آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا 48واں اجلاس ایک بڑی سفارتی کامیابی کے ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں آج اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ گزرے ہفتے میں 57مسلم ممالک کی یہ عالمگیر تنظیم اقوام متحدہ سے ’’انسداد اسلامو فوبیا‘‘ کو ایک سنجیدہ فوری توجہ طلب عالمی ایجنڈا اور امن عالم کا لازمہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
اس کے ایک ہفتے بعد ہی جنرل اسمبلی میں متذکرہ قرارداد کے محرک پاکستان کو معاون اوآئی سی کی کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ خبروں کے مطابق 44رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور باقی ممالک کے اعلیٰ عہدیدار اسلام آباد مہمان بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں ان کے استقبال اور کانفرنس کے کامیاب انعقاد کی تیاریوں کے ماحول میں یکدم پوری دنیائے اسلام کو چونکا دینے والا انتہائی غیر ذمے دارانہ داخلی سیاست میں آلودہ بیانیہ بصورت چیلنج بلند ہوا کہ ’’میں دیکھتا ہوں تمہاری او آئی سی کا اجلاس کیسے ہوتا ہے ‘‘ یہ انتہائی غیر ذمے دارانہ غیر اخلاقی اور دھمکی آمیز بیان ملکی نئی نسل کو پیپلز پارٹی کی پیش کی گئی جواں سال قیادت بلاول زرداری بھٹو کا ہے۔بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ ا
با جان کی تیار موروثی حکومتی سیاسی قیادت (برائے اسلامی جمہوریہ پاکستان ) کے محور سے اس موقع پر جو برآمد ہوا اس نے بیٹے کو باپ پر بھی بھاری نہیں کر دیا ؟ کر تو دیا زرداری صاحب پاکستانی اسٹیٹس کو کی شعبدہ باز سیاست کے چیمپئن مانے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نازک مراحل پر اپنی ٹوپی سے ایک نہیں، کبوتروں کو پوری ڈار برآمد کر دکھاتے ہیں.
لیکن سیاسی دیدہ دلیری میں تو بیٹا بازی نہیں لے گیا یقیناً لے گیا، یا پھر منجھے تجزیہ کاروں کا یہ تجزیہ ہی درست ہے کہ اردو وردو کی درستی یا غلطیاں ایک طرف سمجھے سمجھائے بغیر بلاول سے جو چاہے منہ سے نکلوا لو۔
یہ جو ’’تمہاری او آئی سی ‘‘ اور ’’دیکھتا ہوں اجلاس کیسے ہوتا ہے‘‘ والا بیان ہے اس کی ادائیگی میں باڈی لینگویج صاف بتا رہی تھی کہ ’’استاد‘‘ نے مقصد حاصل کر لیا یہ کوئی بلاول کی اردو کی غلطی ہے نہ کمسنی جس کا الائونس مل سکتا ہے۔
خبریں ہیں کہ مدعوکیے جانے والے ممالک کے سفارتخانوں میں تشویش پھیل گئی اور وزارت خارجہ اور ہوم سے استفسار شروع ہو گیا کہ اجلاس کے پرامن انعقاد کے حوالے سے کیا صورت ہے ؟ ایک طرف پی ڈی ایم کے مہاذمے داران کو وزیر اعظم عمران کے یورپین یونین کے 25ارکان کے لیٹر پر آزادانہ اور عاقلانہ (RATIONALIZED)رسپانس پر تشویش ہوئی وہ خط جس میں انہوں نے سفارتی مسلمہ طریق کار و آداب کو جھٹکتے، پاکستانی وزیر اعظم سے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کو کہا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد میں او آئی سی ممالک کے سفارتی حلقوں کی تشویش، اور اس پر بلاول کی دھواں دھار دھمکی، کیا عجب رنگ پکڑ رہی ہے، دیس اور پردیس کی یہ سیاست۔ ملکی اور عالمی سطح پر یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کہ بلاول کے اس آتشی بیان پر پی ڈی ایم ضرور کچھ وضاحتی بیان دے گی کیونکہ یہ سب کی سب یورپی یونین کو وزیر اعظم عمران خان کے رسپانس پر ہنوز پریشان ہیں۔ گویا انہیں بلاول کے اتنے غیر ذمے دارانہ بیان پر بھی اپنی کھال بچانے کی پروا نہیں۔
اس پس منظر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ او آئی سی کسی مخصوص حکومت، سیاسی پارٹی، یاملکی مخصوص قائد کی نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان، اس عالمگیر تنظیم کا ’’سرگرم‘‘ رکن رہا ہے اور اب پھر ہو گیا ہے۔
یہ آزاد مسلم ریاستوں کی تنظیم ہےناکہ محدود دائرہ جاتی،مانا کہ اقوام متحدہ کی طرح او آئی سی نے بھی رکن ممالک کے عوام الناس خصوصاً فلسطین وکشمیر کے مسلمانوں کو اپنے قیام سے تادم مایوس کیا ہے لیکن اتنی وسیع تر تنظیم سازی پھر کبھی ہونا محال ہے اب جو عالمی و علاقائی سیاست کی وہ روایتی بنیادیں ہلتی نظر آ رہی ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد غالب اور نئی طاقتوں نے رکھی تھیں۔
ایسے میں باامر مجبوری خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے امیر مسلم ملکوں کے لئے بھی اس کے سہارا بننے کے امکانات پیدا ہونے لگے ہیں۔اس کے ابتدائی عندیے مل رہے ہیں گلوبلائزیشن کا سہانا خواب چکنا چور ہو نہیں رہا ہو گیا تقسیم نوجاری ہے۔
بحیثیت مجموعی مسلمانانِ عالم کو جرمِ ضعیفی کی جو سزا بعض امیر و غریب مسلم ممالک کو الگ الگ خود او آئی سی کا اپنا نحیف وجود مکمل بے نقاب ہوا اب مکمل قابل اصلاح پوٹینشل کے ساتھ نیم جاں تنظیم میں جان ڈال کر اسے اس کے مطلوب کردار کی طرف لایا تو جا سکتا ہے یقیناً اس کےکرتا دھرتا اور تنظیم میں سرگرم ممالک کے’’قومی مفادات ‘‘ کم یا ختم تو نہیں ہوئے لیکن نئی تقسیم ایک اور ہی شکل اختیار کرتی معلوم دے رہی ہے جس تنظیم میں عالمی سیاست کے تناظر میں اپنی کیپسٹی بلڈنگ کے ساتھ بڑا کردار ادا کرسکتی ہے پاکستان اور کچھ روایتی دوست اور جاندار ممالک ہی مل کر او آئی سی کی مطلوب صلاحیت تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کریں گے ایسے میں او آئی سی، جیسی بھی ہے ہماری ہے۔
’’تمہاری ‘‘ کا کیا مطلب ؟ جبکہ بلاول تم بھی ہمارے ہو، لیکن اپنی نسل کا سیاست دان بننا ہے تو اپنی کیسپٹی بلڈنگ کرو، جو روایت پسند استاد نہیں کر سکتے تمہیں نمک کی کان میں تو دھکیل دیا ہوشیارنمک ہی نہ بن جانا اور ہاں تمہیں پڑھانے اور اسٹیٹس کو کی سیاست میں چلانے والوں کا یورپی یونین سے وزیر اعظم کا الٹا سوال کر دینے پر پریشان ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، ان کی طرح تمہارا خوفزدہ ہونا اپنی نسل پر حکمرانی کا خوا ب دیکھنے والوں کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
رائے عامہ پڑھنا سیکھو، رائے عامہ بنانا سیکھو اور انکلز غلط بتا رہے ہیں، انہوں نے سندھ ہائوس کو بھی اپنی سیاست کا جو ’’سندھ کارڈ‘‘ بنایا ہے یہ ہرگز نہیں چلے گا مکمل ناقابل ہضم گڑبڑ ہی گڑبڑ سندھ ہائوس میں چھانگا مانگا غیر آئینی تو ہے ہی یقیناً گمراہی بھی۔
سندھ کو سنبھالو، پنجاب میں بھی سیاست کرو، لیکن چھانگا مانگا والی نہیں نئے زمانے اور تقاضوں کی۔ خواہ رہو پنجاب میں، لیکن خود کو خود بنائو اور سندھ کو سنبھالنے کی کیپسٹی پیدا کرو۔بزرگوں کا احترام اپنی جگہ لیکن سیاست مکمل اپنی کرو ہو سکے تو اتنی جاں پیدا کرو کہ ان عمر گزاروں کو بھی سمجھائو کہ بس کریں۔ وماعلینا الالبلاغ