• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماموں منّا درویش صفت، خوب صورت، زندہ دل انسان تھے۔ ساری زندگی خالی جیب پرائز بانڈ (کروڑ پتی اسکیم) کھیلتے گزار دی کہ ایک دن ان کا بھی آکڑا (لاٹری) لگے گا اور وہ راتوں رات کروڑ پتی ہو جائیں گے۔ اسی خواہش کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ساری زندگی گزار کر اگلے جہان چلے گئے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔ ماموں منّا ایک روز مجھے کہنے لگے یار مجھے پتوکی جانا ہے، تم بھی ساتھ چلو۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے؟ کہنے لگے یار وہاں ایک بابے کو ملنا ہے، سنا ہے بڑا پہنچا ہوا مجذوب ہے۔ جو کاغذ پر کچھ ایسے لکھتا ہے کہ انسان مالا مال ہو جائے۔ بہت سے لوگ اس کے لکھے سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔ میرا تجسس بڑھا اور ساتھ چلنے کی ہامی بھر لی۔ ایک گاؤں کے کچے مکان کے باہر گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور اندر کروڑ پتی بننے کے خواہش مندوں کا ایسا ہجوم دیکھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ چند لمحوں کے بعد دو افراد ایک مجذوب کو بازو سے پکڑے گھسیٹتے کمرے کے اندر لائے، بدن پر کوئی کپڑا نہیں صرف دھوتی پہنے اس مجذوب کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر ہی ترس آرہا تھا ، اُس کے منہ سے رالیں ٹپک رہی تھیں، اپنا کوئی ہوش نہیں تھا، لوگ بابے کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے، قدم بوسی کرتے اور بابے کے ساتھ کھڑے دو افراد میں سے کوئی ایک بابے کے ہاتھ میں کاغذ قلم دیتا اور وہ اپنے ہاتھوں کی گرفت سے نیم بےہوشی کے عالم میں کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ دیتا۔ لوگ حسبِ توفیق نقد نذر نیاز کرتے، آگے بڑھتے، بابے کا شکریہ ادا کرتے چلے جاتے۔ بڑا دلچسپ منظر تھا، ماموں منّا بھی آگے بڑھے، بابے کا ہاتھ چوما، کاغذ قلم آگے بڑھایا، چند لکیروں کے عوض سو دو سو نقد نذرانہ پیش کیا اور پھر واپس لاہور کو چل پڑے۔ ماموں منّا راستے میں کاغذ کو کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی دائیں، کبھی بائیں گھماتے سوچوں میں گم کاغذ پر ہندسے لکھتے جاتے۔ میں نے حسبِ عادت پوچھا منّا جی! کوئی خزانہ ہاتھ لگا کہ نہیں؟

کہنے لگے بابا بہت پہنچا ہوا ہے۔ یہ دیکھو کاغذ کی اس سمت آٹھا (آٹھ) دوسری سمت چھکا (چھ) اور تیسرے رخ ساتا (سات) بنتا ہے پھر بولے 786کا آکڑا تو بن گیا۔ لاہور تک پہنچتے پہنچتے ماموں منّا نے ان اُلٹی سیدھی، سمجھ میں نہ آنے والی لکیروں سے کم و بیش آٹھ دس آکڑے بنا لیے اور نعرہ بلند کیا کہ اس بار لاٹری کا نمبر لگے ہی لگے۔ بابے کی تعریف کرنے لگے، بڑا سیانا ہے۔ بس اس بار لاٹری نکل آئی تو زندگی کے سارے خواب پورے ہو جائیں گے اور بابے کی خدمت میں بھی ایک بڑی رقم نذر کروں گا۔ یاد رہے یہ لاٹری گیم پرائز بانڈ کی ہر قرعہ اندازی پر کھیلی جاتی تھی۔ خیر قرعہ اندازی ہوئی، نمبرز دیکھے گئے، بابے کے زائچے سے بنایا گیا کوئی ایک بھی نمبر فِٹ نہیں بیٹھا۔ کوئی نمبر آگے تو کوئی پیچھے سے کم نظر آیا۔ ماموں منّا بابے کے کاغذ کی لکیروں پر بار بار نظریں جمائے سر پکڑے بیٹھے کہنے لگے: یار بہت قریب کی گیم تھی، ہاتھ سے نکل گئی۔ بابے کی لکیریں بالکل ٹھیک تھیں، مجھے ہی سمجھنے میں غلطی لگی اگر میں فلاں نمبر کو فلاں نمبر کے ساتھ اُلٹا سیدھا ترچھا پڑھ لیتا تو داؤ لگ ہی جانا تھا۔ تحریکِ عدم اعتماد کی اسکیم جب سے آئی ہے 23کروڑ عوام اور ان کے منتخب نمائندے حکومتی و اپوزیشن اتحادی بابے کی اُلٹی سیدھی لکیروں پر آکڑے بنا رہے ہیں۔ ہم بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ مرشد نے ”نیوٹرل“ کو جانور کیوں کہہ دیا؟ مرشد نے لوئر دیر میں الیکشن کمیشن کی پابندی کے باوجود عوامی جلسہ عام سے خطاب کے دوران یہ کہہ دیا کہ ”نیوٹرل“ صرف جانور ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں اجازت ہی نہیں دی کہ ہم ”نیوٹرل“ ہوں۔ چند روز قبل ہی تو مرشد میلسی کے جلسہ عام میں کہہ رہے تھے کہ ہم روس، یوکرین جنگ میں نیوٹرل ہیں۔ کبھی ہم اپنے گریبان کو دیکھتے ہیں، کبھی مرشد کی تاریخی تصویر کو چومتے ہیں اور اس سوچ میں پڑے ہیں کہ جمہوریت کا آکڑا تصویر سے بنائیں یا مرشد کی زبان سے نکلے ”نیوٹرل“ جانور کو آگے پیچھے، دائیں بائیں الفاظ کی ترتیب یا حروفِ تہجی سے کوئی ایسا حرف تلاش کریں کہ ہماری بھی لاٹری نکل آئے۔ جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے جب ”نیوٹرل“ جانور بنتا ہے تو جمہوریت کا آکڑا نہیں کڑاکا نکلتا ہے۔ آپ بھی اس تاریخی تصویر کو اُلٹا ، سیدھا، ترچھا کرکے اپنا آکڑا بنائیں، عقل کے گھوڑے دوڑائیں کہ آخر اس تصویر میں ایسا کیا ہے کہ مرشد کا اتنا ہاسا نکل رہا ہے ”اسٹک“ کی گرفت اور رُخ کس طرف، کیوں ہے؟ کیا یہ مرشد کو سمجھانے کی آخری کوشش تھی یا پھر اس کا رخ کسی اور طرف ہے؟ مجھے تو اپنے اسکول کے قابلِ صد احترام ریٹائرڈ فوجی استادِ محترم جناب! غلام قاسم خان نیازی مرحوم کی مری سے خصوصی طور پر لائی گئی خوب صورت پھول دار فوجی اسٹک یاد آگئی، جب کبھی ہم اجتماعی شرارت پر پکڑے جاتے، ہمیں کلاس روم میں اجتماعی طور پر ککڑ بنایا جاتا تو ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ کر ہمارا بھی مرشد جیسا ہاسا نکل جاتا تھا، پھر وہ لمحہ آتا جب ہماری ”نشست شریف“ کو نشانہ بنایا جاتا۔ کچھ کے آنسو تو کچھ کا ہاسا نکل جاتا، پھر ایک آواز بلند ہوتی ”بندے دے پُتر بن جاؤ“۔

تازہ ترین