• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل کے حوالے سے قائداعظم کی دی ہوئی پالیسی ہی بلاشبہحرفِ آخر ہے، القدس کا مطلب ہے پاک اور القدستان کہا جائے تو اس کا مطلب بھی پاکستان ہے۔ مسلمانانِ ہند نے اللہ حاکمِ برحق اور اسلام کے نام پہ جو علیحدہ وطن حاصل کیا وہ میرا پیارا پاکستان ہے، وہ تیرا پاکستان ہے ،وہ ہم سب کا پاکستان ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ کو جو دو سب سے بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں ایک کشمیر اور دوسرا فلسطین کا ہے۔ سامراجی قوتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے نائن الیون ہوا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پالیسیوں کو ٹھیک کیا جائے جن کے نتیجے میں نائن الیون ہوا یا کرایا گیا اور اس کے ملبے تلے آگئے ہم مسلمان، یلغار افغانستان پر، عراق پر ہوئی اور ایران بھی زیرِ عتاب ہے۔ یہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کا شیطانی ٹولہ ہے جو ایسی سازشوں کو چلا رہا ہے اور حالات چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ مسلم اُمہ کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ مسلم اُمہ کو ایک عظیم ہیرو، ایک سر بلند لیڈر کی ضرورت ہے کیونکہ ہم تقسیم ہیں، اسی لیے سامراج کے ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبدالقیوم نے بسلسلہ عالمی یوم القدس، حمایتِ مظلومینِ فلسطین کانفرنس سے جو خطاب فرمایا وہ لاجواب ہے۔ مندرجہ بالا سطور میں موصوف سینیٹر کی تقریر کا مرکزی خیال و خلاصہ بیان کیا ہے۔ جنرل عبدالقیوم فرماتے ہیں کہ میں ایک سپاہی بھی ہوں اور دو سال سعودی آرمی میں بھی رہا ہوں اور ہمارا جذبہ یہ ہے کہ ہم اوطان کی حدود سے زیادہ اسلام کو دیکھتے ہیں، ہمارا دین پورے عالم کا دین ہے جو اہلِ اسلام کو اکٹھا کر دیتا ہے۔ جنرل عبدالقیوم کے اس فکری و آفاقی تخیل کو سن کر مجھے شاعر مشرق اقبال یاد آ گئے کہ:

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

جو دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی اصل حقیقتوں سے آشنا ہیں، میرے دیس کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبدالقیوم جیسے عظیم سیاسی لیڈرز کی ضرورت ہے جو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کی راہوں کے راہی ہیں اور ان کی فکر و فلسفہ کے داعی ہیں۔ مذکورہ تقریر میں سینیٹر عبدالقیوم قائداعظم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فروری 1948میں بانیٔ پاکستان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی فارن پالیسی کیسی ہو گی تو آپ نے اس کے پانچ پوائنٹ بتلائے۔ (1) سُپر پاور اور پڑوسیوں سمیت سب کے ساتھ دوستی، (2) کسی کے خلاف بھی جارحیت نہیں، (3) عالمی تعلقات کے حوالے سے امانت و دیانت کے ساتھ ہم چلیں گے، (4) یواین کے چارٹر پر ہم چلیں گے، (5) کشمیر، فلسطین یا کوئی کرسچن آبادی ہی کیوں نہ ہو جس پر بھی ظلم و جبر و جارحیت ہو گی ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ یہ باتیں سننے کے بعد اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ہم قائد و اقبال کے ارشادات کی روشنی میں آگے بڑھیں گے اور سوچنا یہ بھی ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا کیونکہ ابھی تک ہم اس فیصلے پر بھی نہیں پہنچ پائے کہ کون سا نظامِ حکومت ہمارے لیے بہتر ہے، ہر سو صدارتی نظام کے تذکرے تو ایسے ہو رہے ہیں جیسے عوام پھولوں کے ہار اُٹھائے صدارتی نظام کے سواگت کے منتظر ہوں۔ تبدیلی سرکار کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی ایسی باتوں کو فضولیات اور لاحاصل بحث قرار دے رہے ہیں۔ ملک کے معروف و ممتاز دفاعی تجزیہ کار بار بار کہہ رہے ہیں کہ صدارتی نظام کی باتوں سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں فرمایا کہ ’’فوج کے اندر موجودہ حکومت کو گرانے یا نظام کی تبدیلی کی کوئی خواہش نہیں ہے‘‘۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب بڑے ہی باخبر اور بےباک بندے ہیں، موصوف ایک ٹی وی ٹاک شومیں فرماتے ہیں کہ ’’فوج کا صدارتی نظام کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں، نظام کوئی بھی ہو اسے چلانے والے لوگ ٹھیک ہونے چاہئیں، صدارتی نظام آ جائے اور عمران خان صدر بن جائیں تب بھی ان کے پاس ٹیم یہی ہو گی، اصل مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نظام کا نہیں سیاست کو گند سے پاک کرنے کا ہے‘‘۔ میرے خیال میں محترم کی یہ بات صد فیصد درست ہے، اللہ ہی جانے یہ ہوائیں اور بلائیں کدھر سے آ رہی ہیں، کیسی سوچیں ہیں اور کیا سازشیں ہیں، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے، کیا کیا کھچڑیاں پک رہی ہیں۔ اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی کے مصداق خدا جانے کس کو صدارتی نظام کی سوجھ رہی ہے، اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔ کل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ ان نظاموں میں کیا رکھا ہے اور ناموں میں کیا رکھا ہے، نام اور نظام بدلنے کی نہیں صداقت و دیانت کے ساتھ محنت و امانت اور خدمت و عبادت کے کام کرنے کی ضرورت ہے، اپنے معاملات و مزاج ملک و قوم کے مقدر اور حالات بدلنے کی ضرورت ہے،کربلائوں میں نیزے کی نوک پر حق بات کرنے کی ضرورت ہے۔ فرنگیوں سے آزادی ملنے کے بعد بھی ہمارے کرتا دھرتا ’’سیانے‘‘ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ آج بھی دنیا کا ہر مسلمان اور پیارا پاکستان عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے ہم پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھ رہے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سودی قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حصولِ پاکستان کے بعد آج تک جتنے بھی نظام حکومت رہے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی ہماری مشکلات کو ختم نہیں کیا اور حالات کو آسان نہیں کیا، غربت، بھوک، بےروزگاری سے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور ہمارے حکمران ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے میں لگے ہیں۔ چی گویرا نے کہا تھا کہ میں نے قبرستانوں میں ان لوگوں کی قبریں بھی دیکھی ہیں جو اپنے حق کیلئے اس لئے نہیں لڑے کہ کہیں مارے نہ جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین