میں اپنی سیاسی زندگی کا دو دہائیوں سے زائدعرصہ پارلیمانی سیاست میں گزار چکاہوں اس دوران ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ کا عینی شاہد ہوں، میں نے ہمیشہ اپنی سیاسی جدوجہد کا محور پاکستان کی ترقی و سربلندی اور عوام کی خدمت کو بنایا ہے.
میرا سیاست میں آنے کا اولین مقصد قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی کمیونٹی کے مسائل کا حل اور ان کے جائز حقوق کا تحفظ ہے، تاہم میں گزشتہ چند دنوں سے بہت تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کررہا ہوں جس کا ذمہ دار میں آپ کےبعض ناعاقبت اندیش مشیران کو سمجھتا ہوں ۔
جناب خان صاحب! آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ میں اس وقت بھی آپ کی پارٹی کا ایم این اے ہوں لیکن مجھے منحرف قرار دے کر میرے گھر پر حملے کرائے جارہے ہیں .
قومی ٹی وی چینلز پر مجھ سے بدزبانی کررہے ہیں،خان صاحب! مجھے آج بھی چار سال قبل سات اپریل 2018ء کا وہ دن یاد ہے جب آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسلام آباد میں میری رہائش گاہ تشریف لائے تھے اور میں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، میں نے میڈیا کی موجودگی میں بانی پاکستان قائداعظم کی مثال دی تھی جو اپنے بلند عزائم کی تکمیل کیلئے کانگریس سے مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔
میں نے آ پ کو پاکستان کیلئے امید کی کرن قرار دیا تھا اور ہمیشہ آپ کیلئے نیک جذبات کا اظہار کیا ، میری یہ دِلی خواہش تھی کہ آپ کے دورِ اقتدار میں قومی متروکہ وقف املاک بورڈ میں تقسیمِ ہند کے بعد نقل مکانی کرجانے والے ہندوؤں اور سِکھوں کی جائداد کی دیکھ بھال کیلئے کسی قابل21/22 گریڈ کے ریٹائرڈ پاکستانی ہندوشہری کو چیئرمین لگایا جائے، جبری مذہب تبدیلی کی روک تھام کی جائے.
غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے انیس جون کے سپریم کورٹ فیصلے پرمن و عن عمل کیا جائے، میں نے آپ کو چانکیہ جی کا یہ مشورہ بھی یاد دلایا تھا کہ ایک کامیاب حکمراں کو اپنے مشیران کی تعنیاتی قابلیت کی بناء پر کرنی چاہئے۔ تاہم مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے جتنے خواب لوگوں کو دکھائے، وہ سب سراب ثابت ہوئے اورخوشامدی عناصر پارٹی پر قابض ہوتے چلے گئے .
بدقسمتی سے آپ نے اہم حکومتی امور پر فیصلہ سازی کا اختیار ایسے غیرمنتخب مشیران کو سونپ دیا جنکی جڑیں عوام میں نہیں تھیں ۔ خان صاحب، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ گالم گلوچ کی سیاست کی نفی کی ہے اور تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا موقف بیان کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ میں نے قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ حق و انصاف کا بول بالا ہوگا ۔
خان صاحب، پارلیمانی نظام ِ حکومت میں عوام کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے نمائندے بذریعہ الیکشن منتخب کرکے پارلیمان کے مقدس ایوان میں بھیجیں، یہ عوامی نمائندے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم کا انتخاب کرتے ہیں، تاہم دنیا بھر کی مروجہ جمہوری اقدار کے مطابق وزیراعظم کا اعلیٰ عہدہ عوام کی امانت ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ بھارت میں اٹل بہاری واجپائی لوک سبھا میں صرف ایک ووٹ سے حکومت کھو بیٹھے تھے،پاکستان کے آئین کے تحت قومی اسمبلی کے ممبران کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرسکیں، اس آئینی طریقہ کار میں حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کی کوئی تفریق نہیں ۔
خان صاحب،آجکل میڈیا پرپی ٹی آئی کے ــ’’بکاؤ‘‘اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے بہت چرچے ہیں، میرا نام بھی ایسے باغی اراکین ممبران اسمبلی میں شامل کرکے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جنہیں وزیراعظم نے یہ جاننے کیلئے طلب کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ کتنے کروڑ روپے میں بیچا ہے، مجھے ایسا کوئی نوٹس فی الحال نہیں ملا لیکن میرا جواب جاننے کیلئے یہی کھُلاخط کافی ہے کہ پارٹی میں اختلاف رائے رکھنے والے مجھ سمیت تمام سیاستدان اصولوں کی سیاست کیلئے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے.
ہم سب ممبران کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے ہے،تاہم ہم اب عوام کا مزید دباؤبرداشت کرنے سے قاصر ہیں جو اپنے جائزمسائل کے حل کیلئے ہماری طرف دیکھتے ہیں جبکہ پارٹی میں ہمیں تمام تر خلوص کے باوجود نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
خان صاحب، میں چاہتا ہوں کہ آپ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی تحریک عدم اعتماد کو معمول کی ایک پارلیمانی کارروائی سمجھیں اور اپنی ممکنہ شکست کو انا کی جنگ نہ بننے دیں۔
آپ تبدیلی اور نئے پاکستان کا وعدہ کرکے برسراقتدار آئے تھے، تاہم اب واضح ہوچکا ہے کہ آپکے بعض مشیر شخصی حکمرانی کے فرسودہ نظام کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔
خان صاحب، تاریخ ان بہادر اشخاص کا نام عزت و احترام سے لیتی ہے جو اصولوں کی خاطر اپنا سر کٹوا دیتے ہیں لیکن اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اپنی سیاسی ناکامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے باعزت انداز میں استعفیٰ پیش کردیں۔
اس وقت آپکو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اگلے الیکشن کی تیاری کرنی چاہئے کہ آخر عوام کی وسیع تر حمایت اور سازگار ماحول کی دستیابی کے باوجود آپ نیا پاکستان بنانے میں کیوں ناکام ثابت ہوئے ہیں ؟آپکا خیراندیش، ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)