 445واقعات میں 336 سویلینز اور 673‎ سیکیورٹی اہلکاروں کے شہید ہونے کی میڈیا اطلاعات درج کی گئیں۔ وفاقی دارالحکوت اسلام آباد میں بھی ایک خودکش حملے سمیت دہشت گردی کے دو‎واقعات درج کیے گئے، جن میں کم و بیش بارہ افراد لقمہ اجل بنے۔ 

پنجاب اور سندھ میں دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، تاہم مجموعی ‎اعداد وشمار سے ایک بھیانک منظر نامہ سامنے آیا۔ ‎پنجاب میں مذہبی انتہا پسند سیاسی جماعت تحریک لبیک پرحکومت نے 24‎اکتوبر2025 کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر پابندی عائد کی۔ اس جماعت پر ‎اپریل 2021 میں بھی دہشت گردی کے الزامات پر عمران خان دور میں پابندی عائد‎کی گئی تھی، تاہم یہ پابندی نومبر2021 میں ختم‎کردی گئی تھی۔ 

گزرےسال اس جماعت کے سربراہ سعد رضوی اپنی فالوورز کے‎ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کررہے تھے کہ انہیں گجرانوالہ ڈویژن کے‎ علاقے میں روک دیا گیا جہاں پر ان کے خلاف لاٹھی چارج اور آنسو گیس‎ استعمال کی گئی۔ 

اس واقعے میں متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کی سوشل میڈیا ‎اطلاعات گردش کرتی رہیں تاہم کوئی مصدقہ نمبرز سامنے نہ آسکے ،کیونکہ‎حکومت نے بھی اس پر چپ سادھ لی۔ اہم ترین معاملہ البتہ یہ رہا کہ تحریک ‎لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی لاپتہ ہوگئے، تادم تحریر نہ تو انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ان کو‎ منظرعام پرلایا گیا۔ 

اس حوالے سے حکومت بالخصوص پنجاب پولیس باضابطہ‎ طور پر بیان دے چکی ہے کہ دونوں بھائی ان کی حراست میں نہیں ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے جس میں ایک جماعت کے سربراہ کو‎ان کے بھائی سمیت لاپتہ کیا گیا اورابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔‎

البتہ یہ بات اہم ہے کہ اس جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی کے باعث پاکستان‎میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص توہین مذہب کے الزامات میں قید‎افراد کو عدالتی ریلیف ضرورملنا شروع ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں‎ دہشت گردی و انتہا پسندی کے فضا خراب ہوئی، تاہم حکومت نےروک تھام‎ کے لیے مناسب اقدامات کی کوشش بھی کی۔ اس سلسلے میں انتہا پسند جماعت‎تحریک لبیک کو دہشت گرد قرار دینا حکومت اپنے اقدامات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہے۔

‎اگر غیر سرکاری اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو سال 2025 میں اب‎تک پاکستان میں دہشت گردی کے کل 1000 واقعات نوٹ کیے گئے ہیں جبکہ 2024‎میں کل 790 واقعات درج کیے گئے تھے۔ داخلی طور پر پاکستان کے دو صوبوں‎ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ رواں سال میں‎ خیبرپختونخواہ میں کم و بیش 514 واقعات میں 242شہری اور 420‎ سیکیورٹی اہکار شہید ہوئے ہیں۔ 

خیبرپختونخواہ میں موجود تحریک انصاف حکومت‎دہشت گردی کے معاملے کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت اور فوج کے بیانیے سے‎ متصادم بیانیہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ اس کی روک تھام کے لیے افغانستان ‎میں طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی حامی ہے تاہم یہ وہ ‎معاملات ہیں جن پر پہلے متعدد مذاکراتی کوششیں ناکام بھی ہوچکی ہیں۔‎

اسی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے 445 واقعات میں 336سویلینز اور 673‎ سیکیورٹی اہلکاروں کے شہید ہونے کی میڈیا اطلاعات درج کی گئی ہیں۔ اس سال‎وفاقی دارالحکوت اسلام آباد میں بھی ایک خودکش حملے سمیت دہشت گردی کے دو‎ واقعات درج کیے گئے ہیں جن میں کم و بیش بارہ افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ پنجاب اورسندھ میں دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم مجموعی‎ اعداد وشمار ایک بھیانک منظرنامہ پیش کررہے ہیں۔‎

اسپیشل ایڈیشن سے مزید