کابل (نیوز ڈیسک)پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم، افغان مہاجر بچوں کے گمشدہ بچپن کے موضوع پہ بنی دستاویزی فلم’’ ٹوئنگلنگ ودآوٹ شائنگ‘‘(افغان بچپن کی تلاش میں) نے ترکی سے پانچویں سالانہ ’گولڈن ویٹ ایوارڈز‘ا سپیشل جیوری ایوارڈ جیت لیا۔اس دستاویزی فلم کے ہدایتکار اور پروڈیسرخالد حسن خان ہیں۔ فلم کی معاون پیشکش، محسن ایس جعفری اور سید اویس علی نے کی ہے۔ فلم بندی کے فرائض زاہد راجہ نے انجام دئیے ہیں۔ ان ماسکنگ، دی پینٹرسٹ، مرڈر آف مسٹک، گاڈ فادر آف سوکر کے بعد ٹوئنگلنگ ودآوٹ شائنگ، خالد حسن خان کی پانچویں ایوارڈ یافتہ کاوش ہے۔اس سے قبل فلم پروجیکٹز، پاکستان کیلئے 15 پندرہ، بین الاقوامی ایوارڈز جیت چکے ہیں۔’ٹوئنگلنگ ودآوٹ شائنگ ‘کو کراچی میں عکسبند کیا گیا ہے۔ یہ کم سن بچے، جن کی عمریں 6سے 18سال کے درمیان ہیں، دوسرے افغان لڑکوں کی طرح بھوک، غربت اور جنگ کے باعث، پڑوسی ملک افغانستان سے ہجرت کرکےپاکستان میں پناہ گزیں ہیں۔یہ افغان مہاجر بچے بدقسمتی سے، پیدائش کے بعد پرورش سے محروم ہیں۔ یہ روزی روٹی کمانے کے لیے کچرے سے دوبارہ قابل استعمال اشیاء چنتے ہیں۔ یہ نوعمر لڑکے، جنگ سے تباہ حال، افغانستان میں اپنے گھر، والدین کو اپنی معمولی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بھیجتے ہیں۔قندہارکے پناہ گزین، 16سالہ زمان نے بتایا کہ یہ پاکستان کی مہربانی ہے کہ اسے اور اسکےخاندان کے گیاره افراد کو یہاں رہنے اور کام کرنے کی اجازت ہے، ورنہ کوئی دوسرا ملک انہیں خوش آمدید نہیں کہتا ہے۔ "اگر پاکستان نہیں ہوتا تو ہم بھوک سے مرتا"۔خالد حسن خان کا کہنا تھا دستاویزی فلم کا نام Twinkling without Shining اس بدولت ہے کیونکہ" یہ بچے ایسے جگمگ ستارے ہیں، جو بچپن کی چمک کے بغیر جھلما نے کے بجائے ٹمٹمارہے ہیں ۔ جنگ کی ہولناکیوں میں بچوں کا بچپن کھو جانا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے،جسے نام نہاد مہندب دنیا نے سراسر نظر انداز کر دیا ہے۔ اس دستاویزی فلم میں اسی دردناک پہلو کی نشاندہی کی گئی ہے۔ افغانستان میں پائیدارامن ایک پراسرار خواب بن چکا ہے، جو ان معصوم جانوں کو سوتے جاگتے ستاتا ہے، اسی وجہ سے یہ افغان بچے اپنے وطن واپس جانے سے تاحال گریزاں ہیں"۔