• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک ایماندارافسر ہوں۔ سکہ بند ایماندار۔ یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے مگر غول در غول بد عنوان اور بد دیانت لوگوں کے درمیان اکیلا ایماندار۔ سچ پوچھیں تو یہ دعویٰ اس لیے کہ مجھے اپنے معیار کا ایماندار شخص آج تک نہیں ملا۔ اگر چہ یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے مگرپرہیزگاری کی بھی پوری کوشش کرتا ہوں۔ صبح دفتر پہنچ کر گھنٹہ بھر کے لیے مختلف وظائف پڑھتاہوں۔ کچھ وظائف ہفتہ وار ہیں اور کچھ روزانہ کی بنیاد پر۔ اچھی پوسٹنگ کے حصول اور معطلی سے بچنے کے وظائف البتہ روزانہ کی بنیاد پر پڑھتا ہوں۔

ایماندا ری کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایماندارافسر کا اپنا ایک رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ کوئی درخواست گزار یا ماتحت ایسے منہ اٹھا کر آپ کے دفتر داخل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دن بڑے سکون سے گزر جاتا ہے۔ کئی دفعہ دفتر کی کھڑکی سے حرام خور قسم کے ملاقاتی باہر مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔ مگر مجھ ایسے ایماندار افسرکے سامنے آنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کچھ بد عنوان قسم کے افسروں پر جنہوں نے اوپن ڈور پالیسی اور نئے Initiatives کے نام پر سرکاری دفتروں کی مٹی پلید کی ہوتی ہے اور دفتر کا نظم و ضبط برباد کیا ہوتاہے۔ ان کے دفاترسرکاری دفتر کم اور مچھلی منڈی زیادہ لگتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں صرف ایماندار رہنا کافی نہیں۔ ایمانداری کا پرچار کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس لیے میں دوپہر دوبجے دفتر میں عوام الناس کی غیر ضروری انٹری بند کر کے صرف ایمانداری کی بات کرتا ہوں۔ کبھی کوئی جونیئر افسر اپنے پاس بلا کر اور کبھی کسی سینئرافسر کے پاس بیٹھ کر۔ ایمانداری قربانی مانگتی ہے۔ اس لیے اگرمجھے کوئی یہ کہے کہ تونسہ شریف میں چند لوگ بیٹھے ہیں اور وہ ایمانداری پر گھنٹہ بھرلیکچر سن سکتے ہیں تو میری پوری کوشش ہوتی ہے سب کام چھوڑ کر وہاں روانہ ہو جائوں۔ پرویز مشرف نے کہا تھا سب سے پہلے پاکستان۔ میں کہتا ہوں ںسب سے پہلے ایمانداری۔ اس کی وجہ میرا ایک تلخ تجربہ ہے۔ ایک دفعہ ایک ضلع میں تعینات ہوا۔ میں نے محسوس کیاوہاں ہر طرف بد عنوان لوگوں کا پھیلایا ہوا گند ہی گند ہے۔ میں نے وہاں کا سارا گند صاف کیا۔پھر حکومت نے مجھے اگلے ضلع میں تعینات کر دیا۔ وہاں کا گند بھی صاف کیا۔ اسی طرح اپنے کریئر میں حرام خوروں کا پھیلایا ہوا کافی گندصاف کر چکا ہوں۔

جہاں ایمانداری کے بہت سے فوائد ہیں وہاں بد عنوانی میں گوڈوں گو ڈوں غرق ہمارے جیسے معاشرے میںاس کے نقصانات بھی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ کہ حرام خور قسم کے ماتحت اور بد عنوان قسم کے لوگ آپ کے بارے میں طرح طرح کے شوشے چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کچھ حرام خور قسم کے حاسدوں نے میرے بارے میں مشہور کیا ہو ا ہےکہ میں بہت سخت اورسڑیل افسر ہوں۔ پورے دفتر میں یہ شوشہ چھوڑ ا ہواہے کہ فائل پر دستخط کر نے میںبہت کنجوس ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں فائل کا ایک ایک لفظ صرف پڑھتا نہیں بلکہ گنتا بھی ہوں۔ پھر فائل سے پوچھتا ہوںکہ اگر اجازت ہو تو دستخط کر دوں؟ بے زبان فائل کی خاموشی کو اقرار سمجھ کر دستخط کر دیتا ہوں۔ لاحول۔ کیا بے ہودہ پراپیگنڈہ ہے میرے بارے میں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کبھی ایک مہینے سے اوپرکوئی فائل اپنی میز پر نہیں رہنے دیتا۔ مہینے میں نہ کر سکوں تو اعتراض لگا کر واپس بھیج دیتا ہوں۔ پینڈنگ بالکل نہیں رکھتا۔ دوسری یہ بات میرے بارے میں مشہور کی گئی ہے کہ میں انکوائری کرنے میں بہت سخت ہوں۔ کسی بے گناہ کی انکوائری میرے پاس لگ جائے تو اس کو بھی نہیں چھوڑتا۔ حتیٰ کہ انہوںنے میرے بارے میں مشہور کیا ہوا ہے کہ اگر میری اپنی انکوائری میرے پاس لگ جائے تو وہ بھی میں اپنے خلاف ہی لکھوں گا۔ استفراللہ۔ کیا فضول الزام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بد عنوان قسم کے لوگ مجھ سے گھبراتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر کوئی ماتحت کسی انکوائری میں بے گناہ ہو تب بھی اس کے خلاف ہی لکھنا چاہیے کیونکہ امکان ہے کہ وہ کسی پچھلی انکوائری میں گنہگارہو تے ہوئے بھی سزاسے بچ گیا ہو۔ اس لیے احتیاط کا تقاضاکہ کسی کو معافی نہیں دینی چاہیے۔ دوسرا اگر آپ کسی کو بے گناہ سمجھ کر معاف کر دیں گے تو یہ خطرہ ضرور رہتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ پیسہ لے کر بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس کے علاوہ میرے بارے میں یہ بھی شوشہ چھوڑا ہوا ہےکہ میں کسی سے مسکرا کر بات نہیں کرتا اور کسی کوچھٹی نہیں دیتا۔ بھائی کس چیز کی مسکراہٹ ؟ میںنے کسی سے گلی ڈنڈا کھیلنا ہے؟ گلی ڈنڈا میں بچپن میں بہت کھیل چکا۔ جہاں تک چھٹی کا تعلق ہے تو ہر اتوار چھٹی ہی تو ہوتی ہے۔ چھٹی سے یاد آیا، اگلے دن ایک کلرک منہ بسورتا ہوا میرے دفتر آیا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تمھیں۔ شکل تو ایسی بنائی ہوئی جیسے تمہاری بھینس گم ہو گئی ہو؟ کہنے لگا اماں بیمار ہے شارٹ لیو چاہیے۔ میں نے کہا حرام خور بہانے مت بنائو کام کرو، کام۔ تم ڈاکٹر تھوڑی ہوجس کاپہنچنا ضروری ہے۔ دم دبا کر بھاگ کیا۔ تھوڑی دیر بعد آکر کہتا ہے صاحب اماں مر گئی ہے۔ میں نے کہا بھائی میں نے تو نہیں ماری، جائو جا کر جنازہ پڑھو۔حد ہو گئی ہے۔

یہ جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والے ملازم نہ صرف بد عنوان ہوتے ہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے نا اہل بھی ہوتے ہیں۔ اگلے دن میں نے اپنے ٹیلیفون آپریٹر کو بلا کر کہا کہ ملتان ملائو۔نالائق ایسے آنکھیں پھاڑ کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جیسے میں نے یونان ملانے کو کہہ دیا ہو۔ پھر گنواروں کے انداز میں پوچھتا ہے کہ ملتان کہاں ملائوں؟ دراصل بدعنوانی کی وجہ سے ان کے دماغو ں پر بھی قفل پڑ چکے ہیں۔ اسی طرح ایک دن میں نے گھنٹی دے کر اپنے نائب قاصد کو بلایا۔وہ اندر آیا تو میں اتفاق سے لیپ ٹاپ پر مصروف ہو گیا۔ دو تین منٹ بعد اوپر دیکھا تو لسی مانگنے والی شکل بنا کر گھگھو گھوڑے کی طرح کھڑا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے ؟ کیوں کھڑے ہو؟ کہتا ہے سر آپ کو کوئی مسئلہ تھا، آپ نے بلایا تھا۔ ایک تو یہ نہیں پتہ کہ میں نے کیوں بلایا تھا الٹا مسئلہ بھی میرا بنا دیا۔ایک اچھے بھلے ایماندار افسر کا ڈرامہ بنا کر رکھ دیا۔ پھر میں نے بھی ایسے نالائق اور بد عنوان ماتحتوں کو ایسی جگہ ٹرانسفر کیا جہاں انہیں پینے کو پانی بھی نہ ملے۔ اب پتہ چلے گا کہ کس ایماندار افسرسے واسطہ پڑا تھا۔

تازہ ترین