موسمی طوفان ہو، وبائی آفت ہو یا سیاسی منظر تلپٹ ہونے کا امکان ہو، کالم نگار بھی خلقت شہر کی طرح کہنے کو فسانے مانگتا ہے۔ سیاست دان اور فیصلہ ساز تو اپنے ارادے کھول کے بیان نہیں کرتے مگر تجزیہ کار کو یہ جانتے ہوئے بھی رائے دینا ہوتی ہے کہ مستقبل کا خاکہ کھینچتے ہوئے تمام ممکنہ عوامل کو گرفت کرنا ذہن انسانی کےلئے ممکن ہی نہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اب نفر شماری کی مشق سے نکل کر آئینی موشگافیوں کے دائرے میں داخل ہو چکی۔ دستور کی شق 54 کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک چوتھائی ارکان ا سپیکر سے ایوانِ زیریں کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور ا سپیکر چودہ روز کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے۔ دستور کی شق 95 کے مطابق 20 فیصد ارکان قومی اسمبلی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتے ہیں۔ قرارداد پیش ہونے کے بعد سات روز کے اندر اس تحریک پر ووٹنگ ضروری ہے۔ 22 - 23 مارچ کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہو رہا ہے تاہم قومی اسمبلی کے اجلاس کا مقام طے کرنا اسپیکر کا اختیار ہے۔ گویا اجلاس کا انعقاد ایوان زیریں کے لئے مختص عمارت سے مشروط نہیں۔ شق 63 اے پر بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فعل کے وقوع پذیر ہونے سے قبل نیت یا شبہے کی بنا پر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یہ امور خسرواں مگر بام حرم کے کبوتر بہتر جانتے ہیں۔ ہم بندگانِ خاکی تو قصہ کہانیاں کہہ کے شب و روز کی قید کاٹنے پر مامور ہیں۔
4 نومبر 2019ء کو سر لنڈسے ہوئیل کو برطانوی ہائوس آف کامنز کاا سپیکر منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کے نومنتخب اسپیکر کو پارلیمنٹ کے کچھ ارکان باقاعدہ گھسیٹ کر ان کی نشست کی طرف لا رہے تھے۔ سنجیدہ تقریب میں عمر رسیدہ لنڈسے ہوئیل کو یوں دھکیلے جانا کچھ عجیب سا لگا۔ ٹھیک ایک ماہ بعد 5 دسمبر 2019ء کو انتھونی روٹا کینیڈا کے ہائوس آف کامنز میں ا سپیکر منتخب ہوئے تو وزیراعظم جسٹس ٹروڈو اور قائد حزب اختلاف اینڈریو شیئر نومنتخب اسپیکر کو باقاعدہ گھسیٹتے ہوئے ان کی نشست کی طرف لائے۔ معلوم ہوا کہ نومنتخب اسپیکر کو ڈنڈا ڈولی کر کے ان کی نشست تک پہنچانے کی جڑیں جمہوری تاریخ میں ملتی ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ میں اسپیکر کا منصب پارلیمنٹ کے مطالبات اور شکایات کو بادشاہ تک پہنچانا تھا۔ یہ ایک پرخطر فرض تھا کیونکہ ناخوشگوار پیغامات پہنچانے پر غیظ سلطانی کی تلوارا سپیکر کی گردن پر گرتی تھی۔ 1394ء سے 1535ء تک برطانوی دارالعوام کے سات اسپیکر اپنے فرض کی ادائیگی میں پھانسی پا گئے۔ آج حالات بدل چکے ہیں لیکن اسپیکر کو روایتی طور پر گھسیٹ کر اس کی کرسی تک لایا جاتا ہے تاکہ اسے یاد رہے کہ اسپیکر کا منصب مخالف دھڑوں میں غیرجانب دار رہتے ہوئے ایوان کا تحفظ کرنا ہے۔ اب اس پس منظر میں ہماری تاریخ کا ایک باب بھی دیکھ لیجئے۔
20 مئی 1956ء کو مغربی پاکستان اسمبلی میں اسپیکر کا انتخاب ہو رہا تھا۔ میر غلام علی تالپور مسلم لیگ جبکہ چوہدری فضل الہٰی ری پبلکن پارٹی کے امیدوار تھے۔ ری پبلکن پارٹی سکندر مرزا نے تخلیق کی تھی۔ یہ انتخاب دراصل سردار عبدالرب نشتر اور سکندر مرزا میں تھا۔ اس روز مغربی پاکستان اسمبلی میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ ارکان اسمبلی نے ایک دوسرے کو فحش گالیاں دیں۔ اس ہنگامے میں کسی صاحبِ فکر نے کہا تھا ’آپ کو اپنی مطلوبہ کرسی تو مل جائے گی۔ اس منصب کو اتنا ذلیل نہ کیجئے کہ کل جب آپ اس کرسی پر بیٹھیں تو اس کی کوئی عزت ہی باقی نہ رہے‘۔ اس معرکے میں عبدالرب نشتر ہار گئے اور سکندر مرزا جیت گئے۔ گمان ہے کہ محترم اسد قیصر چوہدری فضل الٰہی کی روایت کے امین ہیں اور 8 مارچ کو پیش ہونے والی ریکوزیشن کو حیل و حجت سے یہا ں تک کھینچ لائے ہیں کہ دستوری تقاضے دھندلا گئے ہیں۔
اب پارلیمنٹ کے مقام اجلاس کا کچھ ذکر ہو جائے۔ 1789ء کا برس تھا۔ فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم نے برطانیہ دشمنی میں انقلاب امریکہ کو اس قدر مالی اور فوجی امداد بہم پہنچائی کہ خود فرانس کی معیشت ڈانواں ڈول ہو گئی۔ اس دوران قحط سالی نے بھی آ لیا۔ فرانس کی روایتی پارلیمنٹ اسٹیٹس جنرل کہلاتی تھی اور اس کا اجلاس 1614 ء سے نہیں ہوا تھا۔ اسٹیٹس جنرل کے تین حصے تھے۔ فرسٹ اسٹیٹ میں چرچ اور سیکنڈ اسٹیٹ میں اشرافیہ کے نمائندے تھے جبکہ تھرڈ اسٹیٹ میں عوام نمائندگی پاتے تھے۔ بالآخر معاشی اور غذائی بحران پر پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوا تو اس نکتے پر تنازع اُٹھ کھڑا ہوا کہ ارکان کی رائے بلحاظ منصب وزن پائے گی یا سر گنے جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں عام شہریوں کی بھاری اکثریت تھی۔ یہ جھگڑا عوام کے حق حکمرانی اور بادشاہت کے جواز تک جا پہنچا۔ 20 جون کو ارکان پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کےلئے پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ مسلح پہرے داروں کے گھیرے میں ایوان کے دروازے مقفل ہیں۔ مشتعل ارکان پارلیمنٹ نے فوراً فیصلہ کیا کہ قریب ہی موجود ٹینس کورٹ میں جمع ہو کر اپنا اجلاس کریں گے۔ وہاں حلف اٹھایا گیا کہ عوام کے نمائندے ٹینس کورٹ میں اس وقت تک اجلاس جاری رکھیں گے جب تک ملک کا نیا دستور طے نہیں ہو جاتا۔ تاریخ میں اس اجلاس کو ٹینس کورٹ حلف کا نام دیا جاتا ہے اور یہ اس امر کی علامت ہے کہ عوام کی نمائندگی کسی خاص عمارت سے مختص نہیں۔ جمہوریت کسی فرد واحد کے عزائم یا چنیدہ گروہ کے مفادات کی آبیاری کا نام نہیں، عوام کے وسیع تر مفاد کا تحفظ ہے۔ ہم نے فرانس، برطانیہ اور کینیڈا سے لے کر اپنی تاریخ تک کچھ ٹکڑے آپ کے گوش گزار کر دیے۔ نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت آپ میں فراواں ہے۔ درویش سے داغ کا شعر سن لیجئے۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے