انسانی جسم کو مختلف وائرل انفیکشن اور بیکٹیریاز سے بچانے کے لیے سائنس کی جانب سے ایجاد کی گئی دوائیاں ’اینٹی بائیو ٹکس‘ آج کل کی زندگی میں اتنا ہی اہم کردار ادا کر رہی ہیں جتنا کہ غذا جبکہ اینٹی بائیوٹک خرید کر کھانے کے بجائے قدرت نے ان کی تاثیر چند چیزوں میں بالکل مفت رکھی ہے جن سے متعلق جاننا اور انہیں بروئے کار لانا بے حد ضروری ہے۔
انسانوں کو جان لیوا بیکٹیریاز اور وائرسز سے بچانے کے لیے سائنس دانوں کی جانب سے ایسی سیکڑوں دوائیاں دریافت کی جا چکی ہیں کہ جو بیماری کو مزید پھیلانے اور ختم کرنے والے جراثیم کی روک تھام کرتی ہیں، اِن دوائیوں کو اینٹی بائیوٹکس کہا جاتا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کی ایجاد سے لے کر اب تک کئی دوائیاں ختم کر دی گئیں جبکہ اِن میں سے ایک بڑا حصہ آج بھی معالجین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے، اینٹی بائیوٹکس دوائیوں کے آغاز سے لے کر اب تک سائنس دانوں پر ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ اِن اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے اِستعمال سے ایسے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں جن پر یہ دوائیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔
دوسری جانب بعض سائنس دان اب بیماریوں کی روک تھام کے سلسلے میں اُن طریقوں پر دوبارہ غور کر رہے ہیں جو ماضی میں اِستعمال کیے جاتے رہے ہیں جیسے کہ تازہ ہوا کا استعمال اور سورج کی روشنی کا بھرپور فائدہ اٹھانا۔
جی ہاں ! اینٹی بائیوٹکس جیسی ہائی پوٹینسی ادویات ایجاد کرنے والے سائنس دان بھی قدرتی طریقوں سے خود کو وائرسز اور بیکٹریاز سے بچانے کا مشورہ دیتے ہیں اور تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کا استعمال تجویز کرتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی میں جراثیم کُش دوا کی خاصیت پائی جاتی ہے، جرنل آف ہاسپیٹل انفیکشن کے مطابق بیماریوں کو پھیلانے والے زیادہ تر جراثیم سورج کی روشنی میں مر جاتے ہیں۔
1980 کی دہائی میں انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان لیٹ سم کی جانب سے لکھے گئی متعدد آرٹیکلز میں تجویز کیا گیا تھا کہ ٹی بی میں مبتلا بچوں کے لیے سمندر کی ہوا اور سورج کی روشنی بہت فائدہ مند ہے۔
اسی طرح سرجن جارج بوڈینگٹن کی جانب سے اپنی تحقیق کے نتائج میں لکھا گیا کہ جو افراد کُھلی فضا میں کام کرتے ہیں، جیسے کہ کسان وغیرہ، یہ لوگ عموماً ٹی بی کا شکار نہیں ہوتے لیکن جو لوگ زیادہ تر وقت دفتر کے اندر کام کرتے ہیں، انہیں ٹی بی لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک نرس فلورنس نائٹ انگیل کا کہنا ہے کہ ’جب آپ رات کے وقت یا پھر صبح کو کھڑکی کھلنے سے پہلے کسی شخص کے کمرے میں جاتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسے کمرے سے بہت بُو آتی ہے اور اس میں حبس ہوتا ہے۔‘
فلورنس نائٹ انگیل نے تجویز کیا ہے کہ مریض کے کمرے میں تازہ ہوا کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن یہ ہوا اتنی حد تک ہونی چاہیے کہ مریض کو ٹھنڈ نہ لگے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’مریضوں کی دیکھ بھال کے دوران میں نے دو اہم باتیں سیکھی ہیں، پہلی تو یہ کہ ان کے کمرے میں تازہ ہوا کا ہونا لازمی ہے اور دوسری یہ کہ انہیں روشنی کی بھی ضرورت ہے، یہاں روشنی سے مراد سورج کی روشنی۔‘
اسی طرح 2011ء میں چین میں کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق جن کالجز کے ہاسٹلز میں ہوا کے گزر کا انتظام اچھا نہیں تھا وہاں زیادہ لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہوئے تھے۔
طبی ماہرین کی جانب سے تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کو قدرتی اینٹی بائیوٹکس کا درجہ دیا گیا ہے، ماہرین کا مشورہ ہے کہ عمارتوں اور گھروں سے باہر نکلیں اور تازہ ہوا میں سانس لیں، مناسب وقت تک دھوپ سینکیں، یہ بیمار ہونے سے بچانے والی عادات ہیں جن کے اپنانے سے کیمیائی ادویات سے بچا جا سکتا ہے۔