• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے بھی کبھی اپنے پائوں تلے زمین کھسکتی دیکھی ہوگی۔آپ کی بھی بات کرتے لائن کٹی ہوگی۔

دوبارہ رابطہ کیسے کرتے ہیں۔ آپ نے سوچا ہوگا۔یہ زمین کیوں کانپتی ہے۔ پل پہلے لرزتے ہیں پھر گر جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ایسا سوچنے والے کم، شور مچانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ حکومت وقت کو لتاڑنے لگتے ہیں۔ فون کٹنے پر یاآواز واضح نہ ہونے پر فون کمپنی کو سو سو سنادیتے ہیں۔ مگر ان واقعات یا حادثات کے بنیادی اسباب کی تہ تک جانے والے کتنے ہوں گے۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو تحقیق کرکے وجوہ جانتے ہیں اور کوئی سسٹم مرتب کرتے ہیں۔

اقبال نے کہا تھا:

اے اہلِ نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

ان دنوں اسلام آباد میں بہت سوں کے پائوں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے۔ محلات لرز رہے ہیں۔ کئی ارکان اسمبلی کی لائن کٹ رہی ہے۔ کچھ ٹیلی فونوں سے تنگ ہیں۔ کچھ فون کے انتظار میں ہلکان ہورہے ہیں۔

اس انتشار کے عالم میں جب ’’جیو نیوز‘‘ نے یہ خوشخبری دی کہ اس بحران زدہ ملک میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جس کے سربراہ نے اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کی چوٹی سر کرلی ہے۔ تو میں نہال ہوگیا۔ بھول گیا۔ تحریک عدم اعتماد کو۔ سندھ ہائوس کے کمیں گاہ بننے کو۔ ہر چند حفیظ جالندھری یاد آرہے تھے۔

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

پارلیمانی نظام میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن میرے لیے کیا فرق پڑے گا۔ بوم بسے یا ہمار ہے۔ ملک میں تو تبدیلی آتی ہے ایسے خاندانوں کے ذریعے جو ان ہنگاموں سے دور نئے نئے موضوعات پر تحقیق سے نئے آفاق تسخیر کررہے ہیں۔ ہمیں ٹی وی چینل صبح سے شام تک یہی محسوس کرواتے ہیں۔ اس ملک میں کچھ نہیں ہورہا۔ درسگاہوں میں صرف اسکینڈل ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں کشمکش ہے۔ پرانے چیئرمین نئے چیئرمین کو کام نہیں کرنے دے رہے۔ میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ کن اہم موضوعات پر کہاں کہاں تحقیق ہورہی ہے۔ تحقیق۔ تدقیق۔ غور و فکر ہم مسلمانوں کی میراث ہے۔ ساتویں صدی عیسوی سے تیرہویں صدی عیسوی تک کتنے عظیم مسلمان سائنسدان ہیں۔ الرازی 854ء، الخوارزمی 780ء، ابن الہیثم 965ء، الکراجی 980ء، جابر بن حیان 815ء، البیرونی 990ء، الکندی 801ء، الغ بیگ 1394ء، ابن سینا 980ء، الزہراوی 936ء، ابن رشد 1126ء۔ یہ سب سائنس۔ ریاضی۔ فلکیات۔ ادویات۔ زمین کی پیمائش۔ اور نہ جانے کون کون سے شعبوں میں تحقیق میں مصروف رہے۔ جب جدید ترین تو کیا عام سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ ان سائنسدانوں نے یونانی تحقیق کو عربی میں منتقل کیا۔ عربی سے یورپ نے اسے اپنی زبانوں میں ترجمہ کرکے ترقی کی راہ پکڑی۔ میرے سامنے اس وقت اہم مغربی محققین کی کتابیں رکھی ہیں۔ جن میں وہ اپنے قرونِ وسطیٰ کے ادب۔ دانش۔ سرجری۔ میڈیکل سائنس کو مسلم اسکالرز کا مرہون منت قرار دیتے ہیں۔ جارج سلیبہ کی Islamic Science and the Making of the European Renaissance اور مارک گراہم کی how Islam created the modern world قابل ذکر ہیں۔ یورپ امریکہ والوں نے نائن الیون کے بعد خاص طور پر مسلم تاریخ کے اس دَور پر از سر نَو کتابیں شائع کی ہیں۔

مجھے پشاور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے 59سالہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد۔ ان کی 31سالہ صاحبزادی ڈاکٹر نادیہ مسعود۔ ان مذکورہ بالا مسلم سائنسدانوں کے وارث محسوس ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد مسعود احمد کا موضوع بہت مشکل ہے۔ Viberation Based Hybrid Bridge Energy Harvester for Wireless Sensor Nods ان کے سپر وائزر۔ پروفیسر ڈاکٹر فرید اللہ خان ہیں جو بیرون ملک سے پی ایچ ڈی ہیں۔بیٹی ڈاکٹر نادیہ نے 2016میں ایم ایس سی کی۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کے لیے کام شروع کیا تو ڈاکٹر مسعود احمد نے بھی پھر اپنی تحقیق کا سفر شروع کردیا۔ پھر2022میں باپ بیٹی نے ایک ساتھ پی ایچ ڈی کرکے پاکستان ہی نہیں دنیا کو حیران کردیا۔ یہ بھی اس معاشرے میں جہاں ساری آسائشیں،پیسے کی ریل پیل ہوتے ہوئے بھی لوگ پڑھائی مکمل نہیں کرتے۔ ہم جیسے عام لوگوں کے لیے ڈاکٹر مسعود کی یہ تحقیق ان پرانے پلوں میں سینسر لگاکران کی تھرتھراہٹ کی بغیر تار کے مانیٹرنگ کرنے پر ہے۔ تاکہ پلوں کے گرنے سے پہلے ہی ان کا کچھ علاج ہوسکے۔ انہوں نے یہ موضوع اس لیے چُنا کہ وہ Viberation Studies میں مہارت رکھتے تھے۔ ارتعاش ایک ہلکا سا لفظ ہے۔ لیکن یہ پورا مبسوط علم ہے۔ ہمارے انجینئرز، کنسٹرکشن کمپنیاں ایسی تحقیق سے کتنا فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ میں ڈاکٹر مسعود احمد کو دل کی گہرائی سے مبارکباد اور سلام پیش کرتا ہوں۔

بیٹی ڈاکٹر نادیہ مسعود کا موضوع ہے Signal Reconstruction Computational Intellegent Technique یہ بھی ایک تازہ کار موضوع ہے کہ آپ کے رابطوں میں کہیں کہیں جو خلل پڑتا ہے۔ بات کرتے کرتے آواز کٹ جاتی ہے آپ کہہ اٹھتے ہیں سگنل نہیں آرہے۔ اس حوالے سے تحقیق کی گئی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اور ان رکاوٹوں کا تدارک کیا ہے۔ ان کے سپر وائزر محترم ڈاکٹر گل محمد بھی بیرون ملک سے پی ایچ ڈی ہیں۔

میری ان جواں ہمت ڈاکٹر مسعود احمد سے فون پر بات ہوئی۔ کسی وقت پشاور جاکر ان کو باقاعدہ گلدستہ پیش کروں گا۔ ایسے خاندان ہمارے لیے حکمران خاندانوں کی نسبت زیادہ قابل توجہ ہونے چاہئیں۔ کیونکہ اصل تبدیلی یہ لارہے ہیں۔ ابھی تک کسی صنعتی کمپنی نے ان باپ بیٹی سے رابطہ نہیں کیا۔ مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں میں توبڑی کمپنیاں ایسے موجدوں اور محققوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ وزیر اعظم پر اعتماد ہو یا نہیں۔ مجھے اس خاندان پر اعتماد ہے کہ وہ میرے وطن میں نشاۃ ثانیہ کے محرّک بنیں گے۔

تازہ ترین