• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے ممالک جہاں شادی کے بعد خواتین کو نام تبدیل کرنے کی اجازت نہیں

فوٹو، فائل
فوٹو، فائل

اگرچہ دنیا بھر میں یہ ایک عام رواج ہے کہ خواتین شادی کے بعد اپنا نام تبدیل کرلیتی ہیں اور اپنے والد یا خاندانی نام کے بجائے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام استعمال کرتی ہیں۔

یہ جان کر زیادہ تر لوگوں کو حیرانی ہوگی کہ دنیا کے کچھ ممالک میں خواتین شادی کے بعد بھی اپنے نام کےساتھ اپنا خاندانی نام ہی استعمال کرتی ہیں یا پھر کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں خواتین کو اپنا نام تبدیل کرنے کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے۔

یہاں اس حوالے سے دنیا بھر میں موجود مختلف رسم و رواج درج ذیل ہیں۔

اسلامی دنیا

اسلامی تعلیمات کے مطابق، عورت کے لیے شادی کے بعد اپنے والد یا خاندانی نام تبدیل کرنا لازمی نہیں ہے۔ 

اس لیے شادی کے بعد بھی مسلمان خواتین اپنے اپنے خاندان کی جڑوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ اپنے خاندانی نام کو ہی برقرار رکھتی ہیں۔

یونان 

1983 میں، یونان نےفیمنزم کی لہر کے زیرِ اثر  نئی قانون سازی کی تھی اور اس حوالے سے ایک نئے قانون کی منظوری دی تھی۔ 

اس قانون کے تحت تمام خواتین کے لیے شادی کے بعد بھی اپنا پہلے والا نام برقرار رکھنا لازمی قرار دے دیا گیا۔

فرانس

فرانس کی ایک دیرینہ روایت ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو نام برتھ سرٹیفکیٹ پر درج ہو صرف وہی نام قانونی طور پر قبول کیا جاتا ہے، یہ قانون  1789سے فرانس میں موجود ہے۔

اٹلی

کوئی خاتون اطالوی سول کوڈ کے تحت شادی کے بعد قانونی طور پر اپنا نام تبدیل نہیں کر سکتی۔ 

تاہم، اگر وہ چاہے تو اپنے شوہر کا خاندانی نام اپنے پورے نام کے ساتھ جوڑ  سکتی ہے۔

نیدرلینڈز

نیدرلینڈز میں خواتین کے لیے قانون کے مطابق شادی کرتے وقت اپنی شادی سے پہلے والے نام  کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ 

تاہم، وہ خاص حالات میں اپنے شوہر کے خاندانی نام کا استعمال کرسکتی ہیں، لیکن دستاویزات یاان کی شناخت ہمیشہ ان کے شادی سے پہلےوالے نام سے ہی کی جائے گی۔

ہسپانوی بولنے والے ممالک

ہسپانوی بولنے والے ممالک میں بھی خواتین کے لیے اپنے شادی سے پہلے والے اپنے نام کو برقرار رکھنے کا رواج ہے۔ایک نام ان کی ماں کی طرف سے اور ایک ان کے والد کی طرف سے ہوگا۔

جاپان

جاپانی قانون کے تحت شادی صرف اس صورت میں قبول کی جاتی ہے جب جوڑے کا خاندانی نام ایک ہی ہو، جس کی وجہ سے جاپان میں 96 فیصد شادی شدہ خواتین نے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے شوہر کا نام استعمال کرتی ہیں۔

2015 میں اس قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہاں کی سپریم کورٹ نے اس قانون کو برقرار رکھا۔ 

تاہم، ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ اگر خواتین چاہیں تو غیر رسمی طور پر اپنا پہلا نام استعمال کرنے کا انتخاب کر سکتی ہیں۔

جنوبی کوریا

جنوبی کوریا میں خواتین کے لیے اپنے شادی سے پہلے  والے نام برقرار رکھنے کی روایت ہےلیکن شادی کے بعد انہیں اپنے شوہر کا نام استعمال کرنے سے روکنے کے لیے بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

کیوبیک

کینیڈا کی ریاست کیوبیک میں، صوبائی قانون ایک عورت کو شادی کے بعد اپنے شوہر کا نام استعمال کرنے سے منع کرتا ہے، جوکہ 1976 میں وضع کردہ ایک قائدے ’کیوبیک چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈمز‘ کے تحت تشکیل دیا گیاتھا۔

خاص رپورٹ سے مزید