• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قلعہ شیخوپورہ، مغلیہ دور کی شان و شوکت کی علامت ہے۔ روایتی طور پر کہا جاتا ہے کہ اسے شہنشاہ جہانگیر نے تعمیر کروایا تھا لیکن اس کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہے۔ غالباً اس کی وجہ قلعہ کا جہانگیر کے تعمیر کردہ ہرن مینار اور شکار گاہ کے نزدیک ہونا ہے۔ 

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1606ء میں شہنشاہ جہانگیر نے جہانگیر پورہ (موجودہ شیخوپورہ) میں پڑاؤ ڈالا جو اس کی شکار گاہ تھی۔ جہانگیر نے اپنے ایک مشّاق شکاری سکندر امین کو وہاں ایک قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا، جس کا نام شہنشاہ کے نام سے ماخوذ تھا۔ 

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کوئی روایتی قلعہ نہیں بلکہ شہنشاہ جہانگیر کی رہائش گاہ تھی۔ ’تزک جہانگیری‘ کے مطابق یہ قلعہ نما محل 1607ء میں تعمیر کیا گیا تھا، جو کسی دفاعی مقصد کے تحت نہیں بلکہ شکار کے لیے آنے والے شہنشاہ جہانگیر کی رہائش کے طور پر بنایا گیا تھا، وہ اپنے ساتھیوں اور فوج کے ساتھ یہاں قیام کرتے تھے۔ قلعہ یقینی طور پر کم از کم ابتدائی مغلیہ دور یا اس سے قبل کا ہے، جس کی ساخت میں مختلف ادوار میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔ 1646ء کے بعد یہ علاقہ مختصر عرصے کے لیے شاہ جہاں کے بیٹے شہزادہ دارا شکوہ کے پاس رہا اور ممکنہ طور پر ایک کیمپ کے طور پر استعمال ہوا۔

64کنال سے زائد رقبے پر محیط یہ قلعہ شیخوپورہ شہر کے جنوب مشرقی کونے میں ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ مربع شکل میں مغلیہ طرز پر تعمیر کردہ اس قلعے کی پیمائش شمال سے جنوب کی جانب یعنی لمبائی 125میٹر (410فٹ) اور مشرق سے مغرب تک یعنی چوڑائی 135میٹر (444فٹ)ہے۔ پکی اینٹوں سے بنی اس کی فصیل کی اوسط اونچائی تقریباً 38فٹ جبکہ چوڑائی 22فٹ ہے۔ 

قلعہ کا بیرونی دروازہ مضبوطی وپائیداری میں بےمثال ہے، جس کے ساتھ ہی دونوں جانب برج موجود ہیں۔ مشرق کی طرف بنی ہوئی کھڑکیوں میں پتھر کی جالی لگی ہے جبکہ ڈیوڑھی سے اندر جانے کے لیے دائیں اور بائیں جانب دو دروازے ہیں۔ ڈیوڑھی سے آگے بڑھیں تو 14فٹ چوڑا راستہ ہے، جس پر چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی سولنگ لگی ہوئی ہے۔ اس کے مغربی کنارے پر ملازمین کے تقریباً 6 کمرے بنے ہوئے ہیں۔ 

ڈیوڑھی کے بائیں دروازے سے جائیں تو وہاں ایک کنواں موجود ہے، جسے قلعے میں آنے والے قافلوں اورجانوروں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اب تک اصل حالت میں موجود اس کنوئیں کی گہرائی 58فٹ اور قطر آٹھ فٹ ہے۔ قلعے میں ڈھلوان کی طرف بنے راستے سے جنوبی دیوار کے ساتھ ساتھ دوسری منزل اور جنوب مغربی برج کی طرف پہنچا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں اس برج کے ساتھ محافظوں اور سپاہیوں کے کمرے ہوا کرتے تھے مگر آج صرف ان کی دیواروں کے نشان اور چھت باقی ہے۔

قلعہ کے شمال مشرقی حصے میں اس دور کے باقی ماندہ تباہ شدہ ہالز اور تہہ خانے ہیں، جنہیں جہانگیر اور شاہ جہاں نے شاہی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا ہو گا۔ تہہ خانوں کی چوڑائی 10فٹ ہے، اس کی چھتیں ڈاٹ دار اور گنبد نما ہیں، جو اس وقت بھی اچھی حالت میں ہیں جبکہ روشنی اور ہوا کے لیے جنوبی دیوار میں گیارہ کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ قلعہ کے شمال مشرقی کونے میں بالائی منزل پر ایک کمرہ ہے، جس کے اندرونی حصے کو مختلف نمونوں میں پھولوں کی فریسکو پینٹنگز سے بھرپور طریقے سے سجایا گیا ہے۔

دیواروں پر حسین و منقش تصاویر جابجا نظر آتی ہیں، ان پر فارسی زبان میں اشعار کی خطاطی دل کو بہت بھاتی ہے۔ دیواروں پر ان نفیس و نازک نقوش کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ قلعے کے اندر سب سے زیادہ متاثر کن عمارتیں اس کی شاندار کوٹھیاں ہیں جو زیادہ تر سکھ دور اور بعد کے مغل دور (17ویں صدی کے وسط سے 19ویں صدی کے اوائل تک) میں تعمیر کی گئی تھیں۔ لیکن ان کی تعمیر میں بنیادوں کی مضبوطی کو مدنظر نہیں رکھا گیا، جس کی وجہ سے زیادہ تر عمارت گر چکی ہے۔ 

ان کوٹھیوں میں سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی مہارانی دتار کور بھی مقیم رہی۔ سکھ سیاست میں فعال کردار ادا کرنے والی رنجیت سنگھ کی مشہور ملکہ مہارانی جند کور کو انگریزوں نے سکھ راج کے زوال کے بعد اسی قلعے میں قید رکھا۔

یہ قلعہ سکھوں اور انگریزوں کے دور میں فوجی اڈے کے طور پر بھی استعمال ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں مہاجر کیمپ بھی قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کئی سرکاری دفاتر بنائے گئے، جس کی وجہ سے عمارت کی اصل تاریخی شکل کو شدید نقصان پہنچا۔ 1964ء میں اس قلعے کو دیکھ بھال کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کیا گیا تھا، تاہم محکمے کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث یہ تاریخی عمارت کھنڈر بن گئی۔ گزشتہ سال محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے شیخوپورہ میں مغلیہ دور میں تعمیر کردہ اس 400سال پرانے قلعے کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کام کا آغاز خستہ حال عمارت کے اندرونی حصوں کی تزئین و آرائش اور بیرونی دیوار کی بحالی سے کیا گیا۔ گو کہ قلعے سے ملحقہ رانی محل کا نصف سے زیادہ حصہ منہدم ہو چکا ہے لیکن داخل ہونے کا راستہ موجود ہے۔ وہاں پر مغل اور سکھ ادوار کی نادر تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے اوپر شیش محل تھا، جس کی چھت اب بھی کسی حد تک موجود ہے لیکن اوپر جانے کا راستہ نہایت تنگ ہے۔ 

ایک روایت کے مطابق قلعے کے شمال مغربی برج کے اندر سے ایک سرنگ ہرن مینار تک جاتی ہے، جس کے کچھ آثار بھی ملے ہیں۔ اس تاریخی ورثہ کی بحالی سے نوجوان نسل بالخصوص طلبا اس قلعے کے بارے میں مزید جان سکیں گے۔