کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)اداکارہ ارسا غزل کا شمار ان فنکاراؤں میں ہوتا ہے جو اسکرپٹ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہیں۔ ارسا غزل نےحال ہی میں ایک نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے کیریئر اور ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کی۔ ارسا غزل نے کہا کہ ’ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرے۔ میں عورت کے اس حق کو تسلیم کرتی ہوں۔‘ارسا کہتی ہیں کہ ’عورت اگر اپنی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کر لے تو طوفان کھڑا ہو جاتا ہے جبکہ مرد چار شادیاں کرے یا 10 افیئرز چلائے اس کے ایسے عمل کو بہت بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔‘ارسا غزل سمجھتی ہیں کہ ’طلاق کو ہم نے ٹیبو بنایا ہوا ہے۔ ماں باپ کی علیحدگی کی وجہ سے بچے پریشان ہوجاتے ہیں، ٹھیک بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اس وقت پریشان ہوتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ ساری زندگی ان کے ماں باپ آپس میں لڑتے رہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایسے بچوں کی ذہنی صحت ان بچوں کے مقابلے میں بہت قابل رحم ہوتی ہے جن کے ماں باپ الگ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جب ماں باپ کی علٰیحدگی ہوتی ہے تو ماؤں کو بچے ساتھ رکھنے کا حق مل جاتا ہے تو وہ بچوں کو باپ کے خلاف کرتی رہتی ہیں یا اگر بچہ باپ کے پاس ہو تو وہ اس کو ماں کے خلاف باتیں بتاتا ہے۔ ماں باپ اپنی اپنی اناؤں کے چکر میں بچوں کی ذہنی صحت خراب کر دیتے ہیں۔ارسا غزل نے بتایا کہ ’میرے ماں باپ نے اپنی زندگی اپنی شرائط پہ جی اور مجھے بھی میری زندگی میری شرائط پہ جینے دی۔ میرے ہر فیصلے میں میرے ساتھ کھڑے رہے اور میں نے اپنے فیصلے خود کیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ماں باپ کا ساتھ دینے کے باوجود کہیں نہ کہیں شاید سوسائٹی کا پریشر تو ہوتا ہی ہے میرے بھی لاشعور میں ایسا کہیں تھا۔